اقبال اور قرآن

رفیع الزمان زبیری  منگل 31 جولائی 2018

’’اقبال اور قرآن‘‘ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی تصنیف ہے۔ کتاب کا موضوع اس کے عنوان سے ظاہر ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں حمید جالندھری، ڈاکٹر صاحب کے کلاس فیلو تھے، دوست سے زیادہ بھائی تھے۔ ان کی رفاقت سے ڈاکٹر صاحب کو علامہ اقبال سے شغف پیدا ہوا۔ چنانچہ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرکے ناگپور یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ بنے تو انھوں نے میٹرک سے لے کر ایم اے تک ہر کلاس میں علامہ اقبال کے کلام کو نصاب کا حصہ بنا دیا۔ یہی سعادت انھیں کراچی میں اور بعد میں سندھ یونیورسٹی میں بھی حاصل رہی۔ اقبال اور کلام اقبال سے اس گہری وابستگی کا ایک ثمر ان کی یہ کتاب ’’اقبال اور قرآن‘‘ ہے۔

اس کتاب میں قرآن سے متعلق علامہ اقبال کے خیالات و نظریات اور واقعات درج کیے گئے ہیں اور اس کے بعد علامہ کے ہر مجموعہ کلام کے قرآنی مضامین کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ’’عشق رسولؐ اور قرآن مجید ہی سے علامہ اقبال کے شخصی عناصر (Personal Elements) کی تعمیر ہوئی ہے۔ قرآن کے بارے میں ان کے تاثرات ان کے اس شعر سے ظاہر ہوتے ہیں۔

گر تومی خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جب میں ایف اے پڑھتا تھا تو صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ والد صاحب مسجد سے نماز پڑھ کر آتے تو مجھے قرآن کی تلاوت کرتے دیکھتے۔ ایک دن مجھ سے فرمانے لگے ’’دیکھو بیٹے، جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمہارے قلب پر اسی طرح اترتا ہے جیسے رسول اﷲؐ کے قلب اقدس پر نازل ہوا تھا تلاوت کا مزا نہیں۔‘‘

ڈاکٹر غلام مصطفی علامہ اقبال کے قرآن مجید کے شغف کے بارے میں مرزا جلال الدین بیرسٹر کے بیان کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’مطالب قرآنی پر ان کی نظر ہمیشہ رہتی، کلام پاک کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران جب بہ آواز بلند پڑھتے تو آیات قرآنی پر غور کرتے اور ان سے متاثر ہوکر رو پڑتے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز میں ایک خاص کشش تھی۔ جب وہ قرآن پاک بہ آواز بلند پڑھتے تو سننے والوں کا دل پگھل جاتا۔‘‘

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے قرآنی شغف کے واقعات بہت سبق آموز ہیں اور ان کا دل کڑھتا تھا کہ قوم نے اس نعمت سے صحیح فائدہ حاصل نہیں کیا۔ ایک مرتبہ انھوں نے یوسف سلیم چشتی کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم کو اس زاویہ نگاہ سے پڑھوکہ اﷲ تعالیٰ سے میرا کیا رشتہ ہے اور کائنات میں میرا کیا مقام ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ وہ انسان میں خدا سے ربط قلبی پیدا کردے تاکہ انسان اس ربط کی بدولت مشیت ایزدی سے ہم آہنگی پیدا کرسکے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے قرآن مجید سے علامہ اقبال کے گہرے شغف کا ذکر کرنے کے بعد اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں علامہ کے ہر مجموعہ کلام کے قرآنی مضامین کو جمع کیا ہے اور ان کے اشعار کے ساتھ قرآن کی آیات اور ان کا ترجمہ بھی دیا ہے۔ مثوی ’’اسرار خودی‘‘ کی قرآنی تلمیحات کی نشان دہی تو خود علامہ اقبال نے حاشیوں میں کردی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری آیات لکھی ہیں اور قرآنی مضامین کے حوالے بھی پیش کیے ہیں۔ جیسے اسرار خودی کا یہ شعر:

علم و فن از پیش خزانِ حیات

علم و فن از خانہ زادانِ حیات

قرآن میں حصول علم کے لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے: ’’ربِ زدنی علما (سورۂ طٰہ114)

’’رموز ِ بے خودی‘‘ میں یہ شعر:

اے ترا حق خاتم اقوام کرد

پر تو ہر آغاز را انجام کرد

سورۃ الاحزاب میں ہے کہ حضورؐ سب نبیوں پر مہر ہیں گویا آخری نبی ہیں اور اس طرح آپؐ کی امت بھی آخری ہے۔

’’پیام مشرق‘‘ میں فرمایا:

گفت حکمت را خدا خیر کثیر

ہر کجا اے خیر را بین بگیر

سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’وہ دیتا ہے حکمت جس کو چاہے اور جس کو حکمت ملی خیر کثیر ملی‘‘ اقبال کہتے ہیں، حکمت جہاں سے ملے حاصل کرو کہ یہ رب کی دین ہے۔

در دشتِ جنوںِ من جبریل زبوں صیدے

یزداں بہ کمند آور اے ہمتِ مردانہ

سورۃ النجم کی آیت 9 حضورؐ نے انسانی رفعت کی انتہا اپنی معراج میں بتادی کہ اﷲ سے کس قدر قریب ہوا جاسکتا ہے۔

’’زبور عجم‘‘ میں یہ شعر:

دورِ سینۂ ماسوزِ آرزو زکجاست

سبوزماست، ولے بادہ درسبوز کجاست

قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت 165 کی ترجمانی کرتا ہے۔

’’بال جبریل‘‘ میں علامہ اقبال کا یہ شعر:

میرے نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

(سورہ کہف کی آیت 38) ’’ھواﷲ ربی والا اشرک بربی احدا‘‘ کی ترجمانی کرتا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ’’اﷲ کو اﷲ کی خاطر چاہنے والا جب اس کے حریم میں پہنچتا ہے تو ایک شور اٹھتا ہے کہ کیا کوئی ایسا بھی چاہنے والا ہے جو صفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ذات کی وجہ سے مجھے چاہتا ہے؟ اور عالم صفات میں بھی ہلچل مچ جاتی ہے کہ صفات کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ چاہنے والا سیدھا حریم ذات میں پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک خاص الخاص موحد کی شان ہے۔‘‘

محمدؐ بھی تیرا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا

غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں کہ یہاں ’’حرف شیریں‘‘غالباً اقبال نے اپنے ہی کلام کے متعلق کہا ہے جو قرآن کی ترجمانی کرتا ہے اور جس کے متعلق ’’رموزے خودی‘‘ میں انھوں نے رحمۃ اللعالمینؐ کے حصور عرض حال کیا ہے۔ زبور عجم کا یہ شعر:

عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

قرآن کے اس ارشاد کی ترجمانی کرتا ہے کہ صحیح ایمان حاصل ہو تو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب قبضۂ قدرت میں آسکتا ہے۔ (سورۃ الجاثیہ)

خودی سے اس طلسم رنگ وبو کو توڑ سکتے ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا، نہ میں

ڈاکٹر علامہ مصطفی لکھتے ہیں کہ خودی تعین ذات یا عرفان نفس ہے، یہ ہر چیز کی اندرونی ماہیت کا نام ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور راہ عمل طے کرے۔ خودی دنیا کے ہر ذرے میں موجود ہے اور کائنات میں تمام تغیرات اور حرکات اسی فطرت کے مظاہر ہیں۔ (قرآن کی سورۃ المائدہ105)

ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

یعنی قول و فعل میں یکسانیت ایک مسلمان کا شیوہ ہے (سورۃ آیت 3) ’’سخت ناپسندیدہ ہے اﷲ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو‘‘ارشاد قرآنی کی تفسیر ہے

’’ضرب کلیم‘‘ میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

ڈاکٹر غلام مصطفی خان لکھتے ہیں کہ جب مومن اﷲ اکبر کہہ کر اﷲ کی کبریائی کا اعلان کرتا ہے تو تمام غیر اﷲ کا وجود لرزجاتا ہے کہ اب ایسا مومن آگیا جو ہم کو خاطر میں نہ لائے گا۔ اﷲ کے قرآن سے پہاڑ بھی لرزجاتے ہیں تو اﷲ کے سامنے کائنات کیوں نہ لرزے گی، (سورۃ الحشر 21)

’’ضرب کلیم‘‘ میں علامہ کا ایک شعر سورۃ الکہف کی آیات 2 اور 3 کی ترجمانی کرتا ہے فرماتے ہیں:

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’اگر انسان خود کو پہچانے، خود کو بنائے اور خود کی گرفت (محاسبہ) کرے تو وہ ایسے کام سرانجام دے سکتا ہے جن کی بدولت اسے حیات ابدی حاصل ہوسکتی ہے‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔