ادب، اخلاق سے تبدیلی تک

شہلا اعجاز  جمعرات 26 جولائی 2018

الیکشن کا زمانہ ہو اور لوگوں کا اخلاق دیکھنا ہو تو ذرا غور سے دیکھیے،کوئی کس انداز سے گفتگو کرتا ہے، تقریر میں کس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے، اپنے مخالفین کو کن کن سنہرے القابات سے نوازتا ہے کہ ادب آداب کی کہانی تو اب طوطا مینا کی کہانی کی مانند پرانی ہو چکی ہے۔ لوگوں کا صبر اور اخلاق کھو چکا ہے کہ اب لوگ بااخلاق لوگوں کو ڈرپوک اور بزدل بھی سمجھنے لگے ہیں، کسی بھی ملک کے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو اگر دیکھنا ہے تو آپ اس ملک کے ٹی وی چینلز کے مختلف پروگرام دیکھیے سمجھ آ جائے گا کہ اونٹ کی کروٹ کس سمت میں ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ہی کسی مشہور و معروف ڈرامہ چینل سے ایک ڈرامہ سیریل نشر ہوا بڑے بڑے اداکاروں کے جھرمٹ میں سجا یہ ڈرامہ خاصا مقبول ہوا، کہانی منفرد ہے بہت خوبصورت ہے، ڈرامہ رائٹر نے کرداروں سے خوب انصاف کیا ہے۔

ڈائریکٹر نے ایسی بہترین کارکردگی دکھائی کہ واہ واہ ہو گئی اوپر سے بڑے اور سینئر اداکاروں کی بھرپور اداکاری نے تو کمال ہی کر دیا اور پھر اس کے چند نئے اداکاروں نے بعد میں مختلف ڈرامہ سیریلز میں خوب ہی رنگ جمایا اداکاری بھی خوب اور کمائی بھی خوب کہ اب ڈرامہ انڈسٹری نے اس ملک میں اس قدر ترقی کر لی ہے کہ بڑے اداکار اور خاص کر ہیروئنز نے لگ بھگ چھوڑ کر فی قسط کے حساب سے بھاؤ تاؤ شروع کر رکھا ہے۔

اس حساب کتاب میں بہت سے چہرے ذرا دب بھی گئے کہ پروڈیوسرز کو اتنی مہنگی ہیروئن سوٹ نہیں کرتی البتہ چینل کی خواہش پر یہ کڑوا مہنگا گھونٹ پی لیا جاتا ہے، بات کہاں سے کہاں جا پہنچی جب کہ ذکر ہو رہا تھا اس ڈرامہ سیریل کا کہ جس میں فلمی اداکارہ ثنا نے بھی خاصا جاندار کردار ادا کیا تھا اور اس ڈرامے میں بھی انھوں نے ایک فلمی اداکارہ کا ہی کردار ادا کیا تھا۔

نعمان اعجاز نے ایک شاعر اور ثنا کے پرانے عاشق کا بہروپ بھرا جن کی صاحبزادی سجل علی نے اپنے والد محترم کی معشوقہ ثنا کی تقلید میں فلم انڈسٹری کی جانب قدم بڑھایا اور اس تمام عرصے انھوں نے خوب اداکاری کی اور اپنی معصومانہ چالوں سے اپنے شاعر باپ کو نچا کر رکھ دیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن افسوس کے ساتھ جو زبان ایک باپ بیٹی کے درمیان دکھائی گئی ہے وہ نہایت ناموزوں تھی۔

بقول ایک بڑی ڈرامہ اسکرپٹ ہیڈ کے ’’ہم نے لوگوں کے اخلاق سدھارنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا‘‘ درست ہی محسوس ہوا وہ اسکرپٹ ہیڈ نے تو اپنی محبت اور دوستی میں رواداری میں کہہ ڈالا تھا یہ بات بھی خاصی پرانی ہو چکی ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ چینلز اچھوتے پن اور نرالے انداز کے چکر میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں جہاں ہماری روایات دم توڑتی نظر آ رہی ہیں، سجل علی بذات خود ایک اچھا دل رکھنے والی فنکارہ ہے جسے اپنی مرحومہ ماں سے بہت محبت تھی، کچھ عرصہ قبل میری ایک عزیزہ لاہور سے کراچی آ رہی تھیں گھریلو حالات اور بہن کی بیماری نے انھیں ڈپریشن میں مبتلا کر دیا تھا اور وہ بے ساختہ فلائٹ میں رونے لگیں اتفاقاً سجل بھی ان کے ساتھ شامل سفر تھیں انھوں نے نہ صرف ان کی دل جوئی کی بلکہ انھیں چیونگم بھی دی اور تاکید کی کہ اسے چبانے سے ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔

میری والدہ بھی بیمار ہیں ان کی وجہ سے میں بھی کبھی ڈپریشن میں آ جاتی ہوں میں کراچی ان سے ملنے ہی جا رہی ہوں، غالباً اسی ڈرامے کی ریکارڈنگ لاہور میں جاری تھی بحیثیت بیٹی سجل نے اپنی بیمار ماں کی خدمت کسی انداز میں بھی کی لیکن ان کے رویوں اور انداز نے والدہ کی محبت اور لگاؤ کو ظاہر کر دیا تھا، نوجوان نسل کی اس نمایندہ فنکارہ نے ایک بگڑی، گھمنڈی بیٹی کا کردار خوب ادا کیا لیکن اپنی بہترین اداکاری سے انھوں نے معاشرے میں ایک بے لگام بد زبان اور بگڑے ہوئے رویے سے یہی تاثر دیا کہ اگر آپ کے والدین آپ سے کچھ اچھا برتاؤ نہ کریں، خیال نہ کریں اپنی خواہشات میں الجھے رہیں تو انھیں اس قدر بے عزت کرنا چاہیے کہ انھیں اچھی طرح پتہ چل جائے کہ کس اولاد سے پالا پڑا ہے۔

صرف یہ ڈرامہ سیریل ہی نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک بڑے اداکاروں کے جھرمٹ میں سجے ڈرامے میں یہی بد تہذیبی ملاحظہ فرما لیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس قدر بڑے آرٹسٹ لیے جائیں کہ لوگ خاص توجہ سے دیکھیں اور ساتھ میں بدتمیزیوں کا ایک عہدنامہ اپنے اندر محفوظ کرلیں کہ اس معاشرے میں تبدیلی تو آ گئی ہے۔

کہتے ہیں جیسے کو تیسا۔ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک نوجوان کو اپنے بوڑھے والدین کو مارتے پیٹتے دکھایا گیا تھا اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو دیا، کس قدر پیار سے پیدا کرنے والی ماں جب اپنے بوڑھے شوہرکو بچانے آگے بڑھتی ہے تو نوجوان مفرور بیٹا اسے بھی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی ملک میں بھی جہاں بڑے بوڑھوں کو بہت عزت دی جاتی ہے، نحیف و لاچار بزرگوں کو اپنے ہی گھر کی خواتین سے پٹتے دیکھا، زمانہ واقعی بدل گیا ہے ادب و اخلاق طوطا مینا کی کہانیوں کی مانند واقعی پرانے فرسودہ ہوگئے ہیں۔

سوشل میڈیا واقعی بڑا زہریلا ہے جسے چھپانا چاہتے ہیں وہ بھی عیاں کر دیتے ہیں اور جسے عیاں کرنا چاہیے اسے چھپا دیتے ہیں اس عجب کھیل میں پڑے بغیر ایک اور دلچسپ نکتہ ذہن میں کودا تو شیئر کرلیتے ہیں کسی خاص صاحب نے پاکستانی معاشرے سے متعلق بڑا زہر اگلا تھا اب ان کے زہرکی وجہ کیا بتائیے بہرحال ان صاحب نے بڑے غصے اور جوش میں چند غلیظ گالیاں بکنے کے بعد فرمایا تھا کہ پاکستانی معاشرہ۔۔۔۔۔ ایسا کر دو (گالی) ایسے کہ بچے والدین کو سڑکوں پر لاکر گھروں سے نکال کر ماریں (گالی) کو۔۔۔۔ دیکھنا کیا ہوتا ہے اب۔

محبت اور نفرت کے اس کھیل میں بہت دشواریاں ہیں بڑے کانٹے ہیں پر پھول بھی ہیں یہ پھول اگر سمیٹنے ہیں تو کانٹوں سے الجھے بنا ان سے مستفید ہونے کی کوشش کریں کہ کانٹوں سے الجھ کر اپنا لبادہ ہی تارتار ہونے کا خدشہ ہے تبدیلی اگر خوشگوار ہو، معطر ہو ذہن پر بوجھ نہ ڈالے تو اچھی ہی ہے لیکن کسی بری تبدیلی کی خواہش کو مسل دینے میں ہی بھلائی ہے، ہمارے ڈرامے، فلمیں اور گانے ہماری روایات کو ثقافت کو بھی اجاگر کرتے ہیں ہمارے بچے، بڑے اور بوڑھے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں سیکھتے ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں یہ ہمارے گھروں میں ایک ٹیچر بن کر روز اپنا لیکچر سناتے ہیں اس لیکچر سے ہمیں اور ہماری نسل کو اچھے انداز سے مستفید ہونا ہے ہمیں اپنا ادب اپنا اخلاق سنوارنا ہے یہ سوچنا ہم سب کا فرض ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔