کراچی بدل گیا ہے

فہد احمد  منگل 24 جولائی 2018
میاں شہباز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری پہلی بار کراچی سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

میاں شہباز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری پہلی بار کراچی سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کراچی اب بہت تبدیل ہوچکا ہے، اس شہر پر کئی دہائیوں سے جو خوف کے سائے منڈلاتے تھے وہ اب چھٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں جہاں ایک طرف سیکیورٹی اداروں کا کردار نظر آتا ہے وہاں دوسری طرف نواز شریف کی حکومت کا کردار بھی نظر آتا ہے جبکہ شہر پر طویل عرصے تک راج کرنے والوں کی گرفت بھی اس پر کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس تمام صورت حال کی کیا وجہ ہے؟ آئیے ذرا تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ایم کیو ایم کا توتی بولتا تھا، لوگ گلی محلے میں تو کیا ڈرائنگ روم میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ جو ایم کیوایم کے خلاف بولتے، وہ یا تو اس شہر میں نہیں رہ سکتے تھے یا پھر ان کا بوریا بستر گول ہوجاتا تھا۔ ہمیں اپنے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب پولنگ اسٹیشنوں پر صرف ایم کیوایم کے امیدواروں کے حق میں ہی ووٹ پڑتے تھے اور پھر ایم کیو ایم کے جیت کے جشن میں پورا شہر نکل آتا تھا جبکہ ایم کیو ایم کے مخالفین کو اس شہر میں کسی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔

کراچی میں ایم کیوایم کی سخت مخالفت جماعت اسلامی کی صورت میں نظر آتی تھی جو اس کے سامنے مزاحمت کا مظاہرہ کرتی تھی، مگر اس کی مزاحمت بھی ایم کیو ایم کی کامیابیوں اور اس کے خوف کو کم نہیں کرسکی۔

کراچی میں جب بھی ایم کیو ایم الیکشن جیتتی تو شہر میں ’’جماعتی ٹھاہ!‘‘ کے نعرے گونجا کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے وہ وقت بھی جب 2007 میں ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف عمران خان نے بیانات دیئے تو ایم کیو ایم نے کراچی میں ان کا داخلہ بند کر دیا اور انہیں کراچی میں قدم نہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے عمران خان اسلام آباد سے کراچی کی طرف آئے مگر انہیں ایم کیو ایم کے کارکنان نے ایئر پورٹ سے ہی واپس اسلام آباد بھیج دیا۔ عمران خان کراچی میں قدم رکھے بغیر ہی واپس اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔

اسی طرح 12 مئی 2007 بھی کراچی کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن گزرا جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی کراچی میں قدم نہیں رکھنے دیا اور اسی دن 50 لوگ دن دیہاڑے مارے گئے۔ اس دن کراچی کا امن تباہ کردیا گیا اور لاشیں گرانے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں گاڑیوں کو جلادیا گیا۔ شہر میں بگڑتی صورتحال کو دیکھ کر چیف جسٹس کو کراچی میں قدم رکھے بغیر واپس اسلام آباد جانا پڑا۔

27 دسمبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کراچی سمیت پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے، ان ہنگاموں کے نتیجے میں شہر میں سیکڑوں گاڑیاں جلادی گئیں اور متعدد افراد بھی اپنی جان سے گئے؛ اور شہر کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ان واقعات کے ذمہ داران آج تک گرفتار نہیں کیے جاسکے اور شبہ ہے کہ ان کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت خود موجود تھی۔

2008 سےلے کر 2013 تک کا عرصہ بھی کراچی والوں کےلیے بہت بھاری گزرا جس میں کبھی پٹھان مہاجر فسادات ہوئے تو کبھی بلوچوں کے ساتھ مہاجروں کی لڑائیاں دیکھنے میں آئیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ بوری بند لاشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں کراچی کے ہزاروں نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس دور میں کراچی میں لوگوں نے صرف اپنے پیاروں کی لاشیں ہی نہیں اٹھائیں بلکہ کراچی کے تاجروں کےلیے شہر میں کاروبار کرنا بھی مشکل ہوگیا کیونکہ اس وقت میں کراچی کے تاجروں کو صبح و شام بھتے کی پرچیاں ملا کرتی تھیں۔ کراچی کے تاجروں کے پاس پورے دن میں اس وقت اتنے گاہک نہیں آتے تھے جتنے بھتہ خور اپنا بھتہ وصول کرنے کےلیے آیا کرتے تھے۔ بھتہ وصول کرنے کے پیچھے لیاری گینگ وار اور پیپلز امن کمیٹی کے کارندوں کا ہاتھ تھا جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے لیاری گینگ وار اور پیپلز امن کمیٹی کے کارندوں کو اپنا بیٹا بھی کہا تھا۔ اس شہر کے حالات خراب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔

دسمبر 2009 میں کراچی میں عاشورہ کے موقع پر لائٹ ہاؤس کے قریب ایک خوفناک دھماکے کے نتیجے میں 42 لوگ جاں بحق جبکہ 60 افراد زخمی ہوئے، جس کے بعد مشتعل افراد نے جلوس کی گزر گاہ پر واقع کئی تجارتی مراکز اور دکانوں کو آگ لگادی جس سے اربوں روپے مالیت کا سامان اور جائیداد جل کر راکھ ہوگئے۔ پولیس نے ان واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار بھی کیا مگر بعد میں سیاسی مفاہمتوں کی بنا پر سنگین جرائم میں ملوث افراد ضمانت پر رہا ہوگئے اور جو باقی بچے وہ پولیس کی غفلت کی وجہ سے عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

کراچی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں ہونے والا خوفناک آتشزدگی کا واقعہ بھی اس شہر کی تاریخ کا ایک بھیانک سانحہ ہے جس میں 260 کے قریب لوگوں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس کے پیچھے بھی بھتہ وصول کرنے کی کہانی نظر آتی ہے۔ 11 ستمبر 2012 کی وہ ہولناک شام کراچی کے شہری کبھی نہیں بھولیں گے جب ان کے پیاروں کو فیکٹری میں تالے لگا کر زندہ جلادیا گیا۔

سال 2011 میں پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے بیانات بھی کراچی کے لوگوں کی زندگی میں بہت سی مشکلات کا باعث بنے کیونکہ ذوالفقار مرزا کے ایک بیان کے جواب میں پورا شہر صرف 15 منٹ میں بند کرادیا جاتا تھا اور ہر جگہ فائرنگ کی آوازیں اور جلاؤ گھیراؤ نظر آنا شروع ہوجاتا تھا۔

اس شہر کے لوگوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے یا انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ایم کیو ایم کے رہنما ٹی وی شوز میں مخالف پارٹی کے رہنماؤں کو کھلے عام دھمکیاں دیتے تھے اور انہیں کراچی میں قدم نہ رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔

جب سال 2013 شروع ہوا تو شہر کی فضا بدلنا شروع ہوئی اور انتخابات کی گہما گہمی نظر آنے لگی۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی الیکشن مہم چلانا شرو ع کی تو شہرمیں جہاں ایک طرف ایم کیو ایم اپنی مہم چلاتی دکھائی دی وہیں دوسری طرف جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی زور دار مہم چلائی جس کے نتیجے میں کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کے علاوہ پی ٹی آئی کو بھی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ مگر اس شہر میں ایم کیو ایم ایک بار پھر فاتح قرار پائی۔

ایم کیو ایم کی فتح کے بعد شہر میں کچھ جماعتوں نے، جن میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی شامل تھیں، الیکشن کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور ایم کیو ایم پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے مختلف مقامات پر دھرنے دیئے جو کچھ دن جاری رہنے کے بعد ختم ہوگئے۔ اس الیکشن میں جماعت اسلامی نے کراچی میں انتخابات کے دن اس کابائیکاٹ بھی کردیا تھا۔

2013 کے الیکشن کے کچھ ہی عرصے بعد کراچی کے عوام وہ رات بھی کبھی نہیں بھولیں گے جب ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر متحدہ قومی موومنٹ کا جشن جاری تھا کہ ایسے میں ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے رہنماؤں پر غصے اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کارکنان کے ہاتھوں اس وقت کی رابطہ کمیٹی اور ایم کیو ایم کے منتخب نمائندوں کو اپنی جماعت کے کارکنوں کے ہاتھوں پٹوایا جبکہ میڈیا ورکرز کو بھی یر غمال بنائے رکھا۔ ان سے کیمرے وغیرہ چھین کر رکھ لیے گئے اور سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کرواکر انہیں واپس باہر جانے دیا گیا۔

11 مارچ 2015 کو رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا اور وہاں سے نیٹو اسلحہ سمیت دیگر سامان بھی برآمد کیا۔ اس کے علاوہ ایم کیوایم کے رہنما عامر خان سمیت 85 لوگوں کو رینجرز گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئی۔ اس چھاپے کے بعد ہی ایم کیو ایم کی شہر پر گرفت کمزور پڑنا شروع ہوگئی اور ایک کال پر شہر بند کرانے والی ایم کیو ایم کی ہڑتالیں بھی اب ناکام ہونا شروع ہوگئیں اور لوگوں کی نظر میں ایم کیوایم کا خوف کم اور رینجرز پر اعتماد بڑھنے لگا۔

نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان آرمی و رینجرز کے خلاف سخت نفرت انگیز تقریر کرتے ہوئے انہیں گالیاں بھی دیں اور ان پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے جس کے رد عمل میں عدالت نے پہلے اگست 2015 میں ان کی براہ راست تقریر دکھانے پر پابندی لگائی اور بعد میں ستمبر 2015 میں الطاف حسین کی تقاریر اور تصویر میڈیا پر دکھانے اور نشر کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی۔

دسمبر 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے اپنے مخالفین کو ایک مرتبہ پھر شکست دی اور شہر کی زیادہ تر یونین کونسلز سے ان کے نامزد چیئرمین کو فتح حاصل ہوئی جس کے بعد ایم کیو ایم نے وسیم اختر کو شہر کا میئر نامزد کیا جو ابھی تک عہدے پر موجود ہیں مگر وہ بھی اپنی کارکردگی کے ذریعے لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکے۔

مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سخت دھچکا اس وقت پہنچا جب سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایم کیو ایم سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے لوگ اپنی اپنی پارٹیوں سے الگ ہوکر تیزی کے ساتھ شامل ہونے لگے؛ اور مصطفی کمال پر اعتماد کا اظہار کرنے لگے۔

22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر بھی ایم کیو ایم کےلیے مشکل اور زوال کا باعث بنی جس نے رہی سہی ایم کیو ایم کی قوت کو شدید نقصان پہنچایا اور بالآخر ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے سفر کو آگے کی طرف بڑھانا شروع کیا مگر پھر عامرخان اور فاروق ستار کے اختلافات کھل کر سامنے آئے جن کے نتیجے میں ایم کیو ایم مزید دو دھڑوں (بہادر آباد اور پی آئی بی) میں تقسیم ہوگئی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے الیکشن 2018 کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم کے ووٹر تاحال پریشان نظر آتے ہیں کہ وہ ووٹ ڈالیں یا نہیں۔

مگر اب شہر کی صورتحال بدل گئی ہے۔ 2013 سے پہلے جو شہر میں ایم کیو ایم کا رعب و دبدبہ تھا وہ اب کہیں نظر نہیں آرہا۔ ٹی وی شوز میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے ن لیگ کے رہنماؤں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ کراچی میں کوئی جلسہ کرکے دکھائیں مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے سربراہ اور بڑے بڑے لیڈر کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن، متحدہ مجلس عمل، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی شہر کے تقریباً تمام حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترچکی ہیں۔

کراچی سے وزیراعظم کے لیے تین امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شامل ہیں۔ یہ تینوں امیدوار پہلی مرتبہ کراچی سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں جبکہ ان کے علاوہ پی ایس پی کے مصطفی کمال اور مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد بھی اس بار الیکشن میں فل فارم کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔

اس ساری صورتحال سے یہی نظر آرہا ہے کہ اب ’’کراچی بدل گیا ہے۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔