ووٹ ۔ آپ کے ضمیر کی آواز

عبدالقادر حسن  بدھ 25 جولائی 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں پاکستان کے عوام آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے حکمرانوں کا چناؤ کر رہے ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران ملکی فضاء میں اتار چڑھاؤ رہا ۔ عوامی اجتماعات میں ایسے سابق عوامی نمایندوں کو عوام نے گھیرے رکھا جو کہ پانچ سال کے بعد اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد حلقے میں پہنچے تھے ان کو عوام کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی حلقوں میں امیدواروں کے ساتھ نازیبا سلوک کی خبریں بھی سننے میں آئیں۔ عوامی شعور کی بیداری میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا جس نے ان عوامی نمایندوںکو ٹیلی ویژن اسکرین پر عوام کے سامنے بٹھا کر ان کو بے نقاب کیا اور عوام کو ان کے نمایندوں کا اصل چہرہ دکھا دیا۔

انتخابی جلسوں میں بم دھماکوں کے نتیجے میں کئی افراد شہید ہوئے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن صفدر انتخابی مہم کے دوران ہی جیل میں ڈال دیے گئے ۔

میاں نواز شریف کا نعرہ ’ووٹ کو عزت دو‘ ان کے ساتھ ہی جیل میں بند ہو گیا۔ ان کے بھائی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف انتخابی مہم کے دوران تنہا اپنے متوالوں کا لہو گرماتے رہے ہیں ۔ وہ  پرامید ہیں کہ ووٹر ان کی متحرک شخصیت اور عوامی منصوبوں کو دیکھتے ہوئے آیندہ پانچ برس کے لیے اقتدار ان کے حوالے کریں گے ان کی انتخابی مہم کا زور پنجاب میں رہا دوسرے صوبوں میں ان کو پذیرائی کی توقع کم ہی ہے۔ میاں نواز شریف انتخابی مہم کے آغاز میں تو جلسوں سے خطاب کرتے رہے لیکن بعد میں احتساب عدالت سے سزا کے بعد وہ جیل میں پہنچا دیے گئے مسلم لیگ نواز کے متوالے ان کے خطابات سے محروم رہ گئے۔

پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو بھی اپنے جیالوں کا لہو گرماتے رہے ان کا زیادہ زور سندھ میں رہا کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا پہلا الیکشن ہے اور اس تعارفی الیکشن میں وہ صرف سندھ سے ہی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ سندھیوں میں ابھی تک ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور وہ بھٹو کے شیدائی اور جیالے ہیں خاص طور پر اندرون سندھ میں بھٹو ابھی تک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں ۔ اس لیے بلاول جو کہ اپنی زندگی کا پہلا انتخاب لڑنے جا رہے ہیں وہ بطور پارٹی چیئرمین یہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی انتخابات میں اتنی نشستیں حاصل کر لے جتنی گزشتہ الیکشن میں ان کے حصے میں آئی تھیں ۔

پاکستان کی متحرک اور نوجوانوں پر مشتمل پارٹی تحریک انصاف بھی الیکشن میں کامیابی کی دعویدار ہے اس کے لیڈر عمران خان اکیلے ہی ملک بھر کے طوفانی دورے کرتے رہے اور جتنا ممکن تھا وہ عوام کے پاس پہنچ کر ان کو اپنا ایجنڈا بتاتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفین پر گرجتے برستے رہے۔ گزشتہ الیکشن میں کامیابی کے دعوے کرنے کے باوجود تحریک انصاف تیسری پارٹی کے طور پر قومی اسمبلی میں موجود رہی البتہ پنجاب میں اپوزیشن کا کردار تحریک انصاف کے حصے میں آیا۔

عمران خان مطمئن ہیں اور اس امید میں ہیں کہ اس دفعہ پاکستانی عوام ان کی پارٹی کو بھر پور ووٹ دیں گے اور آیندہ پانچ سالہ اقتدار کے لیے ان کو منتخب کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو واضح اکثریت کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے اتحاد نہیں کریں گے اور اگر ان کو مطلوبہ اکثریت نہ ملی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے۔

عمران خان جس طرح انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو سخت لب ولہجے میں نشانہ بناتے آئے ہیں یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ اگر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں تو ان دونوں جماعتوں سے ان کا اتحاد ممکن نہیں۔ دراصل وہ عوام کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کو واضح اکثریت کی ضرورت ہے تا کہ وہ بیساکھیوں کے بغیر حکومت بنا سکیں اور اپنی مرضی سے فیصلے کر سکیں ۔ اس بات کا علم تو آج رات تک ہو جائے گاکہ کون سی پارٹی قومی اسمبلی کے لیے زیادہ نشستیں حاصل کر پاتی ہے ۔

انتخابی مہم کے دوران ووٹ کے بارے میں مختلف نعرے لگائے گئے ۔پڑھے لکھے باشعور شہری کہلانے والے پاکستانی عوام اب اس قدر باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ اپنا برا بھلا خوب جانتے ہیں ان کو ورغلانے والا وقت گزر گیا، عوام نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ وہ اس الیکشن میں کس امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دیں گے۔

شہروں کے رہنے والوں کے ساتھ گاؤں کے رہائشی بھی شعور کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کون سی پارٹی ان کے مستقبل کی حکمرانی اور ملک کے لیے اچھی ہے ۔ اس دفعہ امیدوار اور ان کے سپورٹرز نے عوام تک صرف یہ پیغام پہنچایا ہے کہ ان کا امیدوار کون ہے کیونکہ عوام کسی بھی امیدوار کی تعریف سننے کے موڈ میں نہیں ہیں وہ یہ سمجھ اور جان چکے ہیں کہ ان کے ساتھ گزشتہ پانچ برس میں کیا سلوک کیا گیا اور آیندہ پانچ برسوں کے لیے کون سا نمایندہ بہتر رہے گا۔

ووٹ قوم کی امانت اور آپ کے مستقبل کی ضمانت بھی ہے یہ ضمانت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ نے پولنگ اسٹیشن جا کر خود ووٹ کی پرچی پر مہر لگانی ہے اس وقت آپ اور آپ کا خدا کا ہی جانتا ہے اور دیکھ رہا ہوتا ہے کوئی زمینی خدا آپ کے آس پاس موجود نہیں ہوتا، ووٹر اپنے ضمیر کی آواز اور اپنے مستقبل کو دیکھتے ہوئے ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے ہیں ۔ ووٹ ضرور کاسٹ کریں یہ آپ کی ذمے داری  ہے اور ووٹ سے ہی تبدیلی بھی آئے گی۔ کالم سے چند دن کی چھٹی درکار ہے کہ مجھے بھی ووٹ دینے کے لیے گاؤں کا سفر کرنا ہے۔ میرے مرحوم عزیز دوست ملک خالق داد بندیال کے صاحبزادے فتح خالق میرے آبائی حلقے سے پنجاب اسمبلی کے امیدوار ہیںاور نیا پاکستان بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔