شیطان سے دوستی

انیس منصوری  جمعرات 26 جولائی 2018
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

’’اگر میں تمھاری بیوی ہوتی تو تمھارے کافی کے کپ میں زہر ڈال دیتی‘‘۔ یہ جملہ ریحام خان کی کتاب کا نہیں ہے ورنہ یہ جملہ یوں ہوتا کہ ’’میں چائے میں کتاب ملا کر تمھیں مار دونگی‘‘۔ یہ جملہ ایک ایسی خاتون کا ہے جو برطانیہ میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی پہلی خاتون لیڈی ایسٹر نے یہ جملہ دنیا کے بہت بڑے لیڈر چرچل کو کہا تھا۔ اگر پاکستان کے کسی لیڈر کو کہا ہوتا تو غیرت کے نام پر قتل ہو چکی ہوتی۔یا پھر مخصوص نشست پر رکن پارلیمنٹ بن چکی ہوتی۔ پارلیمنٹ سے ہمارے سیاستدان اتنی محبت کرتے ہیں کہ اسے اپنے گھر سمجھتے ہیں۔ اسی لیے مخصوص نشستوں پر صرف اپنے گھر کی عورت کو جگہ دیتے ہیں۔ تاکہ چادر اور چار دیواری کا تقدس بحال رہے۔ خیر لیڈی ایسٹر نے چرچل کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔ مگر چرچل نے مسکراتے ہوئے، خوبصورت عورت کے حملے کا جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اگر میں تمھارا شوہر ہوتا تو فورا پی لیتا‘‘۔

چرچل مجھے اس الیکشن میں بہت یاد آئے۔ خاص طور پر اُس وقت جب ہمارے ٹی وی کے معروف اینکر سڑکوں پر گھومتے تھے۔بڑی معصومیت سے سیاستدانوں سے پوچھتے تھے کہ آپ کے علاقے میں ’’گٹر‘‘ کیوں نہیں بنا۔ جب عوام ویڈیو بناتے تھے کہ آپ نے ہمارے علاقے سے کچرا کیوں نہیں اُٹھایا؟ مجھے ایسا لگتا تھا کہ سیاستدان قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے نہیں بلکہ کونسلر کے ووٹ مانگنے گئے ہیں۔ کچھ دانشور اس طرح یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ہمارے یہاں سیاستدانوں کو بس کونسلر بننا چاہیے اور پالیسی بنانے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے جن کا نام لینے سے ’’وضو‘‘ ٹوٹ جاتا ہے۔

اُس وقت جب برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا، جب ہندوستان سے لے کر افریقا تک تاج برطانیہ کا راج تھا۔ اُس وقت چرچل علاقے کی سطح پر سیاست میں داخل ہو چکا تھا۔ ایک دن وہ ووٹ مانگنے مانچسٹر کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو اُس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا ’’ذرا ان گلیوں میں گزرنے والی زندگی کا سوچو۔ یہاں دیکھنے کے لیے کچھ بھی خوبصورت نہیں، کھانے کے لیے کچھ بھی خوشبو دار نہیں اور کہنے کو کچھ بھی دانشمندانہ نہیں‘‘۔ہمارا سیاستدان بھی یہ ہی سوچتا ہے۔ سوٹ بوٹ میں ہاتھ میں مائیک لے کر گھومتا ہوا بھی یہ ہی سوچتا ہے۔ اور عوام اس کا اُلٹا سوچتے ہیں۔ اُسے معلوم ہے سب چور ہیں۔ مگر اس الیکشن سے آپ کو یہ ہی معلوم ہوا ہوگا کہ ’’چوروں‘‘ ، لٹیروں، دہشتگردوں اور بھارتی ایجنٹوں کو لوگوں نے لاکھوں ووٹ کیوں دے دیے۔ وہ سوٹ بوٹ والے ’’بابو‘‘ کی بات کیوں نہیں مانتے؟

ہمارے یہاں ماضی دیکھنے کا رحجان کم ہی ہے اسی لیے تو مجھ جیسا جاہل یہ بات بھول جاتا ہے کہ چرچل وہ آدمی تھا جس نے ہندوستان کی آزادی کی شدید مخالفت کی تھی۔ وہ ہماری آزادی کا اتنا بڑا مخالف تھا کہ اُس نے وزیر کے عہدے سے استعفی دے دیا۔ مگر ہم چرچل کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ چرچل بھی یوں ٹرن لینے کا ماسٹر تھا۔ چرچل ایک زمانے میں کمیونسٹ سویت یونین کا شدید مخالف رہا۔ لیکن جب ہٹلر کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے ’’اسٹالن‘‘ کو خوش آمدید کہنے چرچل گیا۔ وہ ہی اسٹالن جو سویت یونین کا صدر تھا۔ وہ ہی اسٹالن جس سے چرچل شدید نفرت کرتا تھا۔ اُس نے اتنا بڑا U ٹرن لیا تھا کہ اچھے اچھے سیاستدان منہ دیکھتے رہ گئے تھے۔ اُس وقت چرچل نے ایک بڑا مشہور جملہ کہا تھا کہ ’’اگر ہٹلر جہنم پر حملہ کر دے تو میں جہنم میں رہنے والے شیطان سے بھی ہمدردی کروں گا‘‘

ایک زمانے میں چرچل اسٹالن سے اتنی نفرت کرتا تھا کہ اُس کے لیے وہ ہر شیطان سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار تھا۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے خلاف ہر شیطان سے ہاتھ ملانے کے لیے تھا۔ اور پھر اُس نے ہٹلر کے لیے جہنم میں موجود شیطان کی حمایت کا بھی اعلان کر دیا۔ سیاست اسی کا نام ہے۔ اس میں کب کس شیطان سے ہاتھ ملانے کا وقت قریب آجائے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے۔ تو میرے عزیز ہم وطنو۔ایلکشن ہو چکے ہیں اور شیطان سے ہمدردی کرنے کا وقت آچکا ہے۔ جب آپ کو عظیم لیڈر، شیطان سے ہاتھ ملاتا ہوا نظر آئے تو حیرت مت کیجیے گا۔ ویسے میں ہمیشہ سے ہی شیطان کے بارے میں کنفیوژ رہا ہوں۔

بچپن سے میں یہ سمجھتا تھا کہ شیطان کے سر پر دو سینگ ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ فلموں میں شیطان کو اسی طرح دکھایا جاتا ہے کہ اس کے سر پر دو سینگ ہوتے ہیں۔ کلاس میں جب ٹیچر کسی بچے کو ڈانٹتے ہوئے کہتی تھی کہ تم بہت شیطان ہے تو میں سر اُٹھا کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا تھا کہ اس کے سر پر سینگ ہے یا نہیں ۔ ہمارے یہاں شیطان اور فرشتے ایک ہی آدمی کے دو الگ الگ کاندھوں پر ہوتے ہیں۔ جب اچھا وقت ہو تو شیطان سو جاتا ہے اور وہ آدمی فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ اور جب وقت نکل جاتا ہے تو فرشتہ سو جاتا ہے اور وہ آدمی شیطان نظر آتا ہے۔ اب الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد دیکھیے گا کہ کس طرح فرشتوں اور شیطان کو انسان استعمال کرے گا۔ آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔

ایک جواری پانچ بار ہار چکا تھا۔ اُس نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اُس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اُسے محسوس ہوا کہ اب اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہے کہ وہ گھر جا سکے۔ وہ اسی پریشانی میں تھا کہ شیطان اُس کے پاس آیا۔ اور اُسے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اب قدرت تم پر مہربان ہونے والی ہے۔ تم اپنے ہاتھ کی گھڑی بازی میں لگا دو۔ تم مالدار ہو جاؤ گے۔ پہلے تو جواری نہیں مانا۔ لیکن دل میں یہ سوچتا رہا کہ آخری چانس تو ضرور لینا چاہیے۔ اُس نے گھڑی جوئے کی ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ بازی جیت گیا۔ اب اُس کے پاس اتنے پیسے آچکے تھے کہ گھر جا سکے۔ لیکن اُس کے دل میں لالچ آگئی اور اُس نے کہا کہ جو پیسے ہاتھ آئے ہیں وہ بھی لگا دیے جائیں، قسمت کھل رہی ہے اور پیسے آجائیں گے۔ لیکن شیطان بیچ میں آگیا۔ اُس نے جواری سے کہا کہ قدرت کے کاموں میں مداخلت مت کرو۔

آج جوا مت کھیلو اور گھر جاؤ۔ اپنی بیوی، بچوں کو وقت دو۔ جواری شیطان کی بات سے پہلے ہی متاثر ہو چکا تھا۔ وہ اُٹھا اور جاتے ہوئے اپنے جواری دوستوں سے کہنے لگا کہ آج کے لیے اتنا بہت ہے میں اب کل آؤنگا۔ جب وہ چلا گیا تو شیطان کے چیلے نے کہا کہ ’’سر جی۔ایک آدمی گناہ کے کام کر رہا تھا آپ نے اُسے گھر کیوں بھیج دیا‘‘ شیطان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور اُس نے کہا کہ یہ شخص سب کچھ ہار گیا تھا۔ میں نے اسے آخری بازی لگوا کر اس لیے جیتوایا کہ اس کا جوا کھیلنے پر اعتبار برقرار رہے۔ وہ سب کچھ ہار گیا تھا۔لیکن بس کرائے کے پیسے جیت کر خوش ہو گیا۔ اور اگر وہ اور کھیلتا اور ہار جاتا تو اُس کی ہمت ختم ہو جاتی۔ اس لیے میں نے اُسے گھر بھیجا کہ وہ اب کل اور پیسے لا کر زیادہ کھیلے گا۔

سیاست کے جوئے کو جاری رہنا ہے۔ اس لیے پچھلی بار بھی سب کو کچھ نہ کچھ دیا گیا اور اب بھی سب کو حصہ دیا جائیگا کہ اگلی باری کی امید میں سب کھیلتے رہیں۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’کبھی بھی بحران کو ضایع مت ہونے دو‘‘۔یعنی جب آپ پر مشکل وقت ہو تو اُس کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاؤ۔ میرے خیال سے نواز شریف نے اس پر پورا عمل کیا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ٹیلی رینڈ ایک نامور شخصیت ہے۔

اس نے سالوں پہلے کہا تھا کہ ’’جنگ میں آدمی ایک بار میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن سیاست میں آدمی پھر سے جینے کے لیے خود سے مرتا ہے‘‘۔ بہت سے کردار جن کو آپ سمجھ رہے ہیں کہ انھیں مار دیا گیا وہ مرے نہیں بلکہ خود سے دوبارہ زندہ ہونے کے لیے قبر میں لیٹ گئے ہیں۔ اور کچھ کو لیٹا دیا گیا ہے۔ وقت خود کو دہرانے والا ہے۔ تب تک آپ یہ دیکھیں کہ انسان کس طرح سے شیطان کو فرشتہ بنا کر اُس کے ساتھ حکومت بناتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔