قیدی عورتیں: دیوار پر دستک

زاہدہ حنا  اتوار 29 جولائی 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

قیدی عورتیں کس طرح ایک دوسرے سے رابطہ کریں؟ اس کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی کوٹھری سے دوسری کوٹھری کی دیوار پر دستک دیں، یوں ایک دوسرے کو بتائیں کہ وہ زندہ ہیں، موجود ہیں۔ اس کتاب کی مجھے برسوں سے تلاش تھی لیکن وہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مجھے کہیں نہیں ملی۔

یہ لندن تھا جہاں پہنچ کر بعض دوسری کتابوں کے ساتھ ’’وال ٹیپنگ‘‘ کی میں طلب گار ہوئی۔ پانچ منزلہ کتاب گھر فوایلز کے کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی خاتون نے اپنے کمپیوٹر کی انٹریز پر نظر دوڑائی اور پھر مجھے بتایاکہ جوڈتھ اے شیفلر کی یہ کتاب مجھے کس منزل پر، کس شعبے کی کون سی الماری میں ملے گی۔ چند منٹ بعد وہ کتاب میرے ہاتھوں میں تھی جس کی میں برسوں سے طلب گار رہی تھی۔

یہ کتاب جسے شیفلر نے مرتب کیا ہے، ان قیدی عورتوں کی تحریروں کا انتخاب ہے جنھوں نے زندان میں اپنی زندگی کے شب و روز گزارے اور ان کے بارے میں لکھا۔ یہ الفاظ آنکھوں میں چبھتے ہیں۔ یہ ان زندانی عورتوں کی زندگی ہے جو اپنے مذہبی یا سیاسی خیالات کی بنا پر گرفتار ہوئیں، جیل میں رکھی گئیں اور ان میں سے بعض جان سے بھی گزرگئیں۔

یہ کتاب دوسری صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں 209 عیسویں میں ایک 22 سالہ رومن لڑکی وینیا ہے جس نے بت پرستی کے عقائد ترک کرکے عیسائیت اختیار کرلی تھی۔ رومن بادشاہ نے اسے راہ راست پر آنے کا حکم دیا لیکن جب اس نے اپنا نیا عقیدہ ترک کرنے سے انکار کردیا تو پہلے وہ اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ قید کی گئی اور پھر ایمفی تھیٹر میں وحشی جانوروں اور نیم وحشی پہلوانوں کے سامنے پھینک دی گئی جہاں اسے چیر پھاڑ دیا گیا۔ اسے رومن کیتھولک چرچ میں شہید کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی ڈائری کے کچھ ورق محفوظ رہے جن میں اس نے کال کوٹھری کے گھپ اندھیرے، ہوا کی رمق نہ ہونے اور دوسری قیدی عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کال کوٹھری میں یوں ٹھنسی ہوئی تھیں جیسے کسی باڑے میں بھیڑ بکریاں۔

اس کتاب میں ہمیں سترہویں صدی کی ایک برطانوی کوئیکر،کیتھرین ایوانس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں کوئیکر وہ لوگ تھے جو عیسائیوں کا ایک امن پسند اور صلح جو گروہ تھا جن سے رومن کیتھولک عیسائی سخت اختلاف رکھتے تھے۔ کیتھرین اپنے گروہ کے عقائد کی تبلیغ کرنے کے لیے نکلتی ہے۔ بحری سفر کرتی ہے اور جزیرہ مالٹا جا پہنچتی ہے۔ وہاں اس کو اعتقادات کی بنا پر اس زمانے میں ہونے ولی تعذیب (Inquisition) سے گزرنا پڑتا ہے۔ شدید مصائب سہتے ہوئے اور اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے وہ مہینوں جیل کاٹتی ہے۔ اس دوران چند دوستوں کو خط لکھتی ہے۔ یہ خط محفوظ رہ گئے اور آج ہمیں بتاتے ہیں کہ سیاست سے پہلے عقیدے کی بنیاد پر مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی کیسی کیسی سزائیں سہی ہیں۔

1793ء میں ہماری ملاقات مادام رولانڈ سے ہوئی ہے جس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے گھر بار سنبھالنے کے بجائے سیاست کے میدان میں قدم رکھا جو عورتوں کے لیے ممنوع تھا اور خدا کے حکم سے سرتابی تھی۔ وہ اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ 8 برس کی عمر میں دینیات پڑھنے کے بجائے وہ پلوٹارک کی کتاب ’’مشاہیر یونان و روما‘‘ پڑھتی۔ ہیوم کی تاریخ انگلستان، اسے بہت محبوب تھی۔ اپنے سیاسی خیالات اور دوستوں کے انتخاب کی بنیاد پر وہ قید ہوئی۔ اس نے 1793ء میں جیل کی یاد داشتیں لکھیں جو محفوظ رہ گئیں۔

ابتدائی یاد داشتیں اس نے ایک دوست کو دی تھیں تاکہ وہ انھیں حفاظت سے رکھے لیکن دوست کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ مادام رولانڈ سرکاری طور پر معتوب ہوگئی ہے، اس نے خوف کی بنا پر مادام کی تمام ڈائریاں جلادیں۔ اس واقعے کا مادام رولانڈ کو بہت صدمہ رہا۔ اس نے بعد میں جیل کی کوٹھری میں جو یاد داشتیں لکھیں وہ محفوظ رہیں اور 225 برس بعد ان کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ اس پر جیل کے اندر ہی مقدمہ چلا۔ وہ اس وقت کی حکومت کی غدار کہی گئی اور اس کا سر قلم کرنے کا حکم ہوا۔ اس کا سر اڑائے جانے کا منظر جن لوگوں نے دیکھا، ان لوگوں نے لکھا ہے کہ جب وہ گلوٹین تک لے جائی گئی تو اس کا سر بلند تھا۔

پیروں میں لغزش نہیں تھی، اس نے اپنی گردن گلوٹین کے نیچے رکھی، جلاد نے تیغے کی رسی چھوڑی، وہ اس کی گردن پر گرا اور چشم زدن میں اس کا سرکٹ کر دوسری طرف جا پڑا۔ شیفلر کی کتاب صرف ان قیدی خواتین کے بارے میں نہیں جنھیں ان کے مذہبی خیالات کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا یا سزائے موت دی گئی۔ اٹھارویں صدی کے بعد اور بہ طور خاص انیسویں اور بیسویں صدی میں خواتین اپنے سیاسی خیالات اور اپنی جد وجہد کے حوالے سے جیل گئیں۔ ان میں ملائیشیا، اریٹیریا، مصر، ارجنٹائن، انگلینڈ، سوویت یونین، ایران، جنوبی افریقا، امریکا اور چین کی خواتین شامل ہیں۔

روسی شاعوانا اخماتوف نے یکم اپریل 1957ء کو لینن گراڈ کی جیل میں رہنے والی، دکھ، جسمانی اذیت اور تنہائی سے نڈھال عورتوں کے بارے میں لکھا کہ ان میں سے کسی نے مجھے پہچان کر میرے کان میں سرگوشی کی ’’کیا تم ہمارے حالِ زار کے بارے میں لکھ سکتی ہو؟ میں نے اقرار کیا کہ ہاں میں لکھ سکتی ہوں۔ اس کے بعد میں نے ان عورتوں کے حال زار کے بارے میں ایک طویل نظم لکھی یہ عورتیں لمبی لمبی قطاروں میں اپنا کھانا لینے کے لیے کھڑی رہتیں۔ سردی اور مارپیٹ سے ان کے ہونٹ نیلے ہوتے اور ان کی آنکھوں میں امید کی رمق بھی نہ ہوتی۔ اسی صورتحال کے بارے میں کارلین فیتھ نے لکھا ہے کہ پہلا انسانی حق اپنے بارے میں، اپنی آواز میں بولنا ہے۔

شیفلر نے اس کتاب میں شہرت یافتہ مصری ادیب نوال سعدوی کی تحریر کو بھی شامل کیا ہے۔ نوال سعدوی کی کتاب ’’زیروپوائنٹ‘‘ اردو میں ترجمہ ہوچکی ہے لیکن جیل کی یاد داشتیں ابھی ترجمہ نہیں ہوئیں۔ نوال کا کہناہے کہ خطرہ اس روز سے میری زندگی کا حصہ رہا جب میں نے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم اٹھایا۔ نوال 1986ء میں جیل میں جب زندگی کے دن گزار رہی تھیں اس وقت سے نوال نے جیل کی یاد داشتیں لکھنی شروع کیں۔ اس سمے سے نوال نے اپنے احساسات لکھنے شروع کیے۔ وہ مصری طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتی تھی اور پیشے کے اعتبار سے سائیکیٹرسٹ تھی لیکن بغاوت اور مزاحمت کے جراثیم اس کے اندر نو عمری سے پنپتے تھے۔ وہ تنہائی کو اپنے لیے ایک نعمت تصور کرتی تھی۔

یہ تنہائی اسے اس وقت میسر آتی جب وہ کاغذ اور قلم سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی۔ اسے جب ریاست سے بغاوت کی سزا میں جیل بھیجا گیا تو وہاں بھی وہ تنہائی کے لیے ترستی تھی۔ جیل میں اس نے بغاوت کا راستہ اس طرح ڈھونڈا کہ وہ صبح کے ٹھیک 9 بجے ورزش شروع کردیتی۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں کی جنبش اسے جسمانی طاقت دیتی۔ یہ ایک دلچسپ بات تھی کہ اس کے ارد گرد رہنے والی قیدی عورتیں، اس کے ساتھ ورزش کرنے میں لطف محسوس کرتیں درجنوں عورتوں کے بدن کی ایک ساتھ جنبش میٹرن کو طیش میں مبتلا کردیتی۔

اسے یوں محسوس ہوتا جیسے یہ تمام قیدی عورتیں ایک ساتھ بغاوت کررہی ہیں۔ وہ انھیں نوال کے ساتھ مل کر ورزش کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی لیکن کوئی اس کی نہ سنتا۔ اگر کسی روز نوال کو ورزش آغاز کرنے میں چند لمحوں کی دیر ہوجاتی تو قیدی عورتیں ڈاکٹر، ڈاکٹر کا نعرہ لگاتیں اور نوال ہنستی ہوئی آجاتی اور ایک بار پھر مل کر ورزش کرنے، دوسرے لفظوں میں بغاوت کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اسی طرح متعدد عورتوں کا بہ آواز بلند تلاوت کرنا بھی میٹرن کو بغاوت کا ایک طریقہ محسوس ہوتا۔

شیفلر نے امریکی جیلوں میں قید عورتوں کی زندگی کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے ان عورتوں کے خطوط، ڈائریاں اور یاد داشتیں شیفلر کی کتاب میں موجود ہیں جس سے ہمیں جیل کاٹنے والی عورتوں کی زندگی میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے اور یہ نظر آتا ہے کہ کال کوٹھری میں وقت گزارنے والیاں کس ذہنی اذیت سے گزرتی ہیں۔

ہمارے یہاں سالہا سال باپ کی قید میں زندگی بسر کرنے والی شہزادی زیب النسا کا شیفلر کی کتاب میں کوئی تذکرہ نہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی چہیتی بیٹی کو اس کے ایک سیاسی فیصلے کی کس قدر بھیانک سزا دی، اس کا اندازہ اس دور کی بعض یاد داشتوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح شیفلر نے ہماری بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی قید و بند کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ بیسویں صدی کی وہ عورتیں تھیں جنھوں نے اپنے سیاسی فیصلوں کی بھاری قیمت ادا کی۔ اس طور دیکھا جائے تو شیفلر کی یہ کتاب کئی حوالوں سے نا مکمل رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔