بچوں کا ادب

ایم اسلم کھوکھر  جمعـء 27 جولائی 2018

یوں تو ادب کی کئی ایک اقسام ہیں، مثلاً شاعری، نثر، افسانہ، ناول۔ پھر ادب میں یہ تفریق بھی ہے کہ رومانوی ادب کہ جس میں ادیب یا شاعر اپنے محبوب کے ہونٹوں، رخساروں، لمبی زلفوں، طویل قامت و خوبصورت آنکھوں کے ساتھ ساتھ محبوب کی صراحی دار گردن کا ذکرکرتا ہے، پھر سماجی ادب ہوتا ہے کہ ادیب اپنے سماج کے مسائل و درد و الم کا ذکر کرتا ہے یا مزاحمتی ادب ہوتا ہے جس میں ادیب و شاعر اپنے سماج کی محرومیوں کا تذکرہ کرتا ہے اور عوام الناس کو سماج کی تبدیلی کے لیے شعور دینے کے ساتھ ساتھ جبر واستحصال کے خاتمے کے لیے جد وجہد کی ترغیب دیتا ہے۔

البتہ ادب کی ایک اور صنف بھی ہے وہ ہے بچوں کا ادب، یہ وہ ادب ہے جسے ہمارے سماج میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ گوکہ بچوں کا ادب وہ ادب ہے جسے تخلیق کرنا ہی مشکل ترین امر ہے یہی باعث ہے کہ جب ہم بچوں کے تخلیق کاروں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں چند نام ہی نظر آتے ہیں۔ مرزا ادیب، مظہرکلیم، رضا علی عابدی BBC والے، مسعود احمد برکاتی جوکہ چند ماہ قبل انتقال فرما چکے ہیں جب کہ مظہرکلیم کا وصال تو ابھی تازہ سانحہ ہے۔

بہرکیف ان نامور ترین تخلیق کاروں کے ساتھ ایک نام علی حسن ساجد کا بھی ہے۔ یہ پہلے ریڈیو پر صداکار تھے پھر ٹیلی ویژن کی دنیا میں بطور نیوز ریڈر نامور ہوئے البتہ جب ادبی دنیا میں قدم رکھا تو ادب کی مشکل ترین صنف بچوں کے ادب کے تخلیق کار کے طور پر خود کو منوایا جب کہ وہ ایک سرکاری عہدے پر بھی فائز ہیں۔

ہماری خواہش تھی کہ ہم بچوں کے ادب کے تخلیق کاروں کی بابت چند سطور قلم بند کریں مگر ہمہ جہت شخصیت کے مالک علی حسن ساجد سے ایک طویل نشست کے خواہش مند تھے چنانچہ 19 اگست 2018ء کو ہم ان کے اور وہ ہمارے رو برو تھے۔

ہم نے بچوں کے ادب کے حوالے سے چند سوالات ان کے سامنے رکھے اور ان سے خوبصورت جوابات حاصل کیے چنانچہ ہمارا اولین سوال ان سے یہ تھا کہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا یا بچوں کے ادب پرکام کرنا گھاٹے کا سودا ہے؟ ان کا جواب تھا کا میرے نزدیک یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ یہ وہ ادب ہے جوکہ آپ کو سیکھنے کے مواقعے فراہم کرتا ہے آپ کی ادبی تربیت کرتا ہے، البتہ مالی فوائد کی بات دیگر ہے۔ ہمارا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ وہ ادب جو کہ آپ نے بچوں کے لیے تخلیق کیا ذرا اس کا تذکرہ بھی فرما دیں؟

ہمارے اس سوال کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ میں نے 2005ء سے بچوں کا رسالہ ’’جنگل منگل‘‘ کا اجرا کیا جوکہ مسلسل 10 برس جاری رہا، البتہ اب میری ذاتی مصروفیات کے باعث تعطل شکار ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ میں نے بچوں کے لیے 12 کتب شایع کیں جب کہ 35 کے لگ بھگ کتب کے مسودے تیار ہیں کوشش ہے کہ جلد شایع کرسکوں۔ سوال سوم تھا کہ اب تک ادبا کے لیے کیا خدمات انجام دیں؟

جواب میں انھوں نے کہا کہ میری ذاتی کوششوں سے سال 2017ء میں پانچ ادبی شخصیات کو گورنر سندھ کی جانب سے ادبی خدمات کے صلے میں ایوارڈز دیے گئے وہ بھی ایک ایک لاکھ روپے کے ساتھ۔ ان شخصیات میں مسعود احمد برکاتی، ضیا الحسن ضیا، ابن حسن نگار، تنویر پھول، یاسمین حفیظ شامل ہیں جب کہ بہت جلد ہم میئرکراچی، چلڈرن ایوارڈزکا اجرا کرنے جا رہے ہیں جب کہ 15 اگست کو مسعود احمد برکاتی کی سالگرہ منائیں گے اور یہ سلسلہ ہر سال جاری رہے گا۔

چوتھا سوال سماج میں ادیب کو اس کا جائز مقام ملتا ہے؟ جواب میں یہاں فرانس کی مثال دوں گا کہ جب عظیم ادیبہ ، فرانس کے صدر سے ملاقات کے لیے جاتی ہیں تو فرانسیسی صدر صدارتی محل سے باہر تشریف لاتے ہیں اور ان کا استقبال کرتے ہیں یہ مہذب سماج میں ادیب کا مقام۔ جب کہ سماج میں ادیب کا سماجی رشتہ بہت کمزور ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں اگر ادیب اپنی تحریر میں مہارت رکھتا ہے تو وہ اچھا بولنے کی صلاحیت سے قاصر ہے اسی ادیب کو اگر کسی وزیر یا چیف سیکریٹری کے سامنے بھی بٹھا دو تو سماجی تو کیا ذاتی مسائل بھی احسن طریقے سے بیان نہیں کر پائے گا۔

بات اکثریت کی ہو رہی ہے تمام ادبا کی نہیں۔ پانچواں سوال کیا وجوہات ہیں کہ ہمارے سماج میں بچوں کا ادب لکھنے والوں کی قلت ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بچوں کا ادب چند ادبا نے تحریر کیا۔ اس معاملے میں تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ بچوں کا ادب تمام ہی نامور ترین ادبا نے تحریر کیا ہے۔

ان میں حفیظ جالندھری، فیض احمد فیضؔ، عصمت چغتائی، انور شعور، جاذب قریشی، کرشن چندر، مسرور انور۔ مشتاق احمد یوسفی، ٹی وی فنکار کمال احمد رضوی نے بچوں کے لیے لکھا بلکہ وہ رسالہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق کی جائے اور ان لوگوں کی ادبی خدمات کا کھوج لگایا جائے۔ میں نے تحقیق کی اور ان ادبا کا بچوں کے لیے تحریر کردہ ادب تلاش کیا اور ان ادبا کی تحریروں پر مشتمل شدہ ان شخصیات پر ادبی نمبرز نکالے۔

چھٹا سوال اطلاعات کے جدید ذرایع آنے سے یعنی الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا کی آمد سے کتاب یا پرنٹ میڈیا کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ کتاب و پرنٹ میڈیا کی ہمیشہ سے اہمیت رہی ہے اور رہے گی۔ کتاب پڑھنے والے کتاب و اخبار پڑھنے والے اخبار ہی پڑھے گا۔

مہذب معاشروں میں آج بھی کتاب سے لوگوں کا رشتہ قائم ہے واقعہ یوں ہے چند برس قبل کا ذکر ہے کہ میں جرمنی سے فرانس جا رہا تھا کہ بذریعہ ٹرین۔ میرے ساتھ میرے دوست بھی تھے۔ ہوا یہ کہ ٹرین کی روانگی کے کوئی پانچ منٹ بعد ہمارے ڈبے میں مکمل خاموشی تھی اور تقریباً تمام مسافر مطالعے میں مصروف ہو چکے تھے البتہ سفر کے اختتام پر جنھوں نے اپنی کتب مکمل پڑھ لی تھیں وہ اپنی کتب ٹرین ہی میں چھوڑ گئے تھے تاکہ دوسرے ان کتب سے استفادہ کرسکیں۔ اس طرح وہ کتب بینی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے لکھنے والوں کے لیے کوئی پیغام ہم نے ان سے درخواست کی ان کا جواب تھا کہ چونکہ بات بچوں کے ادب کے حوالے سے ہو رہی ہے تو یہ بات لکھنے والا جوکہ بچوں کے لیے لکھ رہا ہے، ذہن میں رکھے کہ وہ کس عمر کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہے۔

پانچ برس کے بچوں کے لیے دس برس کے بچوں کے لیے یا بارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے ٹھیک ہے یہ سب بچے ہیں مگر عمر کے اعتبار سے ان کی ذہنی سطح یکساں نہیں ہوتی۔ آخر میں ہم نے ان سے اجازت چاہی اور وہاں سے روانہ ہوگئے حرف آخر اتنا عرض کریں گے کہ ادب ہو یا عام اخبارات ہم اپنی روایت برقرار رکھیں اور ان کا مطالعہ جاری رکھیں تاکہ نئی نئی معلومات کے ساتھ حالات حاضرہ سے بھی باخبر رہ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔