کانٹوں کی سیج

شکیل فاروقی  منگل 31 جولائی 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

عالمی بینک کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق وطن عزیز پاکستان دنیا کے 216 غریب ملکوں کی فہرست میں 173 نمبر پر ہے جس کے زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ اب پاکستان کو قرضوں کے سود کی ادائی کے لیے بھی آئی ایم ایف کے در پر جانا پڑے گا۔ یہ وہی کشکول ہوگا جسے توڑنے کے بلند بانگ دعوے ہمارے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف عوام کے سامنے باربار کیا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب حالت اس قدر خراب ہوکر ملک چلانے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی مالیاتی اداروں کے آگے قرضوں کی جھولی پھیلانی پڑتی ہو تو پھر ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنی بے تحاشا دولت کہاں سے آگئی کہ جس کا حساب بھی نہ دیا جاسکے؟

کہاں سے آتی ہے دولت شکیل راتوں رات

سوال اہل شہر سے یہ کرکے دیکھتے ہیں

ملک سے باہر شریف خاندان کی جائیدادوں کی تفصیلات معلوم کرکے انسان حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس اتنی دولت آخر کہاں سے آگئی۔ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے جو کبھی کہا کرتی تھیں کہ بیرون ملک تو کجا اندرون ملک بھی میری کوئی جائیداد نہیں ہے، انھوں نے اب اپنی جائیداد کو الیکشن کمیشن کو پیش کیے گئے گوشواروں میں ظاہر کرکے اپنے سابقہ بیان کی نفی کردی ہے اور اپنے دعوے کو خود ہی جھٹلادیا ہے اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے ایک بڑے نامی گرامی بیورو کریٹ اور چیمہ بھی کرپشن کے سلسلے میں گزشتہ کئی مان سے نیب کے زیر حراست ہیں۔

دوسری جانب ملک کے ایک سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن میں اپنے جو گوشوارے جمع کرائے ہیں، ان میں کروڑوں روپے نقد اور اربوں روپے مالیت کی جائیداد ظاہر کی ہے جسے دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ان کے بیٹے بلاول اور ان کی بیٹیوں کے نام پر ظاہر کی گئی اربوں روپے مالیت کی جائیداد کی چشم کشا تفصیلات اس کے علاوہ ہیں۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے بعض دیگر امیدواروں کے ظاہر کردہ اثاثوں کی تفصیلات کی مالیت کو پڑھ کر ان کے امین اور صادق ہونے پر بھی سوال پیدا ہونے لگتا ہے کہ اربوں روپے مالیت کی جائیداد کو لاکھوں روپے کی بتاکر کس طرح آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔

انتخاب میں شریک امیدواروں کی اصل مالی حیثیت کیا ہے اور انھوں نے حکومت کو کتنا ٹیکس ادا کیا ہے، اس کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے اور ٹیکس چوری کرنے والوں سے سخت ترین باز پرس کی جانی چاہیے کیونکہ یہ لوٹی ہوئی دولت دراصل پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی ہے، نہ کہ مال غنیمت یا کسی کے باپ دادا کی جاگیر۔ الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے آصف علی زرداری اور ان کی اولاد نے اپنے ظاہر کردہ اثاثوں کے حوالے سے قومی خزانے میں کتنا ٹیکس جمع کرایا تھا، اس کی مکمل تفصیلات بھی ملک کے عوام کے سامنے ضرور پیش کی جانی چاہئیں تاکہ قوم کو اصلیت کا پتا چل سکے اور رہنماؤں کے اصل چہرے سامنے آسکیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کی جماعت کے دیگر سرکردہ رہنماؤں بقول علیم خان اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کی نامکمل تفصیلات اور ملک کے خزانے میں جمع کرائے گئے ٹیکس کے حوالے سے بھی قوم یہ سوال پوچھنے کی حق دار ہے کہ ان فل ٹائم سیاست دانوں کی شاہانہ زندگی کے اخراجات پورے کرنے ذرایع آمدن کیا ہیں۔

گوشوارے جمع کرانے کے نتیجے میں بعض سیاست دانوں کے اثاثے تو اربوں، کھربوں کی حدود بھی پار کر گئے لیکن انھوں نے ایک روپیہ بھی قومی خزانے میں ادا نہیں کیا۔ امید واثق ہے کہ احتساب کے متعلقہ ادارے اس صورتحال کا نوٹس ضرور لیںگے خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوا تو ان اداروں کی غیر جانبداری مشکوک ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

نگران وزیراعظم ناصر الملک کے ظاہر کردہ اثاثوں کے حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ موصوف بیرون ملک سنگاپور اور برطانیہ میں کروڑوں روپے مالیت کی املاک کے مالک ہیںجب کہ ان کے زیر ملکیت اسلام آباد میں تین پلاٹ،  ایک اپارٹمنٹ، سوات میں 245دکانیں، ایک فلور مل اور سی این جی اسٹیشنز میں شیئرز بھی ہیں اس کے علاوہ ان کا بینک بیلنس دس کروڑ روپے ہے چیف جسٹس کی حیثیت سے یہ اثاثے ان کی تنخواہ کے مطابق ہی ہونے چاہئیں۔

ماشا اﷲ پاکستان کے حکمران خوب کھاتے پیتے اور مالا مال ہیں جب کہ اس کے برعکس دن رات روزی کمانے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کردینے والے عوام مفلوک الحال اور کنگال ہیں۔ بے چارے عوام کی غالب اکثریت کی حالت اتنی پتلی ہے کہ ان بے چاروں کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور بہت سے تو فاقہ مستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان سے روٹی، کپڑا اور مکان کے پر فریب وعدے تو کیے جاتے ہیں لیکن عام انتخابات کے بعد کوئی بھی ان کی پلٹ کر خبر نہیں لیتا۔ ان بے چاروں کی اولادوں کو بھی ورثے میں در در کی ٹھوکروں اور غلامی کے سوا کچھ میسر نہیں آتا۔ ان کے بچوں کو مناسب علوم تو درکنار پابندی سے دو وقت کی روٹی بھی کھانے کو نہیں ملتی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی نشوونما بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ انھیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔:

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

پاکستان کی کرنسی کی کارکردگی رواں سال کے عرصے میں انتہائی ناگفتہ بہ رہی حتیٰ کہ یہ افغانستان کی کرنسی سے بھی نیچے آگئی۔ پاکستانی روپیہ وینٹی لیٹر پر اور امریکی ڈالرایسکے لیٹر پر چلا گیا۔ بلند در آمدات ایک ریکارڈ ہے۔ اس خسارے کے باعث حکومت کو بیرونی قرضے لینے پڑے اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ در آمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ہر ممکن طریقے سے برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اس کے لیے لازمی ہے کہ ملک کے توانائی کے شعبے کو مستحکم اور مضبوط تر کیا جائے جس کے لیے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ناگزیر ہوگا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی حکومت اس وقت 24 کھرب روپے کی مقروض ہے جس میں بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے قرضے شامل ہیں۔ ملک و قوم پر واجب بیرونی قرضوں کی مالیت 90 ارب ڈالر سے زیادہ ہے گویا پاکستان کے ہر شہری کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔

2014 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو ملک اس وقت 14 کھرب روپے کا مقروض تھا۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے مزید آٹھ کھرب روپے کے قرضے چڑھادیے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں قرضوں پر قرضے لیتی رہی جس کا سارا بوجھ اب پوری قوم کے ناتواں کندھوں پر آن  پڑا ہے جس کی کمر روز افزوں گرانی اور بے روزگاری نے پہلے ہی سے توڑ رکھی ہے۔

اس وقت پاکستان کے وفاقی بجٹ کا آدھے سے زائد حصہ ملکی دفاع اور قرضوں کی ادائی پر خرچ ہورہاہے ایسے حالات میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مطلوبہ فنڈز کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئی حکومت کو کتنے سنگین چیلنجز درپیش ہوںگے اور مسند اقتدار اس کے لیے پھولوں کے بجائے کانٹوں کی سیج ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔