نتائج کا انتظار

سردار قریشی  بدھ 25 جولائی 2018

آج 25 جولائی ہے، الیکشن 2018ء کی پولنگ کا دن ۔ ملک بھر میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے چناؤکے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹیاں وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں بنائیں گی یا دوسری پارٹیوں اور آزاد اراکین کی مدد سے مخلوط حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ صرف دو ہفتے قبل ملک ایک نئے سیاسی طوفان کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جب انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز لیکس کے بعد بننے والے ایک مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

ان پر لندن کے چار اپارٹمنٹس،جو ان کے خاندان کی ملکیت ہیں، اپنے ظاہرکردہ اثاثہ جات میں شامل نہ کرنے کا الزام تھا ۔عدالت نے ان کی صاحبزادی اور سیاسی وارث، مریم نوازکو بھی 7 سال قید کی سزا سنائی۔ خیال تھا کہ دونوں باپ بیٹی کی سزا یابی اور وطن واپسی پرگرفتاری انتخابی ماحول کو گرمانے کے علاوہ نتائج کے اعتبار سے بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں اضافے کا باعث بنے گی، لیکن بظاہر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ووٹروں کی خاموش اکثریت آج کام دکھا جائے تو اور بات ہے ورنہ معروضی صورتحال کے مطابق جیسے ہم باہر سے حالات کو کروٹیں لیتا دیکھتے ہیں ویسے نواز شریف بھی جیل کی کال کوٹھری سے بقول انسانی حقوق کمیشن مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خواہشمند قوتوں کو مختلف چالیں چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔الیکشن کمیشن ان الزامات کی تردید کرتا اورکہتا ہے کہ سارا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے۔ جسے دیکھو وہ دوسروں کے حصے کے کام نمٹانے میں لگا ہے، وہ بھی اس شان سے جیسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں خدمت انجام دی جا رہی ہو۔

بعض تجزیہ نگار یہ کہتے رہے کہ ملک میں سیاسی ماحول پراگندہ ہے ایسے میں الیکشن کرانے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا پھر بے حساب قومی دولت اس فضول مشق پرکیوں ضایع کی جا رہی ہے۔ کم ازکم یوں قومی خزانہ تو نہ لٹائیں۔ آپ کا ہاتھ پکڑنے والا تو کوئی ہے نہیں، پھر وہ سب کچھ کھل کر کیوں نہیں کرتے جو آپ اصل میں کرنا چاہتے ہیں، بندوق چلانے کے لیے دوسروں کے کندھے کب تک استعمال کرتے رہیں گے۔ دفتر خارجہ میں حکام فارغ بیٹھے ہیں، لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ سب واہ واہ کرنے میں لگے ہیں، یہاں تک کہ قوم پرستی اور صوبائی عصبیت کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے بھی اپنا قبلہ بدل لیا ہے، جو پہلے اسے سندھ کو بنجر بنانے کی سازش قرار دیتے تھے اب کہتے ہیں ڈیم بنانا اور اس میں حصہ ڈالنا قومی فریضہ ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے، سب اپنی اپنی ہانکنے میں لگے ہیں اور کسی کو یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ دنیا میں ہمارے کیا تذکرے ہو رہے ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے اپنے انٹرنیشنل ایڈیشن میں صفحہ اول پر نکتہ نظرکے زیر عنوان کالم نگار عباس ناصر کا تفصیلی مضمون شایع کیا ہے جس میں احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کوکرپشن کے حوالے سے کلین چٹ دیے جانے اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے ان کی وطن واپسی کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نواز شریف خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں صرف سویلین بالادستی کے لیے کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ اخبار کے مطابق صاف نظر آتا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو جتوانے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے تاہم رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو اس کے باوجود انتخابی دوڑ میں پی ٹی آئی پر سبقت حاصل ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ معاملات پر نظر رکھنے والوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا جب پاناما پیپرز میں نواز شریف اور ان کے خاندان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔ پچھلے سال جولائی میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیکر معزول کردیا تھا اور اب نیب کی عدالت سے سنائی جانے والی سزا پر شریف خاندان اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کو ہر پیشی پر حاضری کا پابند بنایا گیا اور انھیں کوئی استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ بیگم نواز کو گزشتہ ماہ دل کا دورہ بھی پڑا تھا اور تب سے وہ مسلسل زندگی بچانے والی مشین پر ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان کی سیاست انسانی ہمدردی سے اس قدر عاری اور بے حسی کا شکار ہوچکی ہے کہ عملاًاخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز دونوں نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس نے انتخابات کے بعد ان کی اپیلیں سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے اندازوں کے عین مطابق نواز شریف کے حامیوں کو لندن سے واپسی کے وقت لاہور ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے جمع ہونے اور ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو اپنی پارٹی کے اندر اختیارات کی جاری جنگ کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ پارٹی کی قیادت ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے پاس ہے جو انتخابات کا اعلان ہونے تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اور جو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنے پر زور دیتے رہے ہیں اور جو اپنے دور حکومت میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر انتخابات جیتنے کی مہم چلا رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اچھامنتظم ہونے کی شہرت رکھتے ہیں اور انھیں بہت سے ترقیاتی منصوبے وقت پر مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے مگر وہ حامیوں میں وہ مقبولیت نہیں رکھتے جو نواز شریف اور مریم نواز کو حاصل ہے۔

دریں اثنا ان کے بڑے مخالف مسٹر خان مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور انھیں خوش کرنے کے لیے نواز شریف پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے غیرملکی آقاؤں کا آشیر واد حاصل کرنے کے لیے پچھلے سال حلف میں شامل الفاظ بدلنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان میں ٹھوس سیاسی اور اقتصادی مسائل کو ہمیشہ کھوکھلے نعروں کے شور میں دبا دیا جاتا ہے اور شخصیات کا سحر ان پر غالب آجاتا ہے۔ سزا پانے کی وجہ سے نواز شریف اور مریم اگرچہ خود انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے مگر وہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم زیادہ موثرطور پر چلا سکتے تھے، مگر اب جیل میں جانے کے بعد وہ ایسا نہیں کر سکتے، تاہم وہ الیکشن 2018ء کو سویلین بالادستی اور جمہوری اقدارکی جنگ قرار دیتے ہیں۔ دیکھیے اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔