انتخابات 2018: ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز ہے

محمد مشتاق ایم اے  منگل 24 جولائی 2018
حکومت اور اپوزیشن میں رسہ کشی جاری رہے گی اور آئندہ حکومت کیلئے اپنے 5 سال پورے کرنا دیوانے کا خواب رہے گا۔ (فوٹو: فائل)

حکومت اور اپوزیشن میں رسہ کشی جاری رہے گی اور آئندہ حکومت کیلئے اپنے 5 سال پورے کرنا دیوانے کا خواب رہے گا۔ (فوٹو: فائل)

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے ملک میں آمدہ انتخابات کی کشتی امید اور اندیشوں کے بھنور کے درمیان سے ہوتی ہوئی آخرکار اپنی منزل کے ساحل کے قریب آن لگی ہے اور بظاہر اب انتخابات کے نہ ہونے یا ان میں تاخیر کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ ادارے اپنے اپنے کام میں مگن ہیں اور ان انتخابات کو کامیاب بنانے کیلئے پرجوش اور پرعزم ہیں۔ پاک فوج بھی الیکشن کمیشن کی مدد کیلئے اپنی تیاری مکمل کرچکی ہے اور اب بس سب کو انتظار ہے تو 25 جولائی کا جس دن عوام اپنے محبوب رہنماؤں کو چن کر ان کی پارٹیوں کو فتح سے ہمکنار کرکے نئی اسمبلیوں میں بھیجیں گے۔ ایک طرف تو حکومتی اداروں کی تیاری ہے تو دوسری طرف عوام کے بھی وارے نیارے ہیں کیونکہ وہ آج کل دوپہر کا کھانا کسی ایک پارٹی کے آفس سے کھاتے ہیں تو رات کا کھانا کسی دوسرے محبوب رہنما کے گھر یا دفتر میں نوش فرماتے ہیں۔ باقی دن میں چائے پانی تو کسی کھاتے میں نہیں، جتنی بار چاہو پیتے رہو اور ساتھ میں پارٹیوں کے ملک اور عوام کی محبت میں ڈوبے ہوئے ترانوں کے میوزک کا مزہ مفت میں ہے؛ تو پھر یہ عوام کیوں نہ اپنے ان رہنماؤں کے واری صدقے جائے۔

انتخابات سے پہلے تک عام ووٹرز ہر پارٹی کے ساتھ ہیں۔ جو جاتا ہے اسی کے ساتھ دعائے خیر کرلیتے ہیں کیونکہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کون کرسکتا ہے اسی لیے عام بندے کیلئے کسی بھی امیدوار کو اس کے منہ پر انکار کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر لیڈر یہی کہتا نظر آتا ہے کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اس کے ساتھ ہیں۔ انتخابات کے بعد تو ویسے بھی ایک غریب ووٹر کو پہچانتا ہی کون ہے، کجا یہ کہ اس کا کوئی کام کرے گا اور وہ بے چارہ غریب ووٹر اپنے ہنی مون (انتخابات کی مہم کے دوران) وقت کو یاد کر کرکے دل بہلا لیتا ہے۔ جو لوگ کسی پارٹی یا امیدار کے ساتھ سینہ تان کے چل رہے ہوتے ہیں یا ان کے جلسوں میں بھارت اور امریکا کو دھمکیا ں دے رہے ہوتے ہیں وہ دراصل یا تو ان کے رشتہ دار، دوست ہوتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں ان امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں پورا پورا فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہر پارٹی اور ہر امیدوار کے ساتھ ہمیں نظر آتے ہیں۔

اکثر اوقات وہ ہر الیکشن میں ایک نئی پارٹی اور نئے امیدوار کے ساتھ کندھے سے کندھے ملائے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کوئی پاگل نہیں ہوتے بلکہ دراصل وہ ہوا کے بدلتے رخ کی پہچان رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ چلتے ہیں اور ان کی وجہ سے پارٹی یا امیدوار کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، وہ لوگ ضرور فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ ہم نے ان پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ایسے ایسے لوگ بھی کاٹن پہن کر، بالوں کو رنگ لگا کر اور کالا چشمہ لگا کر چلتے دیکھا ہے جن کے کہنے پر ان کے اپنے گھر والے بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے رہنما (ویسے میں ان کو رہنما نہیں کہتا اور نہ ہی مانتا ہوں۔ یہ تو بس اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ان کیلئے یہ نام ہر جگہ مستعمل ہے ورنہ اگر ہم سارے لوگ رہنما کے صحیح معنی اور تشریح معلوم کرلیں تو کبھی خواب میں بھول کر ان کو رہنما نہ کہیں) ہمیشہ کی طرح بلند بانگ دعوے اور جھوٹے وعدے کررہے ہیں اور بھولے عوام ہمیشہ کی طرح ان کی باتوں پر تالیاں بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر رہے ہیں۔

لیکن یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں۔ یہ سلسلہ ازل (قیام پاکستان کے بعد) سے اسی طرح جاری و ساری ہے اور اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک ہم لوگوں کو اپنی حالت آپ بدلنے کا گر نہیں آجاتا اور یہ گر اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک ہم برادری ازم اور شخصیت پرستی کے بنائے ہوئے محلات کو اپنے ذہنوں سے نکال کر باہر نہیں پھینک دیتے۔ اور پھر جب تک ہمیں اپنا ملک، اپنا شہر اور اپنے لوگ عزیز نہیں ہوجاتے۔ وہ وقت آنے تک صرف ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ خدا بھی اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔

اب ہم آتے ہیں ان حالات و واقعات کی طرف کہ جن میں یہ انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ انتخابات ہونے کی حتمی تاریخ کے ساتھ ہی گہما گہمی شروع ہوگئی تھی مگر رمضان المبارک کی وجہ سے اس میں ذرا جوش کم تھا۔ خیر شوال المکرم کے چاند کے ساتھ ہی ہماری سیاسی گہما گہمی کو بھی چار چاند لگ گئے اور امیدوار تو رہے ایک طرف، ووٹرز بھی کمر کس کر میدان میں آگئے اور ملک میں انتخابات کے ماحول کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ انتخابی ریلیوں کے علاوہ جلسے اور کارنر میٹنگز کا میلہ سج گیا۔ آئے روز کچھ نہ کچھ انتخابی سرگرمی ملک کے ہر حصے میں نظر آنے لگی۔ اب اس وقت جب کہ انتخابات چند گھنٹے ہی رہ گئے ہیں، یہ ساری سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں اور سارے امیدوار اور ان کے سپورٹرز اب اپنی تمام توانیاں صرف کرکے اپنی برتری کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔

اس سارے سلسلے کے رنگ میں بھنگ اس وقت پڑی جب اچانک صوبہ کے پی کے اور پھر بعد میں بلوچستان میں انتخابی سرگرمیوں کے دوران خود کش حملوں نے سر اٹھایا اور جن میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اس دہشت گردی میں دو امیدوار بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور عوام میں بھی خوف کی ایک لہر نے جنم لیا۔ اسی طرح ملک کے سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی کو نیب عدالت نے انتخابات سے چند دن قبل اس وقت سزا سنا دی جب وہ دونوں ملک سے باہر تھے اور ان کی طرف سے فیصلے کے اعلان کو صرف سات دن بھی التوا کرنے کی درخواست کو بھی قابل قبول نہ سمجھا گیا اور اعلان کردہ وقت کو کئی بار تبدیل کرکے اسی دن تاخیر سے فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے مخالفین کے طرف سے بلند بانگ دعوے کئے گئے کہ اب نواز شریف اور ان کی بیٹی کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن ان سب لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق سزا کے فیصلے کے باوجود پاکستان پہنچے اور وہیں ایئرپورٹ سے انہیں گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا انہیں ایئرپورٹ سے کسی سے بات کرنے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔

اس کے برعکس جب آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو سپریم کورٹ میں بلایا گیا تو نیب سے کہا گیا کہ ان کو الیکشن والے دنوں کے بعد بلایا جائے اور ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔ اسی طرح کے ملک میں کچھ اور ہونے والے فیصلوں کی بدولت عوام کی ایک اکثریت میں یہ تاثر ابھرا کہ ملک کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور شاید اس طرح بالواسطہ کسی ایک جماعت کیلئے انتخاب جیتنے کا راستہ ہموار کیا جا رہے۔ یہ شکایت کسی ایک جماعت نہیں بلکہ مختلف جماعتوں کے لبوں پر آئی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں پہلی سماعت پر کوئی فیصلہ دینے کی بجائے اگلی سماعت انتخابات کے بعد رکھنے پر بھی لوگوں کے ذہنوں میں شبہات کو جنم دیا کہ ان لوگوں کو انتخابات کی مہم میں شامل ہونے سے روکنے پر ایک ناانصافی کی گئی ہے۔

میں اوپر درج کئے گئے فیصلوں پر قطعاً کوئی قانونی رائے نہیں دے رہا اور نہ ہی میں کسی فیصلہ کو صحیح یا غلط کہہ رہا ہوں بلکہ میں تو ان حالات و واقعات کو بیان کررہا ہوں جو ان کے نتیجے میں اس ملک میں پیدا ہوئے۔ ہمارے سارے سیاسی قائدین پہلے ہی صبر و تحمل اور برداشت کے جذبے سے عاری ہیں تو ان واقعات کے بعد ان کی زبان میں مذید تیزی آگئی اور سارے ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کو جھوٹا، چور، ڈاکو، زانی، غدار اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازنے لگے۔

میری رائے میں اگر جو فیصلے نو ماہ سے زائد عرصے سے نہ ہوسکے تھے اگر انہیں انتخابات ہوجانے تک محض چند دن اور آگے کرلیا جاتا تو اس میں اتنے حرج والی بات نہ تھی اور اس سے کسی بھی ادارے یا شخصیت پر اس طرح کے الزامات کی نوبت بھی نہ آتی۔ نواز شریف تو پہلے ہی انتخابات سے نااہل ہوچکے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ ن لیگ کے جلسوں میں شرکت کرسکتے تھے اور مریم نواز اگر انتخابات لڑ بھی لیتیں اور فرض کریں وہ جیت بھی جاتیں تو جب بھی اس کے بعد نیب کا فیصلہ آتا تو وہ نااہل ہوجاتیں تو اس سے ان کی شہرت پر اور زیادہ حرف آتا بجائے اس فیصلے کے کہ جس کے بعد ملک میں ان کی رائے کا ساتھ دینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ اضافہ انہیں انتخابات میں جتوا تو نہیں سکتا مگر ن لیگ کو جیتنے کیلئے اچھی خاصی مدد فراہم کرسکتا ہے۔

خیر! جو ہوا وہ واپس تو ہو نہیں سکتا۔ ان سارے فیصلوں اور لگائے جانے والے الزامات کی کیا حقیقت ہے اور ان ساری باتوں پر سے پردہ کب اٹھے گا؟ وہ تو اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں پیش آنے والے اہم واقعات کی سچائی ہماری قوم کے سامنے پندہ بیس سال کے بعد ہی آتی ہے۔ تو اگر زندگی رہی تو یہ سارے راز (اگر راز ہیں تو) کبھی نہ کبھی کھل ہی جائیں گے۔

اس کے علاوہ ختم نبوتﷺ کے معاملے پر ملک میں دیگر مذہبی جماعتوں اور بالخصوص تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ اور پھر اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تھا جسے حکومت مناسب طریقے سے ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد تحریک لبیک پاکستان نے اس معاملے کی بنیاد پر ایک تو شہرت حاصل کی اور دوسرے اس نے سیاسی میدان میں بھرپور نمائندگی کا فیصلہ کیا جو کہ لوگوں کی طرف سے پذیرائی ملنے پر کیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اس الیکشن کیلئے پورے ملک سے جس پارٹی کے سب سے زیادہ امیدوار حصہ لے رہیں ہیں وہ اسی جماعت یعنی تحریک لبیک پاکستان کے ہیں۔ اتنے امیدوار پرانی اور منجھی ہوئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ایک اتحاد کو بھی نہ مل سکے کہ وہ ہر حلقہ انتخاب سے اتنے امیدوار کھڑے کرسکتیں۔ الیکشن کا نتیجہ تو 25 جولائی کی شام کو ہی پتا چلے گا لیکن یہ بات بہت واضح ہے کہ تحریک لبیک پاکستان اس وقت پورے پاکستان میں ایک اچھے خاصے ووٹ بینک کی مالک ہے۔ اب اس ووٹ بنک سے وہ کتنی نشستیں حاصل کرے گی؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اب یہ پارٹی دوسری پارٹیوں کیلئے ایک آسان حریف نہیں اور اگر یہ خود نہ بھی جیت سکی تو کسی دوسرے کو جتوانے یا ہرانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کی جو صورتحال تقریباً ایک سال پہلے تھی اب اس سے کہیں نیچے آچکی ہے جس کی وجہ اس کے قائدین کے غیر منصفانہ اور اپنے نظریات سے ہٹ کر بلکہ اس کے خلاف کئے جانے والے فیصلے ہیں۔ عمران خان ساری زندگی جن نظریات کی تبلیغ کرتے رہے اور جس قسم کے لوگوں کے خلاف وہ کھڑے ہوئے تھے، جس نظام کے کے خلاف وہ سیسہ پلائی دیوار بننا چاہتے تھے، جیسے جیسے الیکشن نزدیک آتے گئے وہ سارے نظریات ایک ایک کرکے ان کی فہرست سے نکلتے چلے گئے کیونکہ اب کی بار عمران خان کیلئے تخت یا تختہ والی صورتحال ہے۔ اگر اس بار بھی ان کی وزیراعظم بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو پھر آگے چل کر شاید یہ کام آسان نہ ہوگا۔ اس لیے اب کی بار وہ ہر عمل کرنے کو تیار ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیاں ہر مرتبہ انجام دیتی آئی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے نظریات ایک طرف رکھ کر پہلے وزیراعظم بننے کی ٹھان لی ہے۔ اس کیلئے انہوں نے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں، وہ بھی سب کے سامنے کی بات ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ سیاسی صورتحال میں وہ ایسے وزیراعظم بنتے نظر نہیں آرہے کہ جو خود اپنے بل بوتے پر حکومت بناسکے گا جبکہ مخلوط حکومت کے وہ حامی نہیں کہ اس طرح حکومت اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکتی۔ اب دیکھتے ہیں اپنے اس نظریئے پر وہ کتنی دیر قائم رہتے ہیں۔

دیگر مذہبی جماعتیں اپنے اپنے علاقوں سے پہلے کی طرح اپنی سیٹیں انیس بیس کے فرق سے سمیٹ لیں گی اور پھر حکومت میں آنے والی جماعت کے ساتھ لین دین کریں گی۔ اس کے علاوہ آزاد امیدوار اس بار کیا کارکردگی دکھاتے ہیں وہ بھی پتا چل جائے گا لیکن وہ کسی اور کی ہار میں ضرور ایک اہم کردار ادا کریں گے اور جیتنے کی صورت میں اپنے فائدے والی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ آزاد امیدوار بھی پہلے کی طرح سیٹوں کا کچھ حصہ تو لے ہی جائیں گے اور ان کی ایک ایک سیٹ بہت قیمتی ہوگی۔ خاص کر اس صورت میں جب اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کیلئے بہت تھوڑی تعداد میں دیگر سیٹوں کی ضرورت پڑے گی تو پھر قرعہ فال آزاد امیدواروں کے نام نکلنے کا زیادہ چانس ہے۔

پیپلز پارٹی کی جو حالت 2013 کے الیکشن میں ہوئی تھی اب قدرے اس سے بہتر ہے لیکن ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ پنجاب کو زیر کرسکے۔ اب زیادہ سے زیادہ اس کے حاصل کردہ ووٹوں میں تھوڑا فرق پڑ جائے گا کیونکہ بلاول بھٹو کی بھاگ دوڑ کی بدولت دوبارہ یہ پارٹی کچھ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ سندھ میں تو اس کی کامیابی یقینی ہے لیکن باقی صوبوں میں اگر یہ کامیاب ہوتی ہے تو یہ ایک سرپرائز ہی ہوگا۔

اب رہ گئی مسلم لیگ ن، تو اس کے پچھلے پانچ سال کی حکومتی کارکردگی سب کے سامنے ہے اور ویسے بھی گزشتہ حکومت کو کوسنے والے زیادہ اور تعریف کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ عوام بھی پانچ سال میں تھک چکے ہوتے ہیں اور تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ن لیگ کی قیادت کے ساتھ پیش آنے والے پے درپے حالات و واقعات نے اس کی مقبولیت میں دراڑ ڈالی تھی لیکن چونکہ دوسری طرف بھی کوئی ایسا مثالی لیڈر یا جماعت نہیں جس پر عوام مکمل اعتبار کرسکیں یا جس نے کوئی اپنے نظریات کی پاسداری کی ہو یا جس نے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہو، تو اس وجہ سے مسلم لیگ ن کی جماعت کو ان سب حالات و واقعات سے اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جاسکا جس قدراس کے ختم ہوجانے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ پھر نواز شریف اور ان کی بیٹی کا سزا کے فیصلے کے باوجود ملک میں واپس آجانے اور حکومت کی طرف سے ان کے استقبال کیلئے جانے والوں کے راستے بلاک کرنے اور پھر ان دونوں کو ایئرپورٹ کے اندر سے گرفتار کرنے سے ان کی جماعت کی مقبولیت کم نہیں بلکہ قدرے بڑھی ہے جو الیکشن میں اس جماعت کو فائدے پہنچائے گی۔

اس سارے تجزیئے کے بعد میری رائے یہی کہ آنے والی حکومت فاتح جماعت کیلئے سونے کا تاج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ثابت ہوگی۔ کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی اور واضح اکثریت نہ ہونے کا مطلب دوسری جماعتوں اور آزاد امیدواروں کا ساتھ ملانا ضروری ہوگا؛ اور جب ایسا ہوگا تو کوئی جماعت اپنے منشور پر مکمل عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ جو جماعت جیتے گی، اس کے نزدیک الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہوں گے اور جو ہار جائے گا وہ کہے گا ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوگی۔ اس پر مزید یہ کہ اس بار تو کئی جماعتیں پہلے سے ہی الیکشن کے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے پر سوال اٹھا چکی ہیں۔

بدقسمتی سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد سے لیکر اب تک کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن کی بدولت مختلف جماعتوں کی طرف سے خدشات کو سر اٹھانے کا موقع ملا۔ اس سلسلے میں فیصلوں کے بجائے فیصلوں کے وقت نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ایسی صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رسہ کشی کا کھیل جاری رہے گا اور آنے والی حکومت کیلئے اپنے پانچ سال پورے کرنا دیوانے کے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔

جس جماعت نے پورے پانچ سال گزشتہ حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا، اگر اب وہ حکومت میں آجاتی ہے تو کیا اسے دوسری جماعتیں آسانی سے حکومت کرنے دیں گی؟ خاص کر جب اس کی حکومت دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہو۔ اور اگر دوبارہ مسلم لیگ ن کسی بھی طریقے سے پھر حکومت میں آگئی تو اس کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کی اپوزیشن پہلے والا سلوک ہی کرے گی۔ اس سارے فساد میں نقصان ہوگا تو صرف اس عوام کا جو کب سے دعا مانگ رہی ہے کہ ان کو کوئی ایسا چارہ گر مل جائے جو ان کے دکھوں کاعلاج کرسکے اور ان کے مسائل کو حل کرسکے۔

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

اللہ کرے میرے خدشات درست ثابت نہ ہوں اور ہمیں ایک ایسی مضبوط اور اچھی حکومت نصیب ہو جو پاکستان اور اس کے عوام کے حق میں بہتر ہو (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔