انتخابات کے بعد کا منظرنامہ۔ کیسا ہوگا؟

مزمل سہروردی  ہفتہ 28 جولائی 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک کا اگلا منظر نامہ کیا ہو گا اور کیا ہونا چاہیے۔آل پارٹیز کانفرنس ہو گئی ہے۔ اس پر پھر لکھیں گے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کو باری مل گئی ہے۔ لیکن بات تو آگے چلنی ہے۔ آگے کیا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آصف زرداری بہت خوش ہونگے۔

میرے خیال میں وہ عمران خان سے زیادہ خوش ہونگے۔ انھیں سندھ مل گیا۔ قومی اسمبلی میں بھی پہلے سے کچھ زیادہ سیٹیں مل گئی ہیں۔ سینیٹ میں وہ پہلے ہی موجود ہیں۔اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور بالخصوص آصف زرداری ان انتخابی نتائج سے عمران خان سے زیادہ خوش ہونگے۔ عمران خان کے لیے تو پھر بھی یہ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے۔ لیکن آصف زرداری کو سندھ میں مکمل واک اوور مل گیا ہے۔ عمران خان کے سر پر تو کافی تلواریں لٹک رہی ہیں لیکن آصف زرداری کی گردن کو وقتی طور پر مکمل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ اتنے شاندار نتائج کے بعد پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے کسی ٹریپ میں آئے گی۔ ان کے مسائل حل ہیں۔ وہ بس لفظی طور پر ن لیگ کے ساتھ ہونگے لیکن عملی طور پر ن لیگ کے ساتھ نہیں ہونگے۔ یہ درست ہے کہ آصف زرداری کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی کہ مرکزی حکومت کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جاتا۔ ان کی جماعت کو ایک ایسی پوزیشن مل جاتی کہ ان کی مدد کے بغیر مرکزی حکومت نہ بن سکتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شاید عمران خان کو یہ قطعی طور پر قبول نہیں تھا۔ اس لیے مرکز اور کے پی میں جس طرح عمران خان کو کلین واک اوور دیا گیا ہے اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کو کلین واک اوور دے دیا گیا ہے۔ بہر حال آصف زرداری اس وقت ایک خوش و خرم اور مکمل طور پر مطمئن انسان ہونگے۔

ان سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہو گئے ہیں۔ باقی وہ کسی کے ذمے دار نہیں۔ وہ اگلے پانچ سال محفوظ ہیں جیسے گزشتہ پانچ سال محفوظ تھے۔ لیکن انھوں نے ثابت کیا ہے کہ انھوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے۔ اس لیے وہ ماضی کی کوئی غلطی بھی نہیں کریں گے۔لیکن آصف زرداری بھی مشکل میں ہیں۔ اگر وہ ن لیگ کے ساتھ نہیں جائیں گے تو ن لیگ کو بھی اب ان کا کوئی لحاظ نہیں رہے گا۔ ن لیگ یہ مہم شروع کر دے گی یہ کیسا احتساب ہے جس میں زرداری کو عام معافی ہے اور ہمیں سزائیں ہیں۔پہلے ہی تحریک انصاف کے لاڈلوں کی معافیوں پر شور ہے۔ زرداری اگر اب ن لیگ کے ساتھ نہیں آئیں گے تو ن لیگ اب ان کو ٹارگٹ کرے گی جو زرداری کو قبول نہیں ہو گا۔ لیکن وہ ن لیگ کے ساتھ جانے کا رسک بھی نہیں لے سکتے۔ یہ ساری ڈیل ٹوٹ جائے گی۔

اس لیے ن لیگ ایسی پوزیشن میں بھی آسکتی ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں زرداری تمھیں بھی لے ڈوبیں گے۔لیکن اگر زرداری کو پکڑیں گے تو وہ ن لیگ کے ساتھ آجائیں گے جو عمران خان کی حکومت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔  جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے۔ ن لیگ کو بھی ان انتخابی نتائج کی شکل میں کافی سبق مل گیا ہے۔ لیکن ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ وہ دھاندلی کے بیانیہ کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کے پاس طاقت نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی ساتھ نہیں ہے۔ ریاستی مقتدر قوت ساتھ نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی مدد کے بغیر کچھ کرنا ممکن نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ،اسفند یار ولی، خان محمود اچکزئی سب ان کے ساتھ ہونگے۔ پریس کانفرنس میں شہباز شریف کے ساتھ بیٹھے یہ سب بہت اچھے لگیں گے۔ لیکن ابھی یہ سب مل کر عمران خان کے لیے کوئی بڑا خطرہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن خطرہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی بنیاد جو عمران خان کے ذہن میں خطرہ کی گھنٹیاں بجاتی رہے گی اور انھیں کسی بھی لمحے اسٹبلشمنٹ سے الجھنے نہیں دے گی۔ لیکن دوسری طرف ن لیگ کو خاموش نہیں بیٹھنا ۔ انھیں دھاندلی کا شور مچانا ہے۔ دھاندلی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنی ہے۔

پاکستان میں کب کیا ہوجائے کس کو پتہ ہے۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں صاف اشارہ دے دیا ہے۔ وہ کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنائیں گے لیکن اگر کوئی ادارہ کوئی کارروائی کرتا ہے تو وہ اسے نہیں روکیں گے۔ اس لیے ن لیگ کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ریڈ لائن عبور نہیںکرنی ورنہ دوسری طرف سے بھی ریڈ لائن عبور کی جائے گی۔ سب پنجاب کی بات کر رہے ہیں۔ کیا پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے دی جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا۔ عمران خان کو کسی بھی صورت یہ قبول نہیں ہو گا۔ اگر انھیں پنجاب نہیں ملتا تو انھیں مرکز کی حکومت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ سندھ پہلے پاس نہیں ہے۔ ایک کے پی کے، کے سر پر مرکز کی حکومت نہیں چل سکتی۔

پنجاب کے بغیر مرکز کی حکومت ایک بے معنی اقتدار ہے۔ اس لیے عمران خان پنجاب حاصل کریں گے چاہے کسی حد تک بھی جانا پڑے۔ اسی لیے پنجاب میں فارورڈ بلاک کی بات کی جا رہی ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ فارورڈ بلاک تیار بیٹھا ہے۔ بس آج یا کل بن جائے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو پہلی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ کسی فارورڈ بلاک کے بغیر ہی ان کی پنجاب میں حکومت بن جائے۔ آزاد سارے مل جائیں تو حکومت بن سکتی ہے۔ لیکن اگر چند آزاد بھی ن لیگ کے ساتھ آگئے تو صورتحال عمران خان کے لیے پنجاب میں مشکل ہو جائے گی۔

تحریک انصاف اور ن لیگ اتنے قریب ہیں کہ بس دو چار ووٹوں کی ہی گیم ہے۔ اس لیے عام سادہ ذہن تو یہی کہتا ہے کہ پنجاب میں فارورڈ بلاک کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت چل ہی نہیں سکے گی۔ ورنہ روز ہو گا کہ آج گئی کہ کل گئی۔ آج آزاد کا ایک گروپ ناراض ہو گیا ہے۔ اس لیے حکومت خطرہ میں آگئی ہے۔ آج ق لیگ ناراض ہو گئی ہے اس لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن یہ فارورڈ بلاک عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے وقتی مسائل تو حل کر دے گا لیکن کوئی نیک نامی نہیں دے گا۔ بلکہ سیاسی طور پر ان کی پوزیشن کمزور ہی ہوگی۔ وہ فارورڈ بلاک بھی ہر وقت بلیک میل ہی کرے گا۔ اسی لیے پنجاب کی حکومت مرکز سے زیادہ کانٹوں کی سیج ہوگی۔ ایک مضبوط اپوزیشن ، نمبر گیم ، اور کارکردگی کا دباؤ۔

چوہدری نثار علی خان کی قربانی ہوگئی ہے۔ اسی قسم کی صورتحال کا پاک سرزمین پارٹی بھی شکار ہو گئی ہے۔ مصطفیٰ کمال کی سیاست کا بھی بستر گول ہی نظر آرہا ہے۔ ان کی نسبت ایم کیو ایم نے پھر بھی کچھ سیاست بچا لی ہے۔ لیکن مصطفیٰ کمال کو تو کہیں جگہ بھی نہیں ملی ہے۔ جس طرح اگر چوہدری نثار علی خان ایک سیٹ بھی جیت جاتے تو سیاست بچ جاتی۔ اسی طرح مصطفیٰ کمال بھی ایک سیٹ بھی جیت جاتے تو سیاست بچ جاتی۔اسفند یار ولی خان بھی سیاسی طور پر شدید نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر صورتحال یونہی رہی اور اس میں تبدیلی نہ آئی تو شائد اگلی دفعہ ان کی جماعت انتخابات لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔