نواز شریف کا برسراقتدار آنا بھارت کیلیے اچھی خبر ہے،مبصرین

بی بی سی  منگل 14 مئ 2013
منموہن سنگھ اقتدار چھوڑنے سے پہلے باہمی رشتوں کودوبارہ پٹری پر لانا چاہتے ہیں فوٹو: فائل

منموہن سنگھ اقتدار چھوڑنے سے پہلے باہمی رشتوں کودوبارہ پٹری پر لانا چاہتے ہیں فوٹو: فائل

نئی دہلی: جیسے ہی یہ واضح ہوا کہ میاں نواز شریف پاکستان کے نئے وزیر اعظم ہوں گے، منموہن سنگھ نے انھیں ہندوستان آنے کی دعوت دے دی۔ اس دعوت نامے سے تاثر ملتا ہے کہ بھارتی حکومت باہمی رشتوں کی بہتری کے لیے پھر بلا تاخیر ایک نئی شروعات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟

جنوری میں جب لائن آف کنٹرول پر کشیدگی عروج کو پہنچ رہی تھی اور یہ الزام لگایا گیا کہ پاکستانی فوجی ایک بھارتی جوان کا سر کاٹ کر لے گئے ہیں تو منموہن سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ ’ اب باہمی رشتے اس طرح جاری نہیں رہ سکتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تو جنوری سے اب تک کیا بدلا ہے؟ بظاہر تو کچھ نہیں۔ پاکستان میں ابھی صرف حکومت بدلنے کو ہے، پالیسی میں تبدیلی کے وعدے ہیں اور یہ وعدہ بھی کہ باہمی رشتوں کی ڈور انیس سو ننانوے میں لاہور اعلامیہ کے وقت جہاں سے ٹوٹی تھی، وہیں سے جوڑی جائے گی۔ بھارت میں بھی اب پارلیمانی انتخابات قریب ہیں اور وزیر اعظم منموہن سنگھ ممکنہ طور پر اپنے دورِ اقتدار کے آخری مراحل میں ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنے سے پہلے باہمی رشتوں کودوبارہ پٹڑی پر لانے کی ایک آخری کوشش کرنا چاہتے ہوں کیونکہ عام طور پر یہ ماناجاتا ہے کہ بھارتی حکومت میں وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ حکومت کی پالیسی میں اگر واقعی کوئی تبدیلی ہے تو وہ آئندہ چند دنوں میں واضح ہوجائیگی لیکن سابق سفارتکاروں اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگاروں میں یہ اس بات پر کم و بیش اتفاق نظر آتا ہے کہ نواز شریف کا برسراقتدار آنا بھارت کے لیے اچھی خبر ہے لیکن وہ باہمی رشتوں کو بہتر بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوں اس پر رائے تقسیم ہے۔ مبصرین کے مطابق بڑی حد تک اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ نواز شریف فوج کو عملی طور پر سویلین حکومت کے ماتحت لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان کے روزنامہ ہندو نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ انڈیا ضرور یہ امید کرے گا کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جائے۔

مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ نواز شریف ایک بزنس مین ہیں اور کاروبار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی کوشش ہوگی کہ باہمی تجارت کا فروغ تعلقات کی بہتری کا اہم عنصر رہے۔ یہی خواہش ٹائمز آف انڈیا نے اپنے صفحہ اول پر ظاہر کی ہے۔ اخبار نے ان پانچ اقدامات کی فہرست ترتیب دی ہے جن کی اس کے بقول انڈیا کو توقع ہے۔ان میں سر فہرست انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ، باہمی تجارت کو فروغ، پاکستان کی فوج پر زیادہ سویلین کنٹرول، بھارت کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں کی روک تھام اور پاکستان کے اندر مذہبی شدت پسندی پر قابو۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نوازشریف کی طرف سے بن بلائے دلی جانے کا پیغام کہاں تک پہنچتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے موڑ کئی مرتبہ آئے ہیں لیکن شاید منموہن سنگھ نے دعوت دینے میں اس لیے بھی دیر نہیں کی کہ کہیں اس پیغام کے ساتھ نواز شریف واقعی بن بلائے دلی نہ پہنچ جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔