خوش آمدید وزیر اعظم نواز شریف، خوش آمدید

اسلم خان  منگل 14 مئ 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

ہارنے والے خوشدلی سے اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اُفق پر نیا سویرا طلوع ہو رہا ہے۔ دھاندلی پر سارے ملک میں دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے باوجود قوم نے انتخابی عمل مکمل ہونے پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ کراچی کا معاملہ الگ ہے۔

ریلوے کو موت کے گھاٹ اُتار دینے والے حاجی غلام احمد بلور نے جس طرح ووٹروں کا رویہ دیکھ کر حتمی نتائج کا انتظار کیے بغیر کھلے دل سے شکست تسلیم کی۔ وہ عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ صدر زرداری نے بھی تین دن خاموشی کے بعد بالآخر انتخابی نتائج تسلیم کر کے قوم کو مبارکباد دے دی ہے جب کہ حیران کن نتائج کی وجہ سے استعفوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ واشنگٹن سے شیری رحمٰن اور ملتان سے یوسف رضا گیلانی تک نہ رکنے والا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔

حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے خیبر پی کے میں حکومت بنانے کے لیے نواز شریف سے اشارے کنائے شروع کیے تو انھیں آغاز ہی میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔جناب نواز شریف اور شہباز شریف نے خیبر پی کے میں حکومت کی تشکیل کو تحریک انصاف کا حق قرار دے کر صورت حال واضح کر دی ہے۔رہا کراچی تو وہاں حلقہ این اے 250 سے ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت نے 43 پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے سارے حلقے میں از سر نو انتخاب کا مطالبہ کر کے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے نبیل گبول این اے 248 لیاری کو فوج کے حوالے کرنے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ سے کر چکے تھے۔

جناب نواز شریف کامیاب و کامران ٹھہرے۔ انتخابی معرکے میں پنجاب نے والہانہ طریقے سے انھیں خوش آمدید کہا لیکن ان کے دو سیاسی قلعوں لاہور اور راولپنڈی میں عمران خان شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ مسلمہ رہنما بن کر اُبھرے ہیں جب کہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکمرانی کرے گی۔

پنجاب میں دھاندلی کے الزامات پر محترمہ عاصمہ جہانگیر نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے دھاندلی کا راگ بند نہ کیا تو پھر خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی کامیابی بھی مشکوک قرار پائے گی۔ دکھ تو اس بات پر ہے کہ حامد خاں جیسے سنجیدہ مزاج اور انصاف پسند شخص حقائق سے بر عکس رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت پر اپنے نوجوان حامیوں کا بے پناہ دبائو اور بے بنیاد تجزیے اور تخمینے اسے راہ راست سے ہٹا رہے ہیں۔ لاہور کے حلقہ 125 میں بے ضابطگیاں تو ہو سکتی ہیں جن کا ا س حلقے کے مجموعی نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔

تحریک انصاف نے لاہور سے مجموعی طور پر لاکھوں ووٹ حاصل کیے۔ پنجاب اسمبلی میں متوقع قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے بے پناہ مشقت کر کے قومی اسمبلی کا حلقہ 126 مسلم لیگ (ن) سے چھین لیا۔ لاہور سے پنجاب اسمبلی کی تین نشستیں بھی تحریک انصاف جیت چکی ہے اگر جناب عمران خان ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں ان کی رائے مان لیتے تو جی ٹی روڈ پر انتخابی نتائج یکسر مختلف ہوتے۔ اب جناب عمران خان کو پنجاب کے 25 حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مضحکہ خیز مطالبات کرنے اور جذبات میں بہنے کے بجائے میاں محمود الرشید سمیت اپنے سنجیدہ فکر تجربہ کار ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر کے ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات کی تحقیقات کرانی چاہیے کیونکہ شوریدہ سر سونامی کو ایک گھنائونی سازش کے ذریعے لاہور کے گٹروں اور گوجرانوالہ سے جہلم تک جی ٹی روڈ پر گندے نالوں میں ڈال دیا تھا۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پنجاب کے عوام نے حریت فکر کا دل آویز مظاہرہ کیا ہے۔ لاہور ہو یا راولپنڈی ۔۔۔۔۔ قوم کے اجتماعی ضمیر نے جو فیصلہ دیا‘ وہ درست ہے۔ سلام صد سلام، چوہدری نثار علی خاں کے لیے جنہوں نے راولپنڈی میں معرکا تن تنہا جیت لیا ہے۔ پنجاب میں بسنے والے راجپوتوں کے جنگجو ’’منج‘‘ قبیلے کا یہ سپوت ایک لمحے کے لیے بھی نہ ڈگمگایا اور بے پناہ دولت اور ریاستی وسائل کے مقابل کامیاب و کامران ٹھہرا۔

پنجاب میں بے پناہ ووٹنگ شرح اور ووٹروں کی آزادی فکر کا اس کالم نگار کو ذاتی طور پر بھی بڑا ’’تلخ‘‘ تجربہ ہوا جس کے پس منظر میں اپنے مہربان دوست اور مدتوں پہلے انٹر نیوز کے کالم نگار جناب عمران خان کو پنجاب کے انتخابی نتائج خوش دلی سے قبول کرنے کی درخواست کر رہا ہوں۔ اس کالم نگار کا ووٹ، آبائی گائوں بڈھا گورائیہ میں درج ہے 10 مئی کی شب طوفان بادوباراں کی پروا کیے بغیر اپنے مشیر صمید خاں کے ہمراہ گائوں پہنچا، 11 مئی کو صبح سویرے پولنگ اسٹیشن پر طویل قطاریں تھیں۔ تحصیل نوشہرہ ورکاں کی راجپوت اور جاٹ برادریاں تاریخ میں پہلی بار ایک آزاد امیدوار پر متفق ہو چکی تھیں۔

امکان غالب یہ تھا کہ سابق رکن قومی اسمبلی بلال اعجاز ہمارے پولنگ اسٹیشن سے یک طرفہ جیت جائیں گے لیکن وہ صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل کر سکے۔ عوام الناس نے پہلی بار ذات برادری اور اسی طرح کے فرسودہ بندھنوں سے بالا تر ہو کر حق رائے دہی استعمال کیا۔ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر اور ججز بحالی تحریک کے مجاہد گل نواز گورائیہ ایڈووکیٹ کے بقول پنجاب کے دیہی حلقوں میں آزادی فکر کا نیا سویرا طلوع ہوا ہے۔ حریت فکر کا یہ منظر سٹیلائیٹ چینلوں کی وجہ سے ممکن ہوا کہ جادوئی اسکرین نے صدیوں سے طاری جمود کو ایک ہی کاری وار میں ریزہ ریزہ کر کے اُڑا دیا۔

جناب نواز شریف کی راہ مسائل کے کوہ گراں روکے کھڑے ہیں انھیں پھونک پھونک آگے بڑھنا ہو گا۔ لوڈ شیڈنگ کا بحران اور ریلوے کی بحالی ایسی اولین ترجیحات ہیں جن پر باضابطہ حلف اٹھانے سے پہلے صرف انتظامی اور تکنیکی حکمت عملی سے کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر 25 فیصد مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کراچی سے پشاور تک ریل کا پہیہ مقررہ وقت پر چلانے کے لیے بھی صرف عزم اور حوصلہ درکار ہے اضافی فنڈز نہیں جس کے لیے ریلوے حکام اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی اور پیار بھری ایک تھپکی کافی ہو گی۔

حرف آخر یہ کہ خیبر پی کے صوبائی حلقہ PK-95 لوئر دیر میں خواتین کو ووٹ کا حق نہ دینے کے بارے میں تمام قومی سیاسی جماعتوں کے مقامی زعماء کے درمیان ہونے والے معاہدے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے جہاں پر پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، اے این پی، جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام (ف) نے مقامی رسم و رواج کے مطابق باضابطہ تحریر ی معاہدے کے تحت الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو آگاہ کیا کہ اس حلقے میں مخصوص سماجی حالات کی وجہ سے خواتین حق رائے دہی استعمال نہیں کریں گی۔ اس لیے خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ بوتھ نہ بنائے جائیں۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق صدیوں پرانے رسم و رواج پر مبنی مثبت لیکن غیر تحریر شدہ قوانین کو تحریری قوانین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے یہ مہذب دُنیا کی مسلمہ تسلیم شدہ روایت ہے لیکن چند دانشور اس نان ایشو کو ایشو بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہے کوئی ہماری اجتماعی دانش کے خلاف اس مہم کو روکنے والا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔