کیا یہ بے وقوف قومیں ہیں؟

شیریں حیدر  اتوار 29 جولائی 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک ٹائم زون سے سفر کر کے جب آپ کسی دوسرے ٹائم زون میں، چوبیس گھنٹے کاسفر طے کر کے جاتے ہیں، جہاں پر وقت آپ کے ملک کے وقت سے نوگھنٹے پیچھے ہو… یعنی جب آپ کے ملک میں رات ہو تو وہاں صبح اور جب آپ کے ہاں صبح ہو تو وہاں رات- جسم کے اندر نصب کلاک کو اس کیمطابق سیٹ ہونے میں کچھ د ن لگتے ہیں۔ ان کچھ دنوں میں انسان رات بھر ناکام عاشقوں کی طرح جاگتا اور دن میں منحوسوں کی طرح سوتا ہے۔

ایسی ہی چند راتوں میں کینیڈا پہنچ کر رات بھر کرسی پر بیٹھ کر کھڑکی کے پردے ہٹا کر باہر دیکھتی رہتی تھی۔ بیٹی کا گھر کونے والا ہے اور کھڑکی سے اس چوک کا منظر نظر آتا ہے جہاں پر آمنے سامنے کی دونوں اطراف، لگ بھگ پانچ فٹ اونچے پول پر بمشکل ایک فٹ بائے ایک فٹ کا لال رنگ کا ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لفظ  STOP لکھا ہوا ہے۔

اس سائن کا مطلب ہے کہ اس چوک کو کراس کرنے سے پہلے آپ نے چند سیکنڈ تک رکنا ہے، دائیں بائیں سے ٹریفک کو دیکھنا ہے یا کوئی پیدل چل رہا تو اسے پہلے گزرنے کا حق دینا ہے اور پھر چلنا ہے۔ اس سائن پر رکنا لازم ہے، چاہے آپ کو چاروں طرف میلوں تک راستہ صاف اور واضع نظر آرہا ہو۔ رات کو اکا دکا گاڑیاں ہی گزرتی ہیں، شاید وہ لوگ جو رات کی شفٹوں میں کام کرتے اور گھروں کا کام کے بعد لوٹتے ہیں، یا کوئی ایسا جسے کوئی شدید ایمر جنسی ہو گی۔

میں رات بھر بیٹھی یہ دیکھتی رہتی کہ کوئی نہ کوئی تو ایسا ہو گا جو سوچے گا کہ رات کے اس پہر بھلا کون ہو گا جو پیدل چل رہا ہو گایا کون ہو گا جس کے لیے اسے رک کر پہلے راستہ دینا ہو گا۔ کوئی ایسا جسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہو گی، کوئی ایسا جس کا تعلق کسی ایسے ملک سے ہو گا جہاں پر ٹریفک قوانین کی اتنی سختی نہیں ہے، ہمارے ملک جیسا۔ کون سا کوئی پولیس والا وہاں کھڑا ہے یا کیمرہ لگا ہوا ہے… مگر نہیں صاحب، مجال ہے جو کوئی وہاں بغیر رکے گزر جائے!!! نہ کوئی اسپیڈ بریکر، نہ لال بتی کا اشارہ۔

کیا یہ قومیں اتنی ہی بے وقوف ہیں کہ رات دیر کے پہروں میں بھی قانون نہیں توڑتیں؟ مانتی ہوں کہ کوئی اور دیکھے نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے… مگر کون سا اللہ میاں نے انھیں کہا ہے کہ ہو وہاں رکیں چاہیں کوئی اور گاڑی یا شخص ہو یا نہ ہو۔ ملک کا قانون ہے… تو کون سا وہاں کوئی چوک میں قانون کا رکھوالا کھڑا ہے جس نے چالان کر دینا ہے؟ اس کا موازنہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ملک سے کرنے لگی، ایسی باتوں پر احساس کمتری ہونے لگتا ہے، ان ملکوں سے حسد محسوس ہوتا ہے اور ان کے عوام پر فخر۔ یقینا وہ سب قانون ہی کے ڈر سے اس کی پابندی کرتے ہیں کہ جہاں پکڑ ہوئی وہاں سزائیں سخت ہیں، مگر کیا ہمارے ہاں قوانین نہیں ہیں؟؟ یا آج تک کسی کو قوانین کی خلاف ورزی پر ایسی سزائیں ملیں کہ وہ باقیوں کے لیے نشان عبرت ہو؟ بغیر لائسنس کے… بسیں ، ویگنیں اور ٹرک چلاتے ہوئے ڈرائیور جانے کتنی ہی زندگیوں کو داؤ پر لگا چکے مگر کسی کو کیا سزا ملی؟

ماموں اگلے روز بتا رہے تھے کہ انھیں کسی کام سے ٹورنٹو کے پاکستانی قونصلیٹ میں جانا پڑا، کام سے چند گھنٹوں کی چھٹی لی کہ شاید چند گھنٹوں میں واپس لوٹ آئیں گے مگر وہاں عمارت کے باہر اور اندر کی حالت زار کے علاوہ بد نظمی، بے ترتیبی اور سستی کا عالم بھی ابتر تھا، نہ کوئی ترتیب، نہ نظم۔ سارن دن وہیں ضائع ہو گیا۔ جس کاؤنٹر پر انھیں کام تھا اس کے سامنے لوگ قطار کہ نہیں بلکہ ’’ ڈھیر‘‘ کی صورت تھے۔ کاؤنٹر کے اندر سے عملے کے فرد نے کئی بار اس جم غفیر سے درخواست کی کہ اگر قطار بنا لی جائے گی تو سب کا کام آسان ہو جائے گا اور جلد بھی۔ ان کے ایک بار درخواست کرنے پر ایک صاحب چڑ گئے اور پنجابی میں کہا، ’’لو جی اب ہم یہاں بھی قطار بنائیں گے، اپنے قونصلیٹ میں؟‘‘ اس ایک فقرے میں معنی اور مطالب کی گہرائی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ اس ملک میں ہر جگہ قطار بنا بنا کر زچ ہو چکے ہیں اور یہ قونصلیٹ چونکہ ’’پاکستان‘‘ کا ہے تو یہاں وہ سلیقے اورطریقے سے کام کرنا ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ بحیثیت قوم ہمارا مزاج ہی ایسا نہیں ہے۔

واٹس ایپ پر ایک پیغام موصول ہوا تو ہنسی بھی آئی… آپ سے شئیر کرتی ہوں، جانے اس میں کتنی سچائی ہے۔

’’ پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن میں کامیابی کے بعد پہلا پیغام۔ یہ پیغام کم ازکم پانچ لوگوں کو بھیجیںتا کہ اس کے پھیلنے کا سلسلہ جاری رہے۔

٭سڑکوں پر کوڑا نہ پھینکیں۔ ٭سڑکوں اور دیواروں پر مت تھوکیں۔ ٭دیواروں اور کرنسی نوٹوں پر مت لکھیں۔ ٭دوسروں کو گالی گلوچ مت کریں۔ ٭ پانی اور بجلی بچائیں۔ ٭درخت لگائیں۔ ٭ٹریفک کے قوانین کی پابندی کریں۔ ٭اپنے والدین اور ان کے والدین کا خیال رکھیں ان کی عزت کریں اور ان سے دعائیں لیں۔ ٭ عورتوں کی عزت کریں۔ ٭ایمبولینس کو راستہ دیں۔ ٭ ملک کو تبدیل کرنے سے پہلے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہے، ہم تبدیل ہوں گے تو ملک بھی تبدیل ہو جائے گا۔ ٭اگر ہم اپنے بچوں کو ایک اچھے ملک اور ماحول میں رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان اصولوں کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا ہو گا۔ ٭ جب تک آپ اور میں خود نہیں چاہیں گے، کوئی لیڈر ہمارے ملک کی تقدیر کو نہیں بدل سکتا۔ ( شکریہ) ‘‘

اس پیغام کے مطابق، یہ پیغام جیتنے والی پارٹی کی طرف سے پہلا پیغام ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو بھی اور نہیں ہے تو بھی، پڑھ کر ہنسی آئی کہ اس میں تو ابھی بہت سے بنیادی نکات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے… مگراس کے لیے ایک مکمل علیحدہ کالم چاہیے ہو گا۔ فی الحال تو یہ لگا کہ ہماری قوم ابھی تک بنیادی تربیت کے اصولوں سے نابلد ہے اور دکھ تو یہ ہے کہ یہ سچ بھی ہے۔ ہمیں ابھی تک اس تربیت کی ضرورت ہے جو ہر بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی چار پانچ برسوں میںحاصل کر لیتا ہے اور جس کے لیے اس کی ماں کی گود اور اس کا گھر اس کی تربیت گاہ ہوتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جو بچہ اسکول جانے سے بھی پہلے جان لیتا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ کوئی ان بنیادی باتوں سے اس لیے نابلد رہ گیا کہ وہ اسکول نہ جا سکا۔

ایک اچھا حکمران ہمیں تبھی مل سکتا ہے جب ہم پہلے خود اپنے اچھی قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ہم حکمرانوں کی ذاتی زندگیوں میں ہی الجھے رہ جاتے ہیں اور اصل مسائل سے چشم پوشی کرتے ہیں تو وہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اپنے فرائض پورے کریں اور اپنے حقوق کو جانیں اور ان کے لیے آواز اٹھائیں۔ جب کوئی کرسی پر ہو اور صاحب اقتدار ہو تو ہم اس کا ظلم اور بد دیانتی کیوں برداشت کرتے اور خاموش رہتے ہیں؟ کسی کے خلاف لکھے ہوئے الفاظ تک اخبارات نہیں چھاپتے کہ جانے کیا ہو جائے گا، کیا ظلم برداشت کرنا اور اپنے ملک کو بکتے اور نچتے ہوئے دیکھنا بے حسی نہیں ہے اور اس کے لیے ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی اور ہمارے حصے کی جنگ لڑے۔ کیا ہم ٹیکس دیتے ہیں؟ کیا ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ کہاں لگا؟ کیا ہم چیک کرتے ہیں کہ کس موقع کے لیے قانون کی کیا شق ہے اور اس کا استعمال کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ مگر اس سے پہلے کیا ہم خود قانون کاپاس کرتے ہیں؟

اگر ہمارے ملک کو سیدھی ڈگر پر چلانا ہے تو سب سے پہلے میڈیا کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ناک کس طرح صاف کرنا ہے، دانت کیسے اور کان کیسے، اس طرح کے بنیادی مسائل اور اس جیسی تربیت کا ذمہ ماؤں پر رہنے دیں- باقی معاملات کے لیے معلوماتی، دستاویزی پروگرام اور ڈرامے ٹیلی وژن کے چینلوں پر نشر کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری بنیادی تربیت میں موجود سقم دور کیے جا سکیں۔ ملک میں ہر جرم کے لیے قانون موجود ہو گامگر اس کا ادراک کسے ہے؟ ہمارے بنیادی فرائض، حقوق اور قوانین کو اس طرح نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ عمر کے ہر حصے میں ہم ان سے آگاہ ہوتے رہیں اور جوں جوں ہمارا فہم بڑھے اس کے مطابق ہم اپنے حقوق و فرائض جان لیں۔ مثلاسڑک کس طرح پار کرنا ہے، اس کے بارے میں تو ہمیں بہت شروع سے سکھانا چاہیے مگر گاڑی کس طرح چلانا ہے اس کے بارے میں تربیت پندرہ سولہ برس کی عمر سے شروع کر دینا چاہیے۔

حکمرانوں کو اس وقت جن بین القوامی چیلنجز کا سامنا ہے وہ تو ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر سدھار کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔ اسے اہم کاموں سے علیحدہ نہیں سمجھنا چاہیے اور اس کے لیے بھی مشاورتی کمیٹیاں قائم کرنا اور ان کی مہارت کا استعمال کرنا چاہیے۔ ہم بطور قوم… اگر تبدیلی چاہتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ تبدیلی آ گئی ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ حکمران تبدیل ہو جائیں گے تو تبدیلی آ جائے گی۔ ہمیں اپنے اندر خود تبدیلی لانا ہو گی، اگر ہمارے حکمران ہمارے ساتھ مخلص نہ ہوئے تو ہم ان کے ساتھ کیسے مخلص ہوں گے؟ اگر وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اقتدار کے نشے میں آ گئے تو کیا پھر ہم کسی اور تبدیلی کا انتظار کریں گے؟؟ ہر گز نہیں!! اگراب بھی ہم نے خو د کو نہ سدھارا اور اس انتظار میں رہے کہ موجودہ حکومت کوئی معجزہ کردے گی تو یقین مانیں کہ

ہمارا نام بھی نہ ہو گا نامیوں میں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔