تبدیلی کا راستہ

سعید پرویز  پير 30 جولائی 2018

الیکشن 2018ء ہوں گے، یا نہیں ہوں گے؟ انھی تانوں بانوں میں 25 جولائی 2018ء کے دن الیکشن ہو گئے۔ جتنے تجزیے تھے، تقریباً سب غلط ثابت ہو گئے۔ پاکستان کے عوام نے بہت بڑے فیصلے کر ڈالے۔ یہ الیکشن اور یہ نتائج 2023ء کے الیکشن کا خلاصہ ہے، جسے ٹریلر کہا جاتا ہے۔ دیکھ لیں، اس الیکشن 2018ء میں کیا کچھ ہو گیا، ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، مگر یہ سب ہو گیا، لیاری سے بلاول بھٹو زرداری ہار گیا، لیاری سے علاقے ہی کا رہائشی شکور شاد جیت گیا۔ شکور شاد فٹ بال کے کوچ ہیں اور لیاری کے نوجوانوں میں بڑے مقبول ہیں۔ دوسرا بڑا انقلاب یہ آیا کہ کراچی سے ایم کیو ایم بری طرح ہار گئی اور پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی کئی نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح PTI کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کراچی سے جیت گئے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف ہار گئے۔ ادھر پنجاب میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دو نشستوں پر ہار گئے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اسفند یار ولی، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن ہار گئے۔

الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے مختصر تقریر کی، پاکستان ہی نہیں پوری دنیا نے اس مختصر مگر اہم تقریر کی تعریف کی۔ اس تقریر میں عمران خان نے کہا ’’میری ذات پر سب سے زیادہ حملے کیے گئے، میں وہ سب بھول جانا چاہتا ہوں۔ میں یا میری جماعت اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات نہیں بنائے گی، ہم انتقام کو بھی بھول جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمیں بہت اہم کام کرنا ہے۔ ہماری ساری توجہ اسی طرف ہو گی، ہم نے غریب طبقے کو اٹھا کر اوپر لانا ہے، ہم نے ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکولوں میں لانا ہے۔ اس بڑے کام پر ہی ہم نے دھیان رکھنا ہے، اور احتساب کو اور مضبوط کرنا ہے۔ سب سے پہلے میرا احتساب، پھر میرے وزرا کا اور اسی طرح نیچے تک یہ سلسلہ چلے گا۔ ہم نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو مزید مضبوط کریں گے۔ ان کا اختیار ہر جگہ آزادانہ چلے گا اور پاکستانیوں کے ٹیکس کی حفاظت میں خود کروں گا۔ عمران خان کو شرم آئے گی کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کے محل میں رہے لہٰذا میری حکومت وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، اور وزیراعلیٰ ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دے گی۔ یہ تمام جگہیں یونیورسٹیاں بن جائیں گی۔ ایک غریب ملک کے وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اور اس کے گورنر، وزرائے اعلیٰ محلوں میں رہیں۔ ہم سادگی کو فروغ دیں گے۔‘‘

تقریریں تو ہم نے پہلے بھی بہت سنی ہیں۔ 70 سال تقریریں سننے میں ہی گزر گئے۔ جو آیا اس نے تقریر جھاڑنا شروع کر دی، مگر غریبوں کے حالات نہیں بدلے۔ جالبؔ نے کہا تھا:

سرسبز وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں

علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں

جو آیا اس نے تقریر کی، عوام کو سہانے خواب دکھائے اور لوٹ مار کر کے چلتا بنا، مگر اب یہ 2018ء ہے اور عوام نے سرعام وڈیروں، جاگیرداروں کو سوالات کی زد میں لیے رکھا اور اسی کا نتیجہ الیکشن 2018ء کی صورت نکلا ہے۔ اب بھی جہاں جہاں اندھیرا رہ گیا ہے، 2023ء میں وہ اندھیرے بھی چھٹ جائیں گے۔

عمران خان کے لیے ایسی ہی پہلی تقریر ہونا رہ گئی تھی، کیونکہ اس نے ’’تبدیلی‘‘ ہی کے ذکر میں پانچ سال گزارے تھے اور عوام نے اسے تبدیلی کے نام پر ہی ووٹ دیے ہیں۔ اب عمران کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بس جس راستے کا انتخاب عمران نے کر لیا ہے اس کو اس کے ساتھیوں کو اسی راستے پر ہی چلنا ہو گا ’’تبدیلی کا راستہ‘‘۔ بہرحال ’’ہماری‘‘ منزل ابھی اور آگے ہے۔ ’’ہماری‘‘ سے مراد ہم وہ لوگ جنھیں اس جگہ پہنچنا ہے۔ جہاں ’’سرِ محنت کشاں پر تاج ہوگا/ کسی کو رہزنوں کا ڈر نہ ہو گا/ بنے گی رشکِ جنت یہ زمینیں/ نہ چوسیں گی ہمارا خون مشینیں‘‘۔

عمران خان! تم قدم بڑھاؤ اور وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز اور وزیراعلیٰ ہاؤسز کا خاتمہ کر کے یہاں یونیورسٹیاں بنا دو، میڈیکل کالج بنا دو، انجینئرنگ، ڈپلومہ کورسز کے ادارے بنا دو، یہ بھی ’’ہم انقلابیوں‘‘ ہی کے پروگرام کا حصہ ہے۔

اور یاد رکھنا! ہمیشہ دھیان میں رکھنا! ہم بڑے بڑے برج الٹتے آئے ہیں اور اب اقبالؔ کا ’’سلطانی جمہور‘‘ کا زمانہ شروع ہو چکا ہے۔ فیضؔ جو دیکھنے کا خواہش مند تھا، وہ ’’ہم دیکھیں گے‘‘ اور جالبؔ کے بول حقیقت کا روپ دھاریں گے:

ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں

چمک اٹھیں وفا کی راہیں

ہزار ظالم سہی اندھیرا

سحر بھی لیکن قریب تر ہے

قریب تر ہے

قریب تر ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔