بھارت دوستی کا ووٹ

عبدالقادر حسن  منگل 24 جولائی 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے، امیدوار انتخابات کے دن کی تیاریاں کر رہے ہیں کہاجاتا ہے کہ پوری انتخابی مہم ایک طرف اور الیکشن کے دن ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانا اور ووٹ ڈلوانا سب سے مشکل کام ہے۔ الیکشن کی مہم کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بڑے حادثات ہوئے جن میں ہمارے پاکستانیوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی اور وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کوووٹ دینے کی حسرت لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔

انتخابات کی مہم کے دوران بم دھماکوں میں وہ طاقتیں ملوث ہیں جو پاکستان کا استحکام نہیں چاہتیں اور مستحکم پاکستان ان کو قبول نہیں لہذا کوئی بھی ایسی کوشش جو پاکستان کی مضبوطی اور ترقی کے لیے کی جارہی ہو یہ بیرونی طاقتیں اس میں اپنا گھناؤنا کردار ضرور ادا کرتی ہیں اور پاکستان کے اندرونی حالات کو غیر مستحکم کر کے ملک میں انتشار کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ موجودہ انتخابات کی مہم کے دوران بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہا ہے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے انتخابی امیدواروں سمیت شہادت کا درجہ پا گئی ۔ انتخابی امیدوار ووٹروں سے اپنے لیے حمائت کے طلبگار تھے لیکن اس دو جہاں کے مالک کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔

پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے ایسی سازشیں کوئی پہلی بار نہیں ہو رہیں بلکہ اس سے پہلے بھی وقتاً فوقتا ًپاکستان میں بم دھماکوں کے ذریعے انتشار کی مسلسل کو ششیں کی جارہی ہیں ان سازشوں کے پیچھے کون ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ہم سب جاتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ بھارت یہ سازشیں کرتا رہتا ہے لیکن اس کو ابھی تک ان سازشوں کاحاصل وصول کچھ نہیں ہو سکا جو پاکستانی اس کے آلہ کار بنتے ہیں وہ ذاتی مفاد کے لیے ملکی مفاد کو قربان کر دیتے ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کا سہارا بنتے ہیں یہ اندرونی غدار ان بیرونی سازشیوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ ہمارے اندر موجود ہیں اور حالات کا صحیح جائزہ لے کر بیرونی دشمنوں کی مدد کر کے پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کی مذموم کو شش کرتے ہیں جس سے ملک میں امن و امان کی فضاء خراب ہو جاتی ہے جو کہ پاکستان کی بیرونی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے ہیں لیکن جس ہمسائے سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ ہمسایہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اس کو شش میں ہے کہ کس طرح پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکے اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہو چکا ہے پاکستان دو لخت کرنے میں بھارت کا کرداد کوئی ڈھکا چھپا نہیں تھا جب کہ باقی ماندہ پاکستان کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشوں کا جال ہر وقت تیاررہتا ہے اور جب بھی موقع ملے ان سازشوں پر عمل کر کے پاکستان کو زک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمار ا دشمن ہمسائیہ بھارت یہ بالکل بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑے کیونکہ ایک مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کو وہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اس کے وارے میں ایک ایساپاکستان ہے جو کہ معاشی طور پر کمزور ہو اور اندرونی خلفشارسے دوچار ہو تا کہ وہ بھارت جیسی خطے کی بڑی ریاست کا طفیلی بن کر رہے۔

یہ بھارت کی ازلی خواہش ہے کہ پاکستان اس کے تابع ہو ۔ بھارت اور اس کے بیرونی آقاؤں کی بھی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بھارت کے زیر دست رکھا جائے لیکن ایٹمی پاکستان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں پاکستان کا دفاع ایٹمی پاکستان کی صورت میں ہی ممکن ہے اس لیے بیرونی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود پاکستانی ریاست مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کی افواج اور ان کی پشت پر کھڑے پاکستانی عوام ہیں جو اپنی افواج سے والہانہ محبت کرتے ہیں ان دونوں کا ملاپ مضبوط پاکستان کی ایک ایسی بنیاد ہے جس میں کوئی دراڑ نہیں اور نہ ہی کوئی دراڑ ڈالی جا سکتی ہے۔

انتخابی مہم کے دوران بم دھماکوں سے شروع ہونے والی بات کہیں اور نکل گئی لیکن یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی عمل کو سبو تاژ کرنے میں ہمارا ہمسایہ ملک ہی سب سے آگے ہے وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کوئی ایسی عوامی حکومت جائے جو  عوام میں مقبول ہو کیونکہ عوام میں مقبول حکومت ہی ملک کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس کو اپنے عوام کا تعاون حاصل ہوتا ہے اس کی پشت پر عوام کھڑے ہوتے ہیں ۔

عام انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی نئی ممکنہ حکومت بھارت کے مفاد سے میل نہیں کھاتی اس لیے اس کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کے الیکشن میں افراتفری پھیلا کر عوام میں انتشار پھیلا دیا جائے لیکن پاکستانی عوام اپنے دشمن اور اس کی سازشوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔ بھارت پاکستانی انتخابات کا دشمن ہے کیونکہ اس بار اس کے پسندیدہ سیاستدانوں کے بر سر اقتدار آنے کے تما م امکانات ختم ہو چکے ہیں اور اب کوئی ایسی حکومت پاکستان میں نہیں بنے گی جس کو پاکستانی عوام بھارت سے دوستی کے نام پر ووٹ دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔