بلیٹ اور بلٹ میں فرق کتنا ہے؟

سعد اللہ جان برق  جمعرات 26 جولائی 2018
barq@email.com

[email protected]

ہم بڑ بڑا کر بہت اچھل کر ایک چیخ کے ساتھ جاگ پڑے۔ بڑا ہی بھیانک بلکہ خون ریز خواب دیکھا تھا۔ سارا جسم پسینے پسینے تھا اور زبان سے تو بہ توبہ کے ساتھ وہ تمام عربی الفاظ نکل رہے تھے جو ہمیں یاد تھے حالانکہ ہم رات کو انجلینا جولی کی ایک خوبصورت فلم دیکھ کر سوئے تھے، اخبار یا ٹی وی چینلز دیکھ کر نہیں لیکن پھر بھی ایسا خواب جس میں ایک ہی دن میں ہم نے ہزاروں لوگوں کو گولیوںسے چھلنی ہوتے دیکھا۔حالانکہ ہم خود عدم تشدد یا اہنسا کے قائل ہیں۔

انسان تو کیا ہم ایک چیونٹی تک کو نہیں مارسکتے ۔ مارسکتے تو آج اس ملک میں نہ کوئی ’’ چیونٹی ‘‘ ہوتی اور نہ اس ملک کے خداماروں کا اتنا خون چوسا جارہا ہوتا۔ اور خواب میں یہ قتل وقتال ہم نے کیا بھی نہیں صرف دیکھا تھا۔ پہلے ہم نے گبر سنگھ کو دیکھا ۔ پھر ’’ کالیا‘‘ جس نے کہا، سردار میں نے تیرا نمک کھایا ہے اور سردار پلٹ کر کہتا ہے تو اب گولی کھا۔

اس کے بعد تڑاتڑ گولیاں چلنے لگیں اور منظر میں گبر اور کالیے کی جگہ ہزاروں ’’ کالیے ‘‘ تڑپتے نظر آئے، پھر نہ جانے کس نے ہمارے کان میں کہا، امیدوار۔ پوری فلم بار بار چلی تو حاصل فلم یہ نکلا کہ بہت سارے لیڈر اور امیدوار ہاتھ جوڑ جوڑ کر ووٹ مانگ رہے ہیں اور یہی کہے جارہے ہیں کہ ہم نے تمہارا ووٹ کھایا ہے، پھر کیمرہ زوم کرکے بہت سارے خداماروں کو دیکھا جو کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کھایا ہے تو اب گولی کھا اور پھر تڑاتڑ ، تڑاتڑ ۔

خواب کے ابتدائی اثر سے نکلے تو سوچنے لگے کہ آخر یہ کیسا خواب تھا ۔ کیوں تھا اور اس کی تعبیر کیا ہے ۔ علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری تو اس وقت دستیاب نہیں ہو سکتے، وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے گل بکاؤ لی کی تلاش میں کوہ قاف یا پرستان گئے ہوئے ہیں۔ حضرت مدظلہ العالی بھی آج کل بہت مصروف ہیں اور مولانا سراج الحق تو خوابوں پر یقین نہیںرکھتے تو تعبیر کیا جانیں، کچھ اور نام بھی خیال میں آئے لیکن آخر کار تسلی اس پر ہوئی کہ اپنے گھر کی مرغی مطلب علامہ بریانی ’’ برڈفلو ‘‘ سے زیادہ ماہر تعبیرات اور کون ہو سکتا ہے لیکن وہاں جاکر دیکھا تو ایک اژدہام تھا ۔ ایک قطار ان ’’ سابقوں ‘‘ کی تھی جو ابھی ابھی ’’گدھوں ‘‘سے اترے تھے اور مشہور و معروف چورن ’’سب کچھ ہضم ‘‘کے طالب تھے کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ ’’ نئی دوڑ ‘‘ میں ہاضمہ درست ہونا ضروری تھا ۔ دوسری قطار میں تازہ ’’ واردان بساط ہوائے گل ‘‘ کھڑے تھے جو اتنے تازہ تو نہیں تھے لیکن دھلے دھلائے سب تھے ۔ اور اب ’’ ڈرون ‘‘ کے طلب گار تھے ۔ جو علامہ کا جدید ترین تعویذ ہے اورملٹی پریز بھی ہے، مقدمہ جیتنے اور محبوب کو رام کرنے کے ساتھ ’’ جیت ‘‘ کا بھی ضامن ہے ۔

ہمارے لیے کوئی موقع نہیں تھا، اس لیے ایک طرف کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے لگے کہ ’’ خدا ‘‘ بھی کتنا بڑا قدرتوں والا ہے کہ سب کچھ دینے کے باوجود ان لوگوں کو اپنے ہی ہاتھوں رسوا ہونے پر لگائے ہوئے ہے ۔ ابھی ہم ان رسوئیوں کے شیدائیوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ قہر خداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا ورود ناسور اور نزول نا مقبول ہوا ۔ نہ جانے کس کام سے آیا تھا لیکن ہمیں دیکھ کر ادھر آیا اور لگا پوچھنے کہ آخر ہم وہا ں کیوں پائے جارہے ہیں کہ نہ تو ہم کوئی ’’ سابق ‘‘ تھے اور نہ ’’ لاحق ‘‘ ہونے کا شوق رکھتے تھے۔ پریشانی میں ہمارے منہ سے ’’ خواب ‘‘ کی بات نکل گئی ۔ ٹھٹھا مار کر بولا ، بس اتنی سی بات ؟ خوابوں کی تعبیر کا تو میں بھی ماہر ہوں، بتاؤ کیا خواب دیکھا تھا ۔

سوچا علامہ تو شاید ہی پکڑائی دے، وضو نہ سہی یتیم ہی سہی ، عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی، آگاہی گر نہیں غفلت ہی سہی، برڈ فلو نہ سہی سوائن فلو سہی ۔

اس کی بیٹھک میں پہنچے تو دنیا کا پہلا معجزہ ظہور پذیر ہوا۔ قہر خداوندی نے ہمیں چائے پلائی۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے ہم نے ’ بھینسے ‘‘کو نہ صرف دوہا ہو بلکہ دودھ ، دہی اور مکھن بھی کھا لیا ہو کیونکہ چائے کے ساتھ ناقابل خوراک سہی سوراخ والے بسکٹ بھی تھے، یہ بالکل ایسا ہی واقعہ تھا جیسا ہمیں بمبئی کے ایک پشتون شاہ جی نے سنایا تھا۔ شاہ جی جو بمبئی کے ایک بازار میں تھڑے پر بیٹھ کر ’’دم درود ‘‘ بیچتا تھا اور خود کو سید اور ایک معروف مزار کا سجادہ نشین بھی بتاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک ملنگ میرے پاس آیا کرتا تھا اور آتے ہی کہتا تھا۔ شاہ جی ایک ’’ ڈنگ ‘‘ تو دیدو۔ اس کا مطلب چائے پلانے سے ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھ لیا کہ آخر اس ’’ ڈنگ ‘‘ کا کیا مطلب ہے تو اس ملنگ نے کہا کہ پتہ نہیں کون سے آسمان پر ایک بہت بڑا نقارہ ہے اور اس کے ساتھ ایک فرشتہ اس حالت میں کھڑا ہے کہ نقارہ بجانے کا ڈنکا اٹھائے ضرب کو تیار کھڑا ہے اور جب بھی کوئی ’’ میاں ملا ‘‘ کوئی خیرات کرتا ہے تو وہ اس نقارے کو ’’ ڈنگ ‘‘ دے دیتا ہے اور جب تم مجھے چائے پلاتے ہو تو ایک ڈنگ کی آواز چار دانگ عالم میں پھیلتی ہے

چشم گل چشم کے  چائے پلانے پر اور کچھ بجا ہو یا نہ لیکن

تم نے ماریں انٹریاں تو دل میں بجی گھنٹیاں

ٹنگ ۔ٹنگ ۔ ٹنگ

اور اس ٹنگ ٹنگ کے ختم ہونے پر اس نے پہلے ہمارا خواب پوچھا اور ہمارے بتانے پر غور کے حوض میں اتر گیا۔ کافی دیر تک غوطہ زن رہنے کے بعد بولا، بڑا مبارک خواب ہے، ایسا لگتا ہے پاکستان کے عوام نجات پانے والے ہیں۔ تفصیل پوچھنے پر اس نے تو ہمیں حیران کر دیا، نفسیات کی نہ جانے کتنی اصطلاحات اس نے بیان کیں جن میں شعور لاشعور ماشعور تا شعور اور پھر تخت الشعور بخت الشعور اور سخت الشعور جیسی اصطلاحات بھی تھیں، نتیجہ اس نے یہ نکالا کہ دراصل ہمارے کسی شعور میں ان لیڈروں کا قلع قمع کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے اس لیے وہ خواہش ڈراماٹائز ہو کر خواب میں متشکل ہو گئی ۔ ہم نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہمیں لیڈروں سے پرخاش نہیں ہے بلکہ ہم تو ان کے ممنون ہیں کہ اپنے سارے کام چھوڑ کر اس ملک کی دولت کو ٹھکانے لگا رہے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو ملکی دولت عوام کے پاس آجاتی اور عوام کو تو تم جانتے ہو کہ ضرور بگڑ جاتے اور نہ جانے کیا کیا کرنے لگتے لیکن ان لیڈروں کے دم قدم سے غربت کی لکیر کے نیچے رہ کر سدھرے ہوئے ہیں۔

بولا، بے شک تمہارے شعور میں ایسا کچھ نہیں ہوگا لیکن لاشعور یا ’’ پھر ماشعور ‘‘ ورنہ تخت الشعور اور کم بخت الشعور میں یقینا یہ خواہش پائی جاتی ہے ۔ جو خواب میں ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مطلب یہ کہ تم چاہتے ہو کہ ایک دن یہ ’’ عوام ‘‘ ان کوؤں سے کہہ دیں کہ بس بہت ہمارے انڈے کھالیے، اب گولی کھاؤ۔ ہم تردید پر تردید کرتے رہے لیکن قہر خداوندی ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ خواب اور کچھ بھی نہیں ہوتے صرف دبی ہوئی خواہشات تمثیلی انداز میں جلوہ گر ہو جاتی ہیں ۔

اس کے سامنے تو ہم نے مان کر نہیں دیا لیکن اب سوچتے ہیں کہ واقعی کہیں ہمارے لاشعور ماشعور یا تخت الشعور اور کم بخت الشعور میں  ایسی کوئی ’’ کچھڑی ‘‘نہ پک رہی ہو کیونکہ وہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ خدمت گار ، خدمت پسند ، خدمت پرست ’’ خادم ‘‘ کتنی محنت سے اپنا سارا چین و سکون تیاگ کر ’’ ہماری خدمت ‘‘ کر رہے ہیں اور ملک کو چار xچار چاند لگا رہے ہیں تو کیا کہیں واقعی اور سچی مچی اس خواب کے پیچھے کوئی تحت الشعور یا کم بخت الشعور ’’ لوچا ‘‘ ہو تو یہ تو بڑی ڈینجرس بلکہ ڈین ڈین ڈینجرس بات ہے ۔کیونکہ اگر ہمارے ذھن میں ایسا کوئی ’’ ڈینجرس لوچا ‘‘ پیدا ہو سکتا ہے تو بچارے عوام ۔ جی ہاں سوچ سکتے ہیں کہ یہ انڈے وال جو ہر سال آکر ہم سے ہمارے ’’ انڈے ‘‘ اونے پونے لے جاتے ہیں اور آگے ’’ ٹوکریوں ‘‘ میں پیک کرکے کروڑوں میں بیچتے ہیں ۔

کیونکہ گذشتہ سینیٹ الیکشن میں سب نے دیکھ لیا کہ ایک ٹوکری چالیس چالیس کروڑ میں بکی اور اب پھر یہ مسمی سی شکل بناکرپھر ہم سے ہمارے پنج سالہ انڈے اسی اونی پونی قیمت یعنی چند و عدوں چند قسموں اور چند جھوٹوں کے عوض لے جانا چاہتے ہیں تو وہ بھی اگر اتنے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ تو بندہ بشر ہیں اور ہمارے جیسا کیمیکل لوچا ان کے بھی کسی ’’ شعور ‘‘ کے تہہ خانے سے اچھل کر باہر آسکتا ہے اورسارے لوگ تو ہمارے جیسے نہیں ہوتے جو صرف خوابوں پر گذارہ کریں، ان خوابوں کو عملی جامہ بھی پہنا سکتے ہیں آخر اگر بیس کروڑ لوگوں میں بیس ہزار لوگ بھی ’’ گولی مار ‘‘ نکل آئے تو ’’گولی ‘‘ ووٹ تو نہیں کہ بہت سارے ہوں ایک بھی وہی کام کرتی ہے جتنا ہزاروں گولیاں کرسکتی ہیں ۔ ان حالات میں ہم اور تو کچھ نہیں کرسکتے لیکن اتنا مشورہ تو ان انڈے بٹوروں ‘‘ کو دے سکتے ہیں کہ بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹوں کا بھی انتظام کررکھیں۔ بلیٹ اور بلٹ میں فرق ہی کتنا ہے۔ ایک (ی ) کا ہی تو فرق ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔