بڑھتی ہوئی اموات

نسیم انجم  اتوار 12 مئ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

میں ایک چھوٹا بچہ ہوں میری عمر 9 یا 10 سال ہوگی، میں اس وقت بے حد تکلیف میں ہوں، میرے چاروں طرف آگ ہی آگ اگ آئی ہے اور بہت ساری آوازوں کا شور، گھپ اندھیرا اور بدن سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں، میں اپنی ماں کو آواز لگانا چاہتاہوں، بابا کو بلانا چاہتا ہوں، لیکن میرے حلق میں ایک گولہ سا آکر پھنس گیا ہے، میں بول نہیں سکتا، چیخ نہیں سکتا، نہ جانے اچانک مجھے کیا ہوا ہے،

منظر ہی بدل گیا ہے ورنہ کچھ دیر پہلے تو ایسا نہیں تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، غبارے والے سے میں نے غبارہ خریدا تھا، میں اس سے کھیل رہاتھا، پارک میں بہت رونق تھی، بہت سارے لوگ تھے، وہ سب کہاں گئے؟ کیا وہ بھی میری طرح اس آگ میں پڑے جھلس رہے ہیں؟ اور ٹھنڈی ٹھنڈی نرم نرم گھاس کو بھی آگ نگل گئی کیا؟ یہ آگ میرے جسم کے ہر حصے میں داخل ہوگئی ہے، اب میں کبھی اس پارک میں نہیں جاؤںگا، گھر سے ہی نہیں نکلوں گا، لیکن سودا سلف کون لائے گا؟ میں ہی تو گھر کا کام کرتا ہوں، چھوٹے چھوٹے، منے منے کام، ابا بڑے کام کرتے ہیں،

میں بڑا ہوجاؤں گا تو میں بھی بڑے بڑے کام کروں گا، اپنے بھائیوں کا علاج بھی کرواؤں گا، میری ماں ان دونوں کی خدمت کرتے کرتے تھک چکی ہیں، بابا بھی پریشان ہیں، ہمارے گھر کے حالات جو خراب ہیں، بیماری، دکھ، غربت، یہ سب ہمارے حصے میں کیوں ہے؟ اماں کہتی ہیں، ایسے نہ کہا کرو، یہ آزمائش ہے، ٹھیک ہے نہیں کہوںگا لیکن، لیکن… یہ ، یہ مجھے کیا ہورہا ہے، اندھیرا بڑھتا جارہا ہے، میں کہاں ہوں، میں کہاں ہوں…؟ اماں! میرے پاس آؤ اور پھر وہ بچہ بے ہوش ہوگیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوگئی ہے اور چند گھنٹوں بعد ہی اس کی روح عالم بالا کی سمت پرواز کرگئی۔

یہ معصوم بچہ غالباً جس کا نام عبدالرحمن تھا اور وہ عزیز آباد میں اپنے والدین اور دو ذہنی مریض بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا، حادثے کے وقت وہ حسب معمول پارک میں کھیلنے گیا تھا لیکن صد افسوس موت کے کھیل نے اسے اپنی بانھوں میں سمیٹ لیا، ایک معصوم بچہ وہ بھی تھا، جو اپنے والد صاحب کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تھا، نماز کی ادائیگی کے بعد وہ اپنے والد صادق خٹک کے ساتھ مسجد سے باہر نکلا تو فائرنگ کی زد میں آگیا، اس بچے کا نام ایمل تھا، اس کی عمر صرف 4 سال تھی، ننھا منا بچہ خوشی خوشی عبادت کی غرض سے گھر سے اپنے ابا کی انگلی پکڑ کر مسجد پہنچا تھا،

اس کے ننھے منے ذہن میں بھی نہیں ہوگا کہ قدرت کی طرف سے اس کی عمر کی مدت پوری ہوچکی ہے اور اسے اس چھوٹی سی عمر میں موت کی منزل کی طرف روانہ ہونا ہوگا، اس گھر سے دو جنازے بیک وقت اٹھے، اوروہ تھے باپ اور بیٹے کے۔ آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے قاتلوں نے کچھ ایسا پلان بنالیا ہے کہ ایک ہی گھر کے دو تین افراد کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور وقت مقررہ پر اس گھناؤنے منصوبے پر عمل کرلیا جاتا ہے۔

تقریباً ایک دو ماہ سے پابندی کے ساتھ جلسے، جلسوس پر باقاعدہ حملے کیے جارہے ہیں، کبھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی اے این پی، پی پی پی کے حمایتی دشمن کے حملوں میں جاں بحق ہوجاتے ہیں، یہ کیسا سنگین مذاق ہے کہ ہر روز بلاناغہ انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، اگر یہ کام ایجنسیاں کررہی ہیں اور جو خصوصی طور پر بیرون ممالک کی ہیں تو پھر بھی خیر ہے اور اگر آپس میں ہی ایک دوسرے کا گلا کاٹا جارہا ہے تو بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں محفوظ نہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اﷲ پاک نے فرمایا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور قاتل کی بخشش بھی نہیں۔

دہشت گردی کی لپیٹ میں مصعوم بچے اور خواتین بھی آچکی ہیں۔ ہر دن غریب کا چولہا بجھتا ہے، کسی سہاگن کا سہاگ اجاڑا جاتا ہے، کمانے والے جب دور بہت دور چلے جائیں تو گھر کس طرح چلے گا، صدمے کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی مدد بھی نہیں کرتا جس سے زندگی گزارنا سہل ہوجائے، سیاسی جماعتیں اور حکومت کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ غمزدہ گھرانے کے ماہانہ اخراجات کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی جائے، تاکہ فاقہ کشی کی نوبت نہ آسکے اور خواتین معصوم بچوں کو چھوڑ کر ملازمت کی غرض سے باہر نہ نکلیں، چونکہ ایسی صورت میں سب سے زیادہ بربادی معصوم بچوں کی ہوتی ہے، گلی کوچوں میں کھیلنے کودنے والے بچوں کی معصومیت کو تاک میں بیٹھے لوگ بہت جلد ہی چھین لیتے ہیں اور یہی ننھے بچے بلوغت کی عمر پہنچنے تک جرائم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ منفی سوچ رکھنے والوں میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، غربت بڑھتی جارہی ہے اس کے آگے بند باندھنے والے دور دور تک نظر نہیں آتے ہیں۔ اب عزیز آباد میں دھماکوں کے جاں بحق ہونے والے بچے کو ہی لے لیجیے کہ وہی والدین کی آس تھا، باقی دو بیٹے ذہنی بیمار ان کی دوا علاج کا خرچ اپنی جگہ پیٹ کا جہنم اپنی جگہ، ایک آدمی کیا کیا کام کرے…؟ اور پھر اتنا بڑا سانحہ کہ وہ بچہ جو امیدوں کا مرکز تھا ذہنی طور پر نارمل جسمانی طور پر صحت مند، ماں باپ کی آنکھوں کا تارا وہ اس جگہ چلا گیا جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا، ان کے گھر قیامت اترآئی ہے قیامت تو بے شمار گھرانوں میں اتری ہے،

آہ وبکا، بہن کی صداؤں نے فضا کو سوگوار کردیا ہے، دل غمگین ہیں اور امن کی فاختہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے، کس سمت اس نے اپنی پرواز کا رخ موڑ لیا ہے…؟ اس کی واپسی کی تدابیر بھی نہیں کی جارہی ہے، کیا اب امن اور چین کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے… جو سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔ یہ شہر زندہ لوگوں کا شہر ہے، ان لوگوں کا شہر جو سانس لیتے ہیں، امید باندھتے ہیں، حوصلہ جواں رکھتے ہیں اور ہر لمحہ اپنے آپ کو تازہ دم رکھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ جو زندہ سلامت ہے تو اس کی کیفیت اس مقولے کے مطابق ہے کہ ’’جب تک سانس تب تک آس‘‘ زندگی، امید اور روشنی ہے، انسان کو اس وقت تک ہر حال میں جینا پڑتا ہے جب تک اس کا رب اسے نہ بلالے۔

حالات جو بھی ہوں، سانحات جس طرح بھی ظہور میں آئیں، زندگی کی گاڑی کو دھکیلنا ہی پڑتا ہے، خوف و ہراس ہو، شہر میں سوگ ہو یا ہڑتال ہو، جنازے اٹھیں، شہر ویران اور قبرستان آباد ہوں، زندگی کا پہیہ چلتا رہے گا کہ چلانا انسان کے بس میں نہیں، انسان کے بس میں تو کچھ بھی نہیں ہے، جو وہ چاہتا ہے، کبھی ہوتا اور کبھی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں اور انسان بے چارہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے لیکن اس بے بسی اور لاچاری میں بھی وہ ہر روز کنواں کھودتا اور پانی پیتا ہے، خوانچہ لگاتا ہے،

محنت مزدوری کرتا ہے، دفاتر، کارخانے کھلتے ہیں اور کام ہوتا ہے لیکن ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب بم بلاسٹ ہو یا ٹریفک جام ہوجائے اور ایسے میں زور آور کمزور لوگوں سے ان کی جیبیں خالی کرالیں، خواتین کے زیورات اتروالیں، کبھی بھائی بہنوں کے زیورات خرید کر انھیں دیتے تھے اور آج کے بھائی لوگ سونا چاندی اتروالیتے ہیں، بحیثیت مسلمان ہم سب بھائی بھائی تو ہیں پھر ایک دوسرے کے ساتھ اتنا بدتر سلوک کیوں…؟ اس طرح کی چھینی ہوئی دولت زندگی کو غیر محفوظ بنادیتی ہے، عمر کو مختصر کردیتی ہے، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کفن بھی نصیب نہیں ہوتا، نہ جانے وہ کون سا قبولیت کا لمحہ ہوگا جب گور کنوں نے افلاس سے تنگ آکر بھوکے بچوں کو بھوک سے نڈھال اور بیوی کو چارپائی پر لگا دیکھ کر اﷲ کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی ہوگی کہ ’’اے اﷲ! ہمارے رزق کو بڑھادے، زیادہ سے زیادہ کام ملے تاکہ آنے والے پیسوں سے بیوی کا علاج اور بچوں کا بھوکا شکم سیر ہوسکے۔‘‘

اور دعا قبول ہوگئی۔ شہر اجڑتا جارہا ہے اور قبرستان کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، گورکن کی ذرائع آمدنی بڑھ چکی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔