نئے پاکستان میں کھیلوں کے میدان کیسے ہوں؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 29 جولائی 2018
عمران خان کو فیڈریشنز میں سیاسی تقرریوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

عمران خان کو فیڈریشنز میں سیاسی تقرریوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

رضا سعید پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، وہ آسٹریلین لائیرز کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی آل رائونڈر کارکردگی سے کینگروز کو عالمی چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں،ان کا سوشل میڈیا پر پیغام موصول ہوا کہ قومی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر مجھ سمیت دنیا بھر میں تارکین وطن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

اپنوں سے دور جس ملک میں رہائش پذیر ہوں، اس کی آبادی تو ڈھائی کروڑ سے زیادہ نہیں لیکن وہاں کی کرکٹ سمیت دوسری سپورٹس میں عالمی کامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن افسوس پاکستان ٹیمیں جب انٹرنیشنل مقابلوں میں ذلت آمیز شکستوں کے بعد واپس لوٹتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ورلڈ کپ 1992 کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان کے نئے پاکستان میں ہماری ملکی سپورٹس ماضی کی اسی ناکامیوں، مایوسیوں اور تاریکیوں کے گھپ اندھیروں میں بھٹکتی رہ جائے، میں ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود تاریک وطن نئے پاکستان میں ملکی سپورٹس کو پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

رضا سعید ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر ذی شعور شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہماری کھیلوں کے میدانوں میں کارکردگی کو دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے،کھیلوں میں اولمپکس سب سے بڑا عالمی میلہ ہوتا ہے، قومیں چار سال تک اس مقابلے کی تیاریاںکرتی ہیں اور جب ان کے کھلاڑی سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے لے کر واپس لوٹتے ہیں تو پوری قوم ان کا استقبال کرتی ہے لیکن بدقستمی سے دوسرے شعبوں کی طرح پاکستان کھیلوں میں بھی بری طرح مار کھا رہا ہیں۔

پاکستان پہلی بار 1948ء میں اولمپکس میں شریک ہوا، اس وقت سے اب تک کے71 برس میں ہم مجموعی طور پر صرف10 میڈلز ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے، ان تمغوں میں بھی 8 ہاکی سے حاصل ہوئے جن میں سونے اور چاندی کے3، 3 اور کانسی کے2 میڈلز شامل ہیں۔ان کے علاوہ ہم نے دو میڈلز ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے، افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ  1992ء سے لے کر اب تک ہم اولمپک مقابلوں میں ایک بھی میڈل حاصل نہیں کر سکے، جبکہ ہمارے مقابلے میں امریکا اولمپکس مقابلوں کی تاریخ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ2827 میڈلز حاصل کر چکا ہے۔

سوویت یونین1204تمغوں کے ساتھ دوسری پوزیشن پر ہے، برطانیہ880، فرانس840، جرمنی 855، اٹلی 701 اور سویڈن 652کے ساتھ نمایاں ہے۔چلو مان لیتے ہیں کہ یہ بڑے ملک ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا لیکن آپ تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیں، یہ ممالک بھی ہم سے کہیں آگے ہیں، ریواولمپک 2016 میں207 ممالک کے کھلاڑی شریک ہوئے، دنیا کے11544 ایتھلیٹس ان مقابلوں میں شریک ہوئے۔ان ممالک میں پاکستان کے کھلاڑی بھی ایکشن میں دکھائی دیئے لیکن ایک بار پھر ہمارے پلیئرز کا نام بدترین ٹیموں میں آیا اورقومی دستے کو خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔اولمپکس تو بڑی گیمز ہیں، ہم تو کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز حتیٰ کہ ساف گیمز میں بھی حریف ٹیموں سے بری طرح مار کھا رہے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے، ہماری پارلیمینٹ ملک کو اچھی جمہوری روایات نہیں دے سکی لیکن ہم سپورٹس میں تو اپنی صلاحیتیں ثابت کر سکتے ہیں، ہمیں اس سے کس نے روکا ہے ، ہم اگر اولمپکس میں شامل ممالک کو دیکھیں اور خود سے سوال کریں کیا ایران، قازقستان، منگولیا، نائیجریا، ازبکستان، یوگوسلاویہ اور کینیا ہم سے بہتر ممالک ہیں تو ہمارا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ان ممالک کی معیشت، ان کی صنعت اور ان کی سوسائٹی میں ہم سے زیادہ خرابیاں ہیں لیکن یہ ممالک ان خرابیوں کے باوجود کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔

آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ملکی کھیلوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں تو جواب صاف اور سیدھا سادھا یہ ہے کہ ہمیشہ سے ملک بھر کی کھیلوں کی فیڈریشنز پر ایسے افراد کا قبضہ رہا ہے جن کا سرے سے سپورٹس سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ان عہدیداروں کو کھیلوں میں کم باہر کے دوروں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جو ایک سے زیادہ کھیلوں کی تنظیموں کی سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھیں ہیں، وہ سپورٹس کو ترقی دینے کے نام پر لاکھوں اور کروڑوں روپے کے گھپلوں میں ملوث نظر آتی ہیں اور جب قومی ٹیمیں عالمی مقابلوں میں ناکامی اور مایوسی کی ایک نئی داستان رقم کرنے کے بعد وطن واپس آتی ہیں تویہ عیار اور چالاک عہدیدار انفراسٹرکچر اور فنڈز کی کمی کا رونا رو کر اپنا دامن صاف بچا لیتے ہیں۔

کھیلوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ کھیلوں کی ملکی تنظیموں اور فیڈریشنوں میں سیاسی تقرریاں ہیں، بااثر شخصیات اپنا حکومتی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے سپورٹس میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہی دیکھ لیں، نجم سیٹھی وزیر اعظم نواز شریف سے قریبی تعلق ہی کی بنا پر بورڈ کے اہم عہدے پر فائز ہوئے، بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کوسابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے سمدھی ہونے کی بنا پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کے اہم عہدے سے نوازا گیا، موصوف پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں ایم ڈی کے عہدے پر بھی فائز ہیں، اس کے باوجود ان کو دوہرے عہدے سے نوازا جانا سمجھ سے بالاتر تھا۔

بریگیڈیئر(ر) صاحب نے مسلم لیگ ن کے راہنما سے قربت کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور پی ایچ ایف کے نام پر50 کروڑ کے قریب فنڈز حاصل کئے، آج قومی کھیل کی تباہی و بربادی کا یہ عالم ہے کہ حال ہی میں ہالینڈ میں ختم ہونے والی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران ہماری پاکستانی ٹیم آخری پوزیشن پر آتی ہے لیکن فیڈریشن عہدیدار کس ڈھٹائی کے ساتھ اس پرفارمنس کو بھی تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح سیاسی بنیادوں پر کھیلوں میں اہم اور پرکشش عہدے لینے والے کی فہرست خاصی طویل ہے۔

راقم نے ’’ایکسپریس‘‘ میں ہی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش کی تھی کہ ملکی کھیلوں کے اعلیٰ عہدوں پر زیادہ تر  بیوروکریٹس، سیاستدانوں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ ہے، ان شخصیات کو اپنے کام سے اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ کھیلوں پر بھر پور توجہ دے سکیں تاہم جب انٹرنیشنل ایونٹس کے نام پر دنیا بھر میں سیر سپاٹوں کی بات آتی ہے تو یہی افراد سب سے آگے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور تمام صوبائی اولمپک ایسوسی ایشنز پر بھی سالہا سال سے ایسی لوگوں کا قبضہ ہے جن کے طویل اقتدار کی وجہ سے ملکی کھیلیں تو زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔اب ایک بار پھر ملکی بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکر میں ہے اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے کا خواہشمند ہے،انہیں کھیلوں کی شخصیات کی جانب سے اپنے پیغامات میں پی ٹی آئی کو مبارکباد دی جا رہی ہیں، بعض تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں سے ملاقاتیں کرنے کیلیے بھی پر تول رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنتی دیکھ کر پاکستانی قوم کو امید کی کرن نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہ عمران خان ناکام خارجہ پالیسی، سسکتی اور دم توڑتی ہوتی معیشت اورپانی کے مسائل کے حل کے ساتھ ملکی کھیلوں کے سفر کو بھی زوال سے عروج کی جانب لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے، عمراں خان کی نیت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے، یقینی طور پر ان کے آنے سے بہت سے معاملات درست ہوں گے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان اچھے اور برے ساتھیوں میں تمیز کر کے نئے عزم، نئی ہمت اور نئے ارادے کے ساتھ اٹھیں، سیاسی بنیادوں پر کھیلوں کی تنظیموں پر عہدیداروں کو  لگانے کی پریکٹس کا خاتمہ کریں، صرف اور صرف میرٹ کو یقینی بنائیں، شکست کو سر پر سوار نہ ہونے دیں بلکہ اسے پیروں تلے کچل دیں، پھر وہ خود دیکھیں گے کہ کل تک جو زمین بنجر تھی، وہاں لہلہاتے کھیت ہوں گے، جو گرائونڈز سنسان، بیابان اور ویران ہیں وہاں کھیلوں کے عالمی میلے سجے گے اور پاکستانی کھلاڑی عالمی مقابلوں میں میٖڈلز کے ساتھ وطن لوٹ رہے ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔