Ahiarmiut

مرزا ظفر بیگ  اتوار 29 جولائی 2018
شمالی کینیڈا کے برفانی خطے کے مکین ،جو نہایت سخت زندگی گزارتے ہیں

شمالی کینیڈا کے برفانی خطے کے مکین ،جو نہایت سخت زندگی گزارتے ہیں

یہ دونوں گروپ یعنی The Ihalmiut یعنی دور دیس کے لوگ اور Ahiarmiut یعنی دور دراز کے لوگ سمندروں سے دور خشکی پر رہنے والے دیسی لوگوں کے وہ گروہ ہیں جو اصل میں اسکیمو ہیں اور دریائے قازان کے کناروں پر آباد ہیں۔ اس کا دوسرا نام  Dubawnt Lake بھی ہے۔

یہ شمالی کینیڈا کے Keewatinخطے میں اور شمال مغربی علاقوں میں واقع ہے۔ اس خطے کو اب بنجر زمینوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بالکل خشک اور بے آب و گیاہ علاقہ ہے۔ ان بنجر زمینوں کو آج کے دور میں مقامی بولی میں Nunavut کہا جاتا ہے۔

Ihalmiut جو اصل میں Caribou نامی مقام کے رہنے والے اسکیمو ہیں اور ان بنجر زمینوں پر یہی اسکیمو گروپ ہر وقت جتھوں کی صورت میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور انہی بنجر زمینوں یا میدانوں کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا ہے۔ ان تمام اسکیمو گروپس کی خاص توجہ کا مرکز مرکزی یا سینٹرل caribou تھا۔ اس ویران اور اندھیری دنیا میں ان تمام اسکیموز اور Ihalmiut  کو اپنی بقا کے لیے بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے، کیوں کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں رہنا، اپنی زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں ہے بل کہ یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے بڑی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔

خاص طور سے تاریک قطبی علاقوں میں یہاں کی ناقابل برداشت سردیوں میں تو انہیں اپنی بقا کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ان تاریک سردیوں کے زمانے اسکیموز کے لیے خوراک کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے، کیوں کہ اس مشکل دور میں caribou کے سخت اور بے رحم علاقوں کی خشک سرزمین میں نہ گوشت ملتا ہے نہ سبزیاں اور ہی نہی دوسری غذائی اشیا، ایسے میں ان اسکیموز کو کھانے پینے کے لیے جتنی مشقت کرنی پڑتی ہے، اسے شاید لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ caribou کے رہنے والے تو یہ مشکل کام بھی کرتے ہیں کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے استعمال کے لیے جانوروں اور مویشیوں کا گوشت خشک کرتے ہیں، تاکہ بعد میں اسے استعمال کیا جاسکے۔

یہ بھی ایک نہایت شدید مشقت والا کام ہے جس کے لیے انہیں اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سرد اور موسمی لحاظ سے خشک و بے رحم علاقے میں یہاں کے لوگ یہاں کے ایک نہایت حسین اور پیارے سے مقامی پرندے ptarmigan کا شکار بھی کرتے ہیں۔ وہ لوگ اس پرندے کا گوشت بڑے شوق ار رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ قطبی علاقوں کا ایک سفید رنگ کا تیتر ہوتا ہے جسے یہاں کے لوگ بڑی توجہ اور شوق سے شکار کرتے ہیں اور بعد میں اس کی ضیافت بھی خوب مزے سے اڑاتے ہیں۔ ptarmigan یعنی سفید تیتر اس علاقے کا خاص پرندہ ہے اورcaribou میں موسم بہار کی واپسی تک بڑی وافر مقدار میں ملتا ہے۔ اس خطے کا یہ برفانی تیتر یہاں کے لوگوں کو ہر لحاظ سے بہت مرغوب ہے۔ وہ اسے شوق سے پالتے بھی ہیں اور وقت ضرورت اسے اپنی خوراک بھی بنالیتے ہیں۔

٭Tyrrell: کاکیشیائی لوگوں سے Ihalmiut کا پہلا معرکہ 1893 اور  1894میں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ کاکیشیائی لوگوں کو مقامی اسکیموؤں کی زبان میں Qaplunaat کہتے ہیں۔ اس دور میں بنجر زمینوں کی مہمات بھیجی گئی تھیں۔ یہ بات جیولوجیکل سروے آف کینیڈا میں کہی گئی ہے۔

ان مہمات کی قیادت اس دور میں Joseph Tyrrell نے کی تھی۔

٭ ہڈسن بے کمپنی:  1934 تک Ihalmiutکی تعداد 80تھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے گھرانوں کے سربراہ تھے۔ ان تمام افراد یا گھرانوں کے سربراہوں کے یورپی افراد کے ساتھ روابط بہت محدود تھے، ان میں Hudson’s Bay Company کے سابقہ مینیجرز بھی شامل تھے جو اس دور میں کمپنی کی ونڈی پوسٹ پر تھے جو 1936ء میں دریائے ونڈی کے مقام پر فائز تھے جسے Simmon جھیل بھی کہا جاتا تھا۔ بعد میں یہ افراد یہاں سے نقل مکانی کرکے Nueltin جھیل کی طرف چلے گئے۔ادھر Ihalmiut لوگوں نے اس مقام پر اپنی سمور کی گرم جیکٹس، ہرن کی کھال کے جوتوں اور فر سے تیار کردہ مختلف اشیاء کی تجارت بھی کی اور اس کے بدلے میں انہوں نے گولہ بارود، بندوقیں اور چائے حاصل کی تھی۔ یہ بھی بیرونی یا یورپی لوگوں سے ان کی بنیادی تجارت جس میں انہوں نے اپنے خطے میں تیار کردہ اشیاء ان لوگوں کو دے کر ان سے اپنی ضرورت کی چیزیں خریدیں۔

اس خطے میں Chipewyan اور Metis لوگوں نے بھی تجارت کی تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہChipewyanکون تھے؟ یہ Athapaskan افراد کے وہ رکن تھے جو مغربی کینیڈا میں Great Slave Lake اور خلیج ہڈسن ک درمیان رہتے ہیں۔ اسی طرح Metisبھی وہ لوگ تھے جو مغربی کینیڈا میں آباد تھے جن کے آباو اجداد کا تعلق کاکیشیائی اور امریکن انڈین نسلوں سے تھا۔

٭Mowat:  تاریخ گواہ ہے کہ زندگی کے ہر دور میں ہی ان برفانی علاقوں کے مکینوں یعنی ان Ihalmiut کو بڑے پیمانے پر نظرانداز کیا گیا، ان سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا اور انہیں ان مشکل حالات میں زندگی گزارنی پڑی جس کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کتاب People of the Deer کے مصنف اور مہم جو  Farley Mowatنے 1940کے عشرے میں یہاں کا یعنی اس خطے کا مطالعاتی اور تحقیقی دورہ بھی کیا۔ اس دوران نے Farley Mowat یہاں کے لوگوں کے ساتھ قیام بھی کیا تاکہ وہ یہاں کی زندگی کی اصل مشکلات کا بہ ذات خود مطالعہ کرسکے۔ اس زمانے میں یہ Ihalmiut لوگ جھیل Yathkyed اور جھیل Ennadaiکے درمیانی علاقے میں رہ رہے تھے جو اصل میں Padlermiut کا علاقہ تھا۔

Farley Mowat نے اس خطے میں رہنے کے بعد اور یہاں کے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنے کے بعد اپنے ذاتی تجربات کے بارے میں متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں یہاں کے لوگوں کی مشکلات اور مسائل بھی بہت کھل کر بیان کیے۔ اس نے اپنی کتابوں میں People of the Deer اور The Desperate People میں بھی مقامی افراد کے مجموعی مسائل پر کھل کر روشنی ڈالی۔ مذکورہ کتابوں میں فاضل مصنف نے یہ بھی لکھا کہ 1886میں یہاں آباد Ihalmiut افراد کی آبادی کم و بیش 7,000 افراد پر مشتمل تھی جو بعد میں کم ہوتے ہوتے 1947-48 میں صرف 40ہوگئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ان کی آبادی  1950 میں اتنی کم ہوئی کہ صرف 30 Ihalmiut ہی اس خطے میں بچے تھے۔

٭وہ کیوں تباہ ہوئے؟  یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر  Ihalmiut افراد کی یہ تعداد اتنی تیزی سے یکایک کم کیوںہوتی چلی گئی اور اس کے بنیادی اسباب کیا تھے جنہوں نے انہیں دنیا سے مٹا ڈالا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے کچھ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ اس کے بنیادی اسباب یہ تھے کہ ان کے شکار کا طریقۂ کار ماضی اور حال میں مسلسل تبدیل ہوتا رہا اور انہوں نے اپنے شکار کے دو طریقے اختیار کیے,  کیوں کہ انہیں دو بنیادی ضروریات کے لیے شکار کرنا پڑتا تھا: پہلا مقصد تھا خوراک کے لیے شکار کرنا جس سے وہ اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرتے تھے اور دوسرا تھا فر کے لیے شکار کرنا۔ یہ ان کی تجارتی یا معاشی ضرورت تھی جس کے ذریعے وہ دنیا کے دیگر ملکوں یا اقوام کے ساتھ رابطے میں تھے۔

اس طرح اس دو طرفہ تجارت نے انہیں اپنی غذائی اجناس بھی فراہم کیں اور انہوں نے اپنی خوراک میں بیرونی دنیا کی اجناس یعنی آٹا اور شکر بھی شامل کر لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دو طرفہ تجارت نے ایک طرف تو ان کے معاشی اور اقتصادی مسائل حل کیے تو اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف بیرونی افراد کی آمد نے انہیں مختلف بیماریوں کے ’’تحفے‘‘ بھی دے دیے جن میں diphtheria یعنی خناق کی بیماری بھی شامل تھی، اس بیماری نے ان کے بچوں کو بھی بیمار کیا اور ان کی سلیج یعنی برفانی گاڑیاں کھینچنے والے کتوں کو بھی بیمار کرڈالا۔

ان دونوں مسائل کی وجہ سے یہاں کے لوگ خاصے پریشان اور مایوس ہوئے اور انہوں نے ان علاقوں سے ہجرت کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ادھر Farley Mowat لگ بھگ ایک سال تک ان Ihalmiut کے ساتھ رہتا رہا، اس دوران اس نے بڑے غور اور توجہ سے ان کے کلچر اور ان کی زندگی گزارنے کے طریقوں کا مطالعہ کیا۔اس دوران اپنی تحقیق اور مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ caribou میں مقیم زیادہ تر افراد کو ان سفید فام لوگوں نے بے دردی سے ہلاک کیا تھا جس کے باعث caribou کی وہ آبادی ختم ہوتی چلی گئی جن میں Ihalmiut زندگی کے متعدد معاملات میں انحصار کرتے تھے۔

٭نقل مکانی:  بیسویں صدی کے اواخر میں بھوک سے نڈھال Ihalmiut نے دوسرے لوگوں کے ساتھ وفاقی حکومت کی نقل مکانی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اس کا ساتھ دینا شروع کردیا، وہ حکومت انہیں دوبارہ نئی جگہ آباد کرنے کی خواہش مند تھی۔

1949میں Ihalmiut  کو جھیل Ennadai سے اٹھاکر جھیل Nueltin منتقل کردیا گیا۔

لیکن اس نقل مکانی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا، کیوں کہ یہاں شکار زیادہ نہیں ملتا تھا، چناں چہ کچھ لوگ واپس جھیل Ennadai کے میدانوں میں جاکر آباد ہوگئے۔ مئی 1957میں Ihalmiutافراد کو جھیل Ennadai سے بہ ذریعہ ہوائی جہاز اٹھالیا گیا اور انہیں جھیل Henik پہنچا دیا گیا جو Padlei  کی تجارتی پوسٹ سے کوئی 45میل دور واقع تھی۔ یہ اتنا فاصلہ تھا جو کینیڈا کی حکومت کے خیال مین مناسب تھا یا یوں کہا جائے کہ زیادہ مشکل نہیں تھا۔  بعد میں یعنی 1957میںIhalmiut کو  Whale Cove منتقل کردیا گیا جہاں کچھ افراد نے آمدنی کے حصول کی خاطر تصویروں کی کندہ کاری شروع کردی۔

1958 میں لگ بھگ 29 Ihalmiut نے یہاں سے رخت سفر باندھا اور Padlei  چلے گئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تجارتی پوسٹ کام کررہی تھی چناں چہ 39 افراد جھیل Yathkyedپر لائے گئے اور اکثریت کو رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس نے اسکیمو پوائنٹ پہنچا دیا۔ 1959ء میں Padlei کی تجارتی پوسٹ بند ہوگئی اور باقی بچ جانے والے Ihalmiut کو پھر نقل مکانی کے لیے تیار کیا گیا۔

پھر 1959ء میں Mowat نے اس خطے کا پھر دورہ کیا اور اس کے نتیجے میں Walking on the Land نامی کتاب وجود میں آئی جس میں وفاقی حکومت کی کوششوں کا تذکرہ بھی تھا اور Royal Canadian Mounted Police کا بھی۔ اس کے علاوہ کیتھولک مشنریز کے کردار کو بھی دیکھا گیا تھا اور لوگوں کو ہر لحاظ سے مصروف بنایا گیا تھا۔ ان لوگوں کی آباد کاری کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور یہ چاہا گیا کہ انہیں بھی مہذب دنیا کا ایک مفید اور کار آمد حصہ سمجھا جائے اور انہیں بھی کام میں لایا جائے۔

ان کے ٹیلنٹ کی قدر کی جائے تاکہ یہ بھی ہمارے مہذب معاشرے کے مفید اور کار آمد رکن بن کر ہماری اس دنیا کی ترقی اور نشو ونما کے لیے کام کرسکیں اور اس دنیا کو خوب ترقی دے سکیں، مگر ان کے لیے کی جانے والی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں جن کی کچھ وجوہ میں یہ بنیادی وجہ بھی شامل ہے کہ یہ لوگ ابھی تک اپنی قدامت پرستی کے جال سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اور نہ ہی وہ مہذب معاشرے میں ڈھل سکے ہیں۔ مگر کوششیں جاری ہیں اور ایک نہ ایک دن ماضی کے یہ اسکیمو جنہیں صرف برفانی دنیا کے مکین سمجھا جاتا تھا، وہ ضرور ہماری دنیا کے اہم رکن بن جائیں گے اور اس دنیا کی خوش حالی کے لیے تعمیراتی کام کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔