کل، سروائیول

سید نور اظہر جعفری  منگل 24 جولائی 2018

’’وائرس‘‘ اور’’وائرل‘‘ انگریزی زبان کے دو دلچسپ الفاظ ہیں، ہمارا ارادہ ڈکشنری کھولنے کا نہیں ہے، ہم عمومی معنوں میں گفتگوکر رہے ہیں، وائرس پہلے میڈیکل کے میدان میں بہت چلتا تھا اب بھی چل رہا ہے کہ آیا وہاں سے تھا، بعد میں کمپیوٹر نے اسے اور بڑھاوا دیا اور یوں یہ عام ہوگیا، کیونکہ اب تو ڈاکٹری بھی موبائل پر چل رہی ہے۔ اس پر بعد میں گفتگو کریںگے۔

تو یوں میڈیکل میں کہا جاتا تھا ’’وائرس ہے‘‘ اورکمپیوٹر کی زبان میں ’’وائرس آگیا‘‘ دونوں صورتوں میں ’’وائرس‘‘ کا علاج کرکے اسے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ یعنی وائرس وجہ تکلیف ہے اور اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ وائرس کی مزید تفصیل اس کالم میں ہی آگے بیان کریںگے کہ یہ بہت ضروری ہے اور اس کا علاج بھی ضروری ہے اور وقت بھی ہے اس کام کا۔

اب دوسرا لفظ ہے ’’وائرل‘‘ یہ شاید ادبی اتنا نہ بھی ہو تو صحافتی ضرور ہے اور عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جو چیز ’’آناًفاناً‘‘ پھیل جائے اسے ’’وائرل‘‘ کہاجاتا ہے۔ ہٹلر نے خبرکے ’’وائرس‘‘ کو ’’وائرل‘‘کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ آج بھی کچھ ہٹلر ایسا کررہے ہیں اور اس کا ذریعہ ہے ’’سوشل میڈیا‘‘ یہ ایک اور ’’طرفہ تماشا‘‘ ہے جس میں دنیا عام طور پر اور پاکستانی قوم خاص طور پر مبتلا ہے اور لوگ اس میں ’’تہجد گزار‘‘ ہیں۔

لیکن پاکستان میں وائرس کے وائرل ہوجانے پر دکھ کے بجائے خوشی ہوتی ہے اور اس کے لیے ایک راہ فرار ہے جو استعمال کی جاتی ہے۔ ’’بدنام بھی گر ہوںگے تو کیا نام نہ ہوگا ‘‘ کراچی کا شاہ رخ کیس اور اب تازہ ترین ’’بہادر بچہ‘‘ کیس اس کی مثال ہیں اور قاتل کو ’’بہادر بچہ‘‘ کہنے والے کا ’’بچہ‘‘ یعنی اصل بچہ ان کو ملک کا وزیراعظم تصورکر رہے ہیں۔ ان کے ان عزائم کو ہم بہت پہلے اپنے کالم میں بیان کرچکے ہیں۔

تو اگر اس ملک کی قسمت اتنی ہی خراب ہے اور ایسا ہوگیا تو ملک کے ہر شہر میں ’’بہادر بچوں‘‘ کی تعداد کیا ہوگی؟ اور عوام کا ان کے ہاتھوں حال کیا ہوگا؟ انشا اﷲ ایسا نہیں ہوگا عوام اتنے بھی ’’وائڑے‘‘ نہیں، یہ سندھی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ’’سادہ بے وقوف‘‘ ہے خیر یہ تو ہم انجام کی طرف چلے گئے ابھی تو آغاز کی بات کرلیں۔

تو آج کل ہمارے یہاں وائرس وائرل ہے اور وہ کیا ہے آپ جانتے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے زبان بھی کھول لی ہے اور بولتے بھی ہیں جس سے وائرل وائرل خاصا پریشان ہے۔ ستر سال کے ظلم کے باوجود ان کے منہ میں زبان ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ یہ تو ’’ماٹی کے پتلے‘‘ تھے جدھرکہو چل پڑتے تھے۔ اب پوچھتے ہیں کیوں جاؤں اس طرف دیا کیا ہے تم نے؟ یہ ایک نئی پریشانی ہے، یعنی عوامی نیا وائرس جو وائرل ہوگیا ہے اور پرانے طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہے۔

ہم لکھتے لکھتے بہت جلد اپنی طرف یعنی ’’عوام‘‘ کی طرف آجاتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہم عوام میں سے ہیں۔ آٹاخرید کر کھاتے ہیں، ہمارے ’’فلور مل‘‘ سے ’’فائن آٹے‘‘ کی بوریاں ہمارے گھر نہیں آتیں اور عوام ہماری طرح یہ بات سمجھتے ہیں کہ آٹا فلور مل میں پیدا نہیں ہوتا بچپن میں ہم سب جو ’’چلی‘‘ سے آٹا لینے جاتے تھے یہی سمجھتے تھے کہ بجلی سے چکی چلتی ہے اور اس میں سے آٹا نکلتا ہے۔

بہت بعد میں یہ بات چھوٹے بچوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ آٹا گندم سے بنتا ہے۔ تب بھی وہ سوچتے ہیں گندم تو سرخ یا پیلا ہوتا ہے آٹا سفید کیوں ہوتا ہے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے اور اب ’’وائرس‘‘ کو یہ بھی پریشانی ہے کہ عوام کو پتا ہوگیا ہے، کپاس کہاں سے آتی ہے، شکرکیسے بنتی ہے اور آٹا کہاں سے آتا ہے۔ انڈہ مرغی، تیل، گھی بھی عوام سمجھ گئے ہیں، ملوں پہ تو ہم نے قبضہ کرلیا۔ ڈیزل سے لے کر آٹے تک سب کچھ ’’ابو‘‘ کرلیا مگر خام مال تو زمین اور کھیت میں پیدا ہوتا ہے اور وہ مزدور کے بغیر،کسان کے بغیرکچھ نہیں دیتی یہ تو اپنی بھینس کا دودھ بھی نکالنا نہیں جانتے۔

اب عوام کو مزید ’’گائے‘‘ نہیں سمجھا جاسکتا، عوام اب حق مانگتے ہیں اور ان کو حق دینے کی صورت میں نا کمیشن ہوگا نہ کک بیکس۔ تو کاروبار کیسے چلے گا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہر سوال کرنے والے کی جماعت سوائے ایک آدھ کے اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہے اور عوام کا استحصال کرنے میں سب برابر کے شریک ہیں۔ یہ اتحاد نئے نہیں ، یہ چہرے پرانے ہیں اور جو بھی نئے آئے ہیں پارٹیاں چھوڑ کر میدان میں وہ خوب ایوانوں کا لطف اٹھاچکے ہیں۔

ایک بار پھر ’’وائرس وائرل‘‘ ہے، مجھے سوچنا ہے، یہ میرا ملک ہے مگر مجھے زبانوں، علاقوں، کلچر میں الجھادیاگیا ہے۔ پانچ سال تک میں ان کی باتوں میں آکر اپنے جیسے انسانوں سے لڑتا رہتا ہوں، ان کے کاغذی وعدوں کے پورے ہونے کا انتظار کرتاہوں یہ ساری ملازمتیں اپنے نالائقوں کو دے دیتے ہیں، میرا لائق بچہ ان کے نالائق ’’بہادر بچہ‘‘ کا غلام بن جاتا ہے۔

ہر پانچ سال بعد ان کے وسائل اور میرے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی زمین جائیداد، کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی اور میرے مسائل میں اسی رفتار سے اضافہ ہوجاتا ہے جو کچھ میرے پاس ہے وہ ان کا ہوتا جا رہا ہے۔ مذہب، زبان اور علاقوں کے نام پر یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں، ان کا دادا، نانا بھی یہی کرتا تھا اور یہ بھی یہی کررہے ہیں، میرے باپ دادا بھی ان کے کہنے پر اعتبار کرتے تھے اور یہ مجھے بھی یہی کہہ رہے ہیں یہ امیر تر اور میں غریب تر ہوتا جا رہا ہوں۔

ان میں سے ہر ایک نے میرے نام پر دنیا سے قرضے لیے اور اپنے اکاؤنٹ میں حیلہ بہانوں سے ڈالے اور مجھے بیچ ڈالا، مجھے رہن رکھ دیا۔ میرے بچے بھی مقروض ہیں جب کہ انھوں نے تو روٹی بھی پوری نہیں کھائی دو وقت ان کے کتے کیک کھاتے رہے خداوند اب احتساب مکمل کردے۔ اس ملک کو جس جس نے نقصان پہنچایا ہے اس کا حساب کردے جو بے ایمان ہیں اور چہرے بدل کر ایماندار بن رہے ہیں ان کے نقاب اتار دے۔

تونے بے شک حساب کا آغاز کیا ہے تیری پکڑ جاری ہے مگر اے خدا اس ملک کے مجبور عوام کو وہ طاقت اور شعور دے دے جس میں، میں بھی شامل ہوں کہ ہم احتساب کردیں ہم بہت ظلم سہہ چکے اب برداشت جواب دے رہی ہے اے اﷲ یہ اب ہمیں فروخت کردیںگے اپنے فائدوں کے لیے ہم معاشی ’’مچھلی‘‘ کے پیٹ میں چلے جائیںگے اور ہماری رہائی دشوار ہوجائے گی ہمیں بچالے مالک۔

یہ برادران یوسف ہیں پاکستان کے اور پاکستان کے عوام کے، ہم قرضوں کے کنویں میں ہیں، یہ سب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہماری حالت پر ہنس رہے ہیں ان کا کوئی وطن نہیں ہے، مفاد پرستی کے عوض دنیا ان کے ساتھ ہے جو ہمیں غلام دیکھنا چاہتی ہے مگر اے میرے خدا تجھ پر یقین ہے کہ کل کا سورج تو میرے لیے ابھارے گا، کل کا روز میرے لیے ہے، میرے وطن پاکستان کے لیے ہے اور پاکستان جیتے گا میں یہ جنگ اپنے ووٹ سے لڑوںگا اب ’’سروائیول ہوگا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔