الیکشن ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت

اصغر عبداللہ  بدھ 25 جولائی 2018
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

وہ ساری قیاس آرائیاں آخرکار دم توڑ گئیں، جن میں کہا جا رہا تھا کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے نہ صرف یہ کہ الیکشن کا بروقت انعقاد یقینی بنایا بلکہ اس کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے وہ تمام اقدامات بھی کیے، جن کی آئین اور قانون ان کو اجازت دیتا ہے۔ان میں سے سب سے بڑا اقدام بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور  پولنگ کی نگرانی میں فوج سے مدد لینے کا فیصلہ ہے۔

یادش بخیر، چیف الیکشن کمیشن سمیت موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل حالیہ ن لیگی حکومت میں ہوئی، بلکہ کمیشن کے چار میں تین صوبائی ارکان ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ ہیں جب کہ چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی بھی ان کی منظوری سے ہوئی۔ تحریک انصاف سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے اس مرتبہ الیکشن کمیشن پرکوئی بڑااعتراض نہیں کیا۔ یوں موجودہ الیکشن کمیشن ایک لحاظ سے تمام پارٹیوں کا متفقہ الیکشن کمیشن ہے۔

اسی طرح31 مئی کو جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو چارج سونپا تو بطور نگران وزیراعظم ان کی تعیناتی بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے متفقہ طور پر کی ۔ جسٹس ( ر ) ناصر الملک کی بطور نگران وزیراعظم تعیناتی کو تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا۔ جسٹس( ر ) ناصر الملک نے بطور چیف جسٹس ن لیگ حکومت کے خلاف دھاندلی کیس میں تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔اس فیصلہ سے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر شدید نقصان پہنچا تھا۔

پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی پر ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ضرور تنازع پیدا ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی میں بھی اتفاق رائے نہ ہوا تو یہ تنازع آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق الیکشن کمشین کے پاس پہنچا۔جہاں چیف الیکشن کمیشن سمیت پانچوں ارکان نے متفقہ طور پر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا۔ پنجاب کی طرح کے پی کے میں نگران وزیراعلیٰ کا تنازع بھی الیکشن کمیشن میں طے پایا۔دونوں صوبوں میں اپوزیشن کے امیدوار کو پذیرائی ملی۔ مقررہ تاریخ کو الیکشن یقینی بنانے کے لیے نے پنجاب میں عسکری حکومت نے الیکشن کمیشن سے بھرپور تعاون کیا، جس کا اعتراف الیکشن کمیشن بھی کر چکا ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ، جس پر اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں معترض ہیں، انھی دونوں پارٹیوں کے ذریعہ معرض وجود میں آئے ہیں۔وجہ یہ تھی کہ  پارلیمنٹ میں آئینی حکومت اور اپوزیشن ہونے کے ناطے مشترکہ طور پر یہ انھی دونوں پارٹیوں کا اختیار تھا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صوبوں میں پولنگ اسٹاف کی بھرتی سمیت کئی دیگر بنیادی نوعیت کے انتخابی انتظامات نگران حکومتوں سے پیش تر روبہ عمل آ چکے تھے۔ گویا یہاں بھی نگران حکومت کی پسند و ناپسند کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس پس منظر میں الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ پر اعتراضات  ناقابل فہم اور غیر منطقی ہیں۔ مثلاً، سب سے بڑا عتراض یہ ہے کہ فوج انتخابی عمل میں کیوں ملوث ہو رہی ہے۔

یہ اعتراض اس لیے کوئی  وقعت نہیں رکھتا کہ فوج انتخابی نگرانی اپنے طور پر نہیں، الیکشن کمیشن کی ہدایت پر کر رہی ہے۔ آئین کی دفعہ 220 اور 225 کے تحت الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں فوج کی مدد لینے کا مکمل اختیار ہے۔ اسی طرح یہ اعتراض بھی بے وزن ہے کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی نگرانی فوج کیوں کر رہی ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج یہ کام بھی اپنے طور پر نہیں، الیکشن کمیشن کے کہنے پر کر رہی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پولنگ کے روز، اس سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی، ان کی ٹھیک ٹھیک تعداد اور  بعض پولنگ اسٹیشنوں پر ان کی گم شدگی ہی وجہ تنازع بنتی ہے۔ اسی طرح پولنگ کے روز فوجی جوانوں کی پولنگ اسٹیشن کے اندر اور  باہر ہمہ وقت موجودگی سے دھاندلی کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو جائے گا۔ آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ فوج کا الیکشن میں اس کے سوا کرئی کردار نہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کی مدد کرے۔

نظر بظاہر یوں آتا ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے پیش نظر 2013 ء کا انتخابی تجربہ بھی ہے۔ نگران وزیراعظم جسٹس ( ر ) ناصر الملک سے زیادہ 2013 ء کے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے کون واقف ہوگا۔ اس وقت بھی اکثر وبیشتر انتخابی تنازعات کا باعث بیلٹ پیپرز کی چھپائی، ان کی ترسیل اور پولنگ اسٹیشنوں کی اندرونی صورت حال تھی۔بعینہ الیکشن کمیشن کو بھی تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی احتجاجی تحریک یاد ہے۔

پورے دو سال تک کاروبار حکومت عملی طورپر معطل رہا۔ الیکشن کمیشن اب کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں۔ن لیگ کے مشاہد حسین اور پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر نے پری پول رگنگ کے الزامات بھی داغے ہیں لیکن کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا۔ آئین اور قانون میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں کہ انتخابی مہم کے دوران کسی مجرم کو گرفتار نہیں کیا جائے گا یا کسی عدالتی فیصلہ کو الیکشن کے بعد تک ملتوی کر دیا جائے گا۔جن امیدواروں پر ابھی کوئی الزام ثابت نہیںہوا، ان کو ریلیف دینے میں حرج نہیں تھا اور وہ نیب نے دیا بھی ہے۔اس حوالہ سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی تنقید بلا جواز ہے۔

تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی تینوں بڑی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر چلائی ہے۔بلوچستان اورکے پی کے میں پچھلے الیکشن میں بھی پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا تھا ، اب بھی ہے، لیکن اس کی وجہ نگران حکومت یا الیکشن کمشین نہیں۔ باقی ہر جگہ عمران خان ، شہباز شریف اور بلاول بھٹو بغیر کسی رکاوٹ کے، گئے ہیں۔

نوازشریف کی وطن واپسی پر ن لیگ کی استقبالی ریلی پر نگران حکومت نے پابندی ضرور لگائی ، اگرچہ روکا اس کو بھی نہیں گیا۔ خواجہ آصف اعتراف کر چکے ہیں کہ ریلی کا ائرپورٹ پہنچنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن یا نگران حکومت نے کسی پارٹی کے خلاف ظاہراً کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا۔ حتیٰ کہ نواز شریف کی سزایابی اور گرفتاری کے باوجود انتخابی اشتہاروں میں ان کی تصویروں اور پیغامات پر پابندی عائد نہیں کی۔اس سب کچھ کے باوجود اگر ن لیگ الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ سے خوش نہیں اور ان کو ہدف بنائے ہوئے ہے، تو اس کا مطلب ہے اس کے پیچھے کوئی اور چیز ہے ، بقول شاعر

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔