عمران کے دور میں کاروبار معیشت

کامران عزیز  پير 30 جولائی 2018

مارکیٹس آؤٹ لک سے سمت کا تعین کرتی ہیں، پالیسوں کا نمبر بعد میں آتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران کے جیتنے سے اسٹاک مارکیٹ چڑھ گئی، حالانکہ ایسا نہیں ہے، سیاسی اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے سے دھول بیٹھ گئی، قریب کا منظرنامہ واضح ہوگیا، دلوں کی دھڑکنوں میں ذرا ٹھہراؤ آیا، گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں اب نہیں آرہیں، آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کا شور و غوغا بھی کہیں سنائی نہیں دیتا، گویا ایک طوفان بدتمیزی تھا تھم گیا۔

اس سکون وخاموشی سے سرمایہ کار کے دل کو طمانیت محسوس ہوتی ہے، وہ لگ کر کاروبار کرنا چاہتا ہے، ہمواریت کاروبار کی جان ہے، اسٹاک مارکیٹ اسی بے یقینی کے جانے سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی۔ عمران کا پہلا خطاب ایک پلس پوائنٹ ہے، وہ ایک عالمی سطح کی قدآور شخصیت ہے جو پرچی کے بغیر ٹرمپ سے بھی بات کرسکتا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مودی کو بھی پیغام دے سکتا ہے، وہ بولنا جانتا ہے، اس کا ایک ویژن ہے، وہ برسوں سے کرپشن کے خاتمے کی رٹ لگائے بیٹھا ہے، وہ مقصد لے کر آیا ہے، وہ سیاسی محاذ آرائی چاہتا ہے نہ سرحدوں پر کشیدگی، وہ تنازعات نمٹانے کے لیے بات چیت کا سگنل دے چکا، وہ سابق حکمرانوں کے برعکس حلقے کھلوانے کی بات مطالبے سے پہلے مان چکا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن‘۔

عمران نے سیاسی انتقامی کارروائیوں، جمہوریت کے مطابق اپوزیشن کے جائز مطالبات تسلیم کرنے اور عالمی امور کو بات چیت سے چلانے کا سگنل دے کر محاذآرائی کے بجائے ہموار طریقے سے حکومت چلانے کا پیغام دے کر استحکام کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔ عمران کے دورے کا آؤٹ لک مثبت ہے، مارکیٹس کو استحکام کا اشارہ مل چکا، فاؤل پلے نظر نہیں آتا، کہیں گھن گرج نہیں، کسی ادارے پر چڑھائی نہیں کی گئی، کسی کو برا بھلا نہیں کہا گیا، کاروبار کے لیے نئے پاکستان کا آغاز بہت اچھا ہے، حقیقت میں پاکستانیوں کی راتوں رات کایا پلٹ گئی ہے، کیونکہ امید سب سے بڑی طاقت ہے، یہ امید شہریوں کے لیے اچھے کی خوشخبری ہے۔

خیبرپختونخوا میں نئی تاریخ رقم ہوئی، کوئی سیاسی جماعت دوسری بار حکومت کے لیے چن لی گئی، وہ بھی دو تہائی اکثریت سے، لوگ کہتے ہیں کمال ہوگیا، ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ ووٹر نے آلودہ سیاسی تجزیوں اور انتقامی نعروں کے بجائے زمین پر کیے گئے اقدامات کو ووٹ دیا، انھیں گزشتہ 5 سال میں سہولت ملی، پولیس ٹھیک ہو گئی، صوبے میں ادارے مضبوط بنائے گئے، تعلیم و صحت کے نظام میں بہتری آئی، پولیس، تعلیم اورصحت ایسے شعبے میں جن سے لوگوں کو پل پل پر واسطہ پڑتا ہے، پاکستان میں تعلیم اور صحت کے بلوں نے لوگوں کی کمر ٹیڑھی کردی ہے، سندھ اور پنجاب میں جائیے، لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بٹھانے کے لیے تیار نہیں، سرکاری اسپتال تو عذاب کا دوسرا روپ ہیں، نجی اداروں میں لوگوں کی کھال کھینچ لی جاتی ہے، نجی اسکولوں کی فیسیں ہزاروں روپے ہیں، اسپتالوں میں مریض کو داخلے سے پہلے ہزاروں روپے کا تقاضا کیا جاتا ہے، غریب کہاں اپنے بچوں کو پڑھائے اور کہاں علاج کرائے۔

خیبرپختونخوا میں ان شعبوں میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں وطن عزیز کے بڑے شہر کے ایک علاقے سے گزر ہوا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک شخص شور مچا رہا تھا کہ میرے پیسے چھین کر بھاگ رہے ہیں، آگے دیکھا تو ایک موٹر سائیکل پر دو پولیس والے تیزی سے جارہے تھے اور انھوں نے ایسے موٹرسائیکل بھگائی جیسے لٹیرے ڈاکا ڈال کر بھاگتے ہیں، میں دیکھتا رہ گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، محافظ اگر لٹیرے بن جائیں تو پھر ملک کا کیا حال ہوگا۔

اگرچہ پولیس صوبائی معاملہ ہے مگر وفاق میں اچھی حکومت کے آنے سے اس کا اثر سب جگہ پر ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کو خودمختاری کے ساتھ خوداحتسابی نے لوگوں کو اس ادارے کی تعریف پر مجبور کردیا جس سے دیگر صوبوں میں لوگ دور بھاگتے ہیں۔ کے پی کے میں گورننس کافی بہتر ہوئی، اس کا سب سے زیادہ تجربہ وہاں کے لوگوں کو ہے، اسی لیے انھوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اور عمران پر ایک بار پھر پہلے سے زیادہ اعتماد کیا۔

مرکز میں عمران کے آنے سے ملک کے اندر اور باہر حکومت کاآؤٹ لک مثبت ہو گیا ہے، پالیسیاں ابھی آنا باقی ہیں مگر وہ پہلے ہی ایک اہل اور کامیاب مالیاتی ماہر کو وزارت خزانہ کے لیے نامزد کر چکا ہے، اسد عمر جب سیاست میں آئے تو ایک چھوٹی کمپنی کو پھیلا کر گروپ کی شکل دینے کے بعد اس کے سب سے بڑے افسر کے طور پر چھوڑ کر آئے تھے، ان کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے، اگرچہ ابھی حکومت سازی میں کچھ وقت لگے گا اور وزرا کے قلمدانوں کا اعلان ہونا باقی ہے مگر اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ سے تیز معاشی ترقی کی امیدیں بندھ جائیں گی، بیرونی تجارت، ایکسٹرنل اکاؤنٹ اور زرمبادلہ ذخائر کے بحران کو امید ہے کہ چند ماہ کے اندر کنٹرول کر لیا جائے گا، عمران کی کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے اور حکمرانی کے ایوانوں کو عوامی خدمت کے لیے استعمال کرنے کا عزم ظاہر کرنے سے حکومتی فنانسز بھی کنٹرول میں رہنے کا امکان ہے، یعنی بجٹ خسارے پر قابو میں رکھنے جانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

پاکستانی معیشت کے دو ہی بڑے مسئلے ہیں، ایک آمدنی سے زیادہ اخراجات کے نتیجے میں بڑا بجٹ خسارہ اور دوسرا برآمدات سکڑنے کے باوجود بے لگام درآمدات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور ادائیگیوں کا بحران۔ ان دونوں قوی الجثہ مسائل کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہوگیا، کبھی حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے دھڑادھڑ نوٹ چھاپ رہی تھی تو کبھی بیرونی اداروں، مارکیٹس اور حکومتوں سے قرضے لے رہی تھی، مقامی بینک بھی صرف حکومتی پیپرز میں پیسہ لگا رہے تھے، کاروبار کو دینے کے لیے انھیں ترغیب ہی نہیں تھی، ظاہر ہے کاروبار کی ترقی کا ماحول کیسے بنتا، حکومتی قرضوں میں ہی اضافہ ہونا تھا، اس لیے آج پاکستان قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔

عمران نے انتخابات جیتنے کے ساتھ حکومت بنانے سے قبل جو اشارہ دیا ہے اس کی پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ ضرورت تھی، عمران کے پاس اچھے لوگ ہیں، اسد عمر اچھی ٹیم بنا سکتے ہیں، حکومتی خزانے حقیقی آمدن سے بھرنے کے لیے وسیع ترمالی اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص طور پرٹیکسوں کے شعبے میں کرنے کے لیے بہت کام پڑا ہے، حکومتی آمدنی کو ٹیکسوں کو معیشت کے تمام شعبوں تک وسیع کرنے سے بہت فائدہ ہوگا، چونکہ عمران کسی زنگ آلود سیاسی خانوادے کا شہزادہ نہیں اور اس کے ہاتھ کرپشن سے آلودہ بھی نہیں اور اس کے کوئی سیاسی عزائم بھی نہیں، اس لیے اب کی بار زرعی آمدن کو ضرور ٹیکس نیٹ میں لے آیا جائے گا، اسی طرح ریئل اسٹیٹ، ٹریڈنگ سیکٹر کو بھی جائز ٹیکس دینے پر آمادہ کرلیا جائے گا پھر پاکستان کو کسی ایمنسٹی اسکیم کی ضرورت بھی نہیں رہے گی.

کاروبار کے سب سے بڑے مسئلے یعنی پیداواری لاگت سے نمٹنے پر بھی توجہ دی جائے گی، توانائی بحران کے لیے اگرچہ سابق حکومت نے کچھ کام کیا تھا مگر وسیع تر بنیادوں پر اس مسئلے نمٹا جائے گا، انفرااسٹرکچر مسائل بھی اہم ہیں، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ صنعتی شعبے کے لیے آگے آسانیاں آ رہی ہیں، جس سے ایکسپورٹ کو حقیقی بنیادوں پر فروغ ملے گا، اس طرح بجٹ خسارے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر بھی قابو پایا جاسکے گا، عمران کی اننگ کا آغاز شاندار ہے امید ہے کہ وہ باہر نکلتی گیندوں کا پیچھا کرنے اور غیرضروری شارٹس کھیلنے کے بجائے جم کر بیٹنگ کرے گا اور اس میچ میں بھی فتح کے ساتھ قوم کو ناامید نہیں کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔