دولت کا نشہ

نسیم انجم  پير 13 مئ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

قتل کے واقعات کے نتیجے میں جو صورتحال نظر آرہی ہے اس کے مطابق مقتول کے والدین عدالتوں کے چکر کاٹتے نہیں تھکتے کہ ان کے دل کے ٹکڑے کو دن دہاڑے بغیر کسی جرم کے محض دولت کے نشے میں مست ہوکر قتل کر ڈالا، ان کے گھروں کو موسم خزاں کے سپرد کردیا اور پورا گھرانہ باد سموم کی لپیٹ میں آگیا لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ حق دار کو انصاف نہیں ملتا ہے۔ گواہ آتے ہیں بیان دیتے ہیں، عدالت میں چشم دید گواہوں کو طلب کیا جاتا ہے لیکن مہینوں چکر کاٹنے کے بعد اپنے بیانات سے منحرف ہوجانا پڑتا ہے، اس کی وجہ قاتلوں کی طرف سے دباؤ، دھمکی اور پھر گواہوں کے اپنے مستقبل اور زندگی پر بار بار عدالت میں جانے سے گہرا اثر پڑتا ہے۔

چند ماہ قبل کا ہی واقعہ ہے شاہ رخ جتوئی اور شاہ زیب کا، دونوں ہی شاہ تھے، وقت کے شاہ، تعلیم یافتہ، صاحب ثروت، ضروریات زندگی کی سہولتوں سے آراستہ، لیکن ایک شاہ نے دولت کا سہارا لے کر ایک معمولی سی بات پر دوسرے شاہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا لمحہ بھر میں ہنستا کھیلتا گھرانہ برباد ہوگیا۔ شاہ رخ کے گھرانے کا سیاسی منظرنامہ سامنے ہے اور شاہ زیب کے والد ماجد بھی پولیس کے اہم عہدے پر فائز تھے، انھوں نے اپنے مقتول بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، فرار ہونے والا واپس بھی بلالیا گیا، لیکن آج تک مقدمے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

گواہوں نے بھی بیانات دینے سے انکار کردیا۔ جانے والا تو چلا گیا وہ بے چارے کب تک دوڑیں؟ ہمارے قانون میں ہی اس قدر سقم موجود ہے کہ بروقت فیصلہ ہو ہی نہیں پاتا اس طرح قاتل کو چھوٹ مل جاتی ہے اور ایک دن اسے آزاد کردیا جاتا ہے۔ اسی غیرمنصفانہ رویے نے دوسروں کے حوصلے بلند کردیے ہیں جس کی مثال ہمارے سامنے ہے شاہ رخ اور شاہ زیب کی، اس واقعے کو ابھی عوام فراموش نہ کرسکے تھے کہ دوسری کہانی نے جنم لے لیا یہ کہانی بھی آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں سے لبریز ہے۔ اس کہانی کے مرکزی کردار حمزہ اور شعیب ہیں۔ آپس میں دونوں دوست تھے۔ کسی لڑکی کے تنازعے پر آپس میں لڑائی جھگڑا ہوا اور گارڈ نے شعیب کے کہنے پر حمزہ پر فائرنگ کردی اور جس سے وہ موقعے پر ہی دم توڑ گیا۔

دونوں دوست اور اولیول کے طالب علم تھے، حمزہ تو اب اس دنیا میں نہیں ہے جب کہ شعیب پولیس کی حراست میں میڈیکل چیک اپ کے تجربات سے گزر رہا ہے اس کے پیپر شروع ہونے والے ہیں لیکن وہ ایک طالب علم سے مجرم بن چکا ہے۔ ادھر بھی دولت، پیسے کی کہانی اور طاقت کا گھمنڈ ہے، اسی تکبر نے ایک نوجوان کی جان لے لی جوکہ بے حد ذہین تھا، اس کے گھر میں جو کہرام برپا ہوا وہ الگ ہے اس کے دوستوں نے احتجاج کیا اور اختتام پر حمزہ کی تصویر کے سامنے شمعیں روشن کیں اور انھوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے پرزور اپیل کی ہے کہ حمزہ کے قتل کا نوٹس لیا جائے اور انصاف فراہم کیا جائے۔

حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ شعیب کی عمر پورے اٹھارہ سال بھی نہیں ہے اور حمزہ کی بھی تقریباً اتنی یا ایک دو سال آگے پیچھے ہوگی۔ اتنا غصہ کہ ذرا سی بات یا غلط فہمی کے تحت اپنے دوست کو مروا دیا اور خود تھانے کچہری کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینا معمولی بات ہرگز نہیں ہے جو لوگ محض دولت، تعلقات، سفارش کی بناء پر سنگین جرائم کرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن ضرور پکڑے جاتے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ پکڑے تو شعیب اور شاہ رخ جتوئی بھی گئے ہیں لیکن کب تک بچ سکیں گے؟ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ مظلوموں کی وہ ضرور سنتا ہے۔

اگر اس قسم کے مجرم بڑی سزا سے بچ جائیں تو مک مکا سے کام چلا لیا جائے تب بھی ذہنی طور پر وہ سکون ہرگز میسر نہیں آتا ہے اسی لیے والدین کو اتنی شہ اولاد کو ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ انسانی جانوں سے کھیل جائیں کہ انھیں بچانے والے بہت ہیں، اصل بچانے والا اوپر ہے وہ کب تک چھوٹ دیتا ہے یہ اس کی مصلحت ہے، اس کی مرضی ہے، اللہ کے عذاب اور سزا سے کوئی نہیں بچ پاتا ہے، والدین کی غفلت و لاپرواہی ان کی اولاد کو ملزم یا مجرم بنا دیتی ہے۔

اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بہت اچھی تربیت دیتے ہیں، ہر لمحہ خیال رکھتے ہیں، اچھا برا سمجھاتے ہیں، لیکن ہونی کو کون روکتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی برباد کردیتے ہیں۔ حمزہ اور شعیب کی کہانی ابھی منظر عام پر ہی تھی کہ تیسری کہانی سامنے آگئی، یہ کہانی بھی بڑی دردناک اور عبرتناک ہے اس کے کرداروں کے نام مزمل اور سہیل ہیں یہ ڈیفنس  جیسے پوش علاقے کے رہائشی نہیں ہیں بلکہ یہ لیاقت آباد کے مکین ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ دونوں بہت چھوٹے ہیں، ان کا شمار بچوں میں کیا جاتا ہے ان کی عمریں چودہ سال سے زیادہ نہیں ہیں۔ مزمل نے سہیل کو تاوان کی نیت سے اغواء کیا تھا اور لاکھوں کی رقم کا مطالبہ بھی بذریعہ فون کردیا تھا لیکن راز کھلنے کی وجہ سے اپنے دوست کو قتل کرکے لاش سیڑھیوں پر پھینک کر فرار ہوگیا لیکن جلد ہی گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہیں کچے ذہنوں کی کہانیاں۔ ملزم مزمل غربت کے باعث محرومی کا شکار تھا اور وہ موٹرسائیکل خریدنا چاہتا تھا تاکہ کرتب دکھاسکے اور دوستوں پر رعب ڈال سکے۔

موٹرسائیکل کا ذکر آگیا ہے تو اتنا کہتی چلوں کہ موٹرسائیکلوں کے چلانے، خریدنے پر ان نوجوانوں پر پابندی لگائی جائے جو کم عمر اور طالب علم ہیں، موٹرسائیکل وہ لوگ چلائیں جو سنجیدہ ہوں، اپنے دفاتر وکارخانوں کے لیے اس سواری کو استعمال کرتے ہوں۔ اس بات سے معاشرے کا ہر فرد واقف ہے کہ موٹرسائیکلوں کے ذریعے بڑی بڑی وارداتیں کی جاتی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے کام بھی آتی ہیں اور ٹریفک حادثات بھی ان ہی کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ موٹرسائیکل یا گاڑی چلانے کے لیے لازمی عمر 18 سال سے زیادہ ہونی چاہیے تاکہ یہ بچہ پارٹی اس سواری سے بچی رہے۔

اس ضمن میں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ٹریفک کانسٹیبل بھی اگر ایمانداری سے کام کریں تو لائسنس نہ ہونے کی صورت میں ہرگز دس بیس یا پچاس، سو روپے لے کر قوانین توڑنے والوں کو کھلی چھٹی نہ دے دیں۔ اس غلط طریقے نے ہی بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ بات بظاہر چھوٹی سی ہے لیکن اگر غوروفکر کریں تو بہت بڑی ہے کہ معمولی سی رشوت کی رقم حاصل کرکے دوسروں کو قتل کرنے، ڈاکہ ڈالنے، موبائل چھیننے اور چوری چکاری کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے کہ جا بیٹا! اب تو آزاد ہے، اگر رشوت ہی لینا ہے تو ہزار ، پانچ سو تو لیں، تو یہی رکاوٹ آجائے گی کہ موٹرسائیکل سواروں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی ہے۔ جاتے وقت جیبیں خالی اور آتے وقت بھری ہوتی ہیں۔ لہٰذا رشوت کے خاتمے کی بھی ازحد ضرورت ہے۔

بے چارہ سہیل اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، قرآن بھی حفظ کررہا تھا۔ اس کی اچانک موت نے ماں باپ کو زندہ درگور کردیا ہے کہ جانے والے تو چلے جاتے ہیں اور لواحقین ان کے غم میں زندگی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں معاشرے کے سدھار کی تراکیب آزمانے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ تخریب کار الگ ماریں گے اور نوجوان آپس میں ایک دوسرے کا گلا الگ کاٹیں گے اس دہری مصیبت اور غم سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا لازم  ہوچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔