مسلم لیگ (ن) کی فتح

غلام محی الدین  پير 13 مئ 2013
پی ایم ایل این بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی حکومت سازی کے عمل پراثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ فوٹو: فائل

پی ایم ایل این بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی حکومت سازی کے عمل پراثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ فوٹو: فائل

طرح طرح کے اندیشوں اور شکوک شبہات کے سائے تلے ملکی تاریخ کے اہم انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہوگئے ہیں۔

طویل عرصہ سے جاری بدامنی کے پیش نظر اس بات کا اندیشہ تھا کہ انتخابی عمل کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جوکہ درست ثابت ہوا۔ سندھ اوربلوچستان کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات میں 63افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کراچی سے انتخابی دھاندلی کی سب سے زیادہ شکایات سامنے آئیں جہاں پر پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں غنڈوں نے پولنگ ا سٹیشنز پر قبضہ کرکے من مانی کی۔ ان واقعات کے شواہد ٹی وی چینلز کی اسکرینوں پر بھی دیکھے گئے۔ دھاندلی کی شکایات کے بعد جماعت اسلامی‘ سنی تحریک اور جمہوری وطن پارٹی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ لاہور کے بعض حلقوں میں بھی دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں۔ بہرحال ان تمام ناخوشگوار واقعات کے باوجود انتخابی عمل پایہ تکمیل تک پہنچا جو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک مثبت تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

انتخابی نتائج نے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک مکمل کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اب تک 125نشستوں پر ن لیگ کی کامیابی کا اعلان ہوچکا ہے اور جن نشستوں کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں ان کا رجحان دیکھا جائے تو ن لیگ کی سیٹوں کی تعداد130یا اس سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔ یوں خواتین ا ور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ملاکرن لیگ کی نشستوں کی تعداد150سے تجاوز کر جائے گی۔ اس طرح حکومت بنانے کے لیے درکار 172 نشستیں پوری کرنے کے لیے بہت کم سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔ ابتدائی طور پر ایسا نظر آرہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن مرکز میں ن لیگ کے ساتھ مل جائے گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ مرکز میں ایک مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

ان انتخابات کی دوسری اہم بات تحریک انصاف کا ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ظہور ہے۔ گو کہ تحریک انصاف اتنی نشستیں حاصل نہیں کر پائی جتنی توقع کی جارہی تھی لیکن اس کے باوجود اپنے پہلے الیکشن میں تیس اور پینتیس کے درمیان نشستیں حاصل کرنا بھی ایک بڑا کارنامہ ہے۔پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی نشستوں کی تعداد کم بیش برابر تھی اور دوسری بڑی پارٹی ان دونوں میں سے ایک ہوگی۔ اسی طرح تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کل 99صوبائی نشستوں میں سے 34تحریک انصاف نے جیتیں۔

توقع کی جارہی ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف مرکز میں دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آتی ہے تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف پی ٹی آئی سے ہوگا لیکن اگر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ا یم سندھ میں مل کر حکومت بناتے ہیں تو پھر مرکز میں پی ٹی آئی کے بجائے پیپلزپارٹی اور ا یم کیو ایم کا مشترکہ قائد حزب اختلاف آجائے گا اور پی ٹی آئی کو ایک الگ پارلیمانی گروپ کے طور پر کردارادا کرنا ہوگا۔

انتخابات میں سامنے آنے والی ایک اور بڑی حقیقت سندھ کے سوا پورے ملک سے پیپلزپارٹی کا مکمل صفایا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو پہنچے گا لیکن یہ نقصان توقع سے بڑھ کر ہوا۔ پنجاب کی جن نشستوں کو کم و بیش تمام تجزیہ نگار پیپلزپارٹی کے حق میں قراردیتے رہے وہ بھی پی پی پی کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ قومی اسمبلییکے جن تیس بتیس سیٹوں پر پیپلزپارٹی کی کامیابی کا اعلان ہوا ہے ان میں سے غالب اکثریت سندھ سے ہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں صوبائی سطح پر پیپلزپارٹی کو واضح برتری حاصل ہوئی اور وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہاں آسانی سے حکومت بناسکتی ہے۔

صوبہ بلوچستان میں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی کسی پارٹی کو واضح برتری حاصل نہیں اور وہاں کئی جماعتوں کو مل کر حکومت بنانی پڑے گی لیکن یہ حکومت مرکز مخالف نہیں ہوگی اور اسے ن لیگ کی قیادت کی حمایت اور تعاون حاصل ہوگا۔ بلوچستان میں اہم حیثیت رکھنے والے قوم پرست رہنماؤں کے میاں نوازشریف سے بڑے اچھے تعلقات ہیں اس لیے صوبہ بلوچستان میں مستقبل میں قائم ہونے والی حکومت ایک طرح سے مرکز میں بننے والی حکومت سے ہم آہنگ ہوگی۔ صوبہ پنجاب میں ن لیگ دوتہائی اکثریت حاصل کرچکی ہے لہٰذا اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہوگی۔

یوں اگر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور مرکز میں پیپلزپارٹی سے ن لیگ کی دوری قائم رہتی ہے تو ملک کے دو صوبوں اور قومی اسمبلی میں ن لیگ کو ماضی کے بجائے حقیقی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان انتخابات کے حوالے سے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ پیپلزپارٹی جو پورے پاکستان کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار تھی اور یہ دعویٰ بڑی حد تک درست بھی تھا‘ اب سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو اس بات کی شعوری کوشش کرنا ہوگی کہ وہ ملک کے تمام صوبوں میں اپنی موثر موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ خلا پر کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے چھوٹے صوبوں کی سیاسی قیادت کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج کی ایک حیران کن بات اے این پی کی ناکامی ہے ۔اے این پی کو اپنی سیاسی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آخری خبریں آنے تک اے این پی کو قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ حالانکہ دہشت گردی کی اس لہر میں عوامی نیشنل پارٹی نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور دہشت گرد قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن اس کے باوجود عوام نے انہیں پذیرائی نہیں بخشی بلکہ تحریک انصاف پر اعتماد کرنے کو مناسب سمجھا۔

عوام نے قربانیوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ اس سے ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ خیبرپختونخوا کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے الگ ہو اور جو بھی کرنا ہے ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے کرے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں کی سب سے زیادہ تکلیف خیبرپختونخوا کے لوگوں کو سنہی پڑی ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اے این پی صوبے میں حکومت سازی کے عمل میں جے یو آئی کے بجائے تحریک انصاف کو ترجیح دے۔

انتخابی عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی مستقبل میں بہتر تبدیلی کی امیدیں ہرنئے دن کے ساتھ شدت اختیار کریں گی۔ ملک کے عوام نے کسی نئی جماعت کو حکومت سونپنے کے بجائے ایک تجربہ کارجماعت پراعتماد کا اظہارکیا ہے۔ پنجاب کے صنعتی اور تجارتی علاقوں میں ن لیگ کی فیصلہ کن کامیابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں کاروباری سرگرمیوں کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر عوام نے ایک کاروباری شخصیت کو ہی وزیراعظم کا عہدہ سونپنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ان کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے نقصانات کا ازالہ کرے۔ ن لیگ کے لیے آنے والے سال آسان نہیں۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ مرکز اور صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتیں اپنی کارکردگی کی بنا پر عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیں کہ موجودہ حکومتیں ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔