چائے کی پیالی میں طوفان

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 1 اگست 2018

مسلم لیگ (ن) ، ایم ایم اے، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ انتخابات منصفانہ تھے، اس کا یہی نتیجہ ہو سکتا تھا، اگر ایسانہ ہوتا تو مسلم لیگ (ن)کے بڑے بڑے رہنما اور جنوبی پنجاب کی تقریباً نصف سے زیادہ مسلم لیگ علیحدگی نہ اختیارکرتی۔ مسلم لیگ (ن) کے اکثر رہنما ؤں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ نواز شریف نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکے گا، لیکن مسلم لیگ (ن) جن رہنماؤں کے پاس اپنے مخصوص حلقے نہ تھے وہ پارٹی سے علیحدہ ہو کرکہیں اور جانے پر اس لیے تیار نہ تھے کہ وہ در بدر ہو سکتے تھے، اس لیے انھوں نے اسمبلی میں جانے کے لیے (ن ) لیگ کے ٹکٹ کی سیڑھی میں ہی عافیت سمجھی۔

ادھر مسلم لیگ (ن) اور مو لانا فضل الرحمان نے درپردہ منصوبہ بند ی کر رکھی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے عمران خان کو وزیراعظم نہ بننے دیا جائے اور اب ان کی کوشش ہو گی کہ اسپیکر کے لیے ایک متفقہ امیدوار لے کر آئیں اور سب مل کر اسمبلی میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں۔ یہ اتحاد اچانک وجود میں نہیں آیا۔ یہ ایک خفیہ منصوبہ نظر آتا ہے جو بہت پہلے سے تیار تھا اس پر عمل درآمد کا سلسلہ اب ہو گا، لیکن وہ جس راہ کی طرف جا رہے ہیں اس میں وہ اپنی باقی طاقت سے بھی ہاتھ سے دھو بیٹھیں گے۔

پیپلز پارٹی نے تجربے سے یہ بات سیکھی ہے کہ محاذ آرائی سے نقصانات ہوتے ہیں جب تک صحیح قوت نہ ہو۔ جماعت اسلامی کو بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر اتحاد چھوٹی جماعت کو کمزور کرتا ہے جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد میں مر کزی کردار ادا کیا لیکن فائدہ مسلم لیگ کو ہوا اور وہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی بڑی تعداد لے اڑی جس سے مسلم لیگ (ن) کو تقویت ملی اور جماعت اسلامی کو نقصان ہوا۔ موجودہ حالات میں اپنے کارکنوں کوکسی ایسے احتجاج میں دھکیل دینا جس میں ناکامی کے بے تحاشہ امکانات ہیں جماعت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ عمران خان کو موقع دیں اور نظر رکھیں۔

ایسے مواقعے کے منتظر رہیں جہاں عمران خان غلطی کے مرتکب ہوں لیکن فوری طور پر کسی قسم کا کوئی احتجاج خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے متراف ہو گا۔ اور جو باقی بچی ہوئی طاقت ہے وہ بھی ہاتھ سے چلی جائے گی۔ اس بات کا احساس منتخب نمایندوں کو اچھی طرح ہے البتہ ہارنے والے اس احساس سے عاری ہونگے۔ جلد ہی مسلم لیگ (ن) کو بھی اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ محاذ آرائی سے خود انھیں زیادہ نقصان ہو گا۔

سیاسی جماعتوں کی کانفرنس یا گرینڈ الائنس کا مقصد عمران خان کو ٹارگٹ کرنا ہے لیکن یہ کام انتہائی غلط وقت پر ہو رہا ہے جلد ہی ان جماعتوں کو اس بات کا احساس ہو گا کہ ان کے پاس آئینی راستہ تلاش کرنے اور تمام معاملات کو اسمبلی میں لے جانے کے سوا کوئی اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ مختلف جماعتوں کی جانب سے مچایا جانے والا شور چائے کی پیالی میں طوفان کی صورت میں برپا ہونے جا رہا ہے جس میں ملاقاتیں، تصویریں، عمدہ قسم کی ضیافت وغیرہ چلتی رہے گی۔ میڈیا میں تصویر یں بنیں گی۔

اخبارا ت کے صفحات پر طوفان کا شور ہو گا، لیکن اس سے امور مملکت پر کم ازکم اثر ہوگا۔ نومنتخب اراکین کسی صورت میں اس بات پر تیار نہیں ہونگے کہ وہ کسی طویل محاذ آرائی کا حصہ بن جائیں۔ وہ تمام راستے جو آئین اور قانون کی حدود سے باہر ہونگے اس کا نتیجہ ان جماعتوں کو نقصان کی صورت میں اٹھا نا ہو گا۔ البتہ عدالتی راستہ اختیار کر کے الیکشن کی خرابیوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس کی کوئی پذیرائی ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ مطالبہ آئین سے ماروا ہے نہ ہی یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے۔ وہ کون سا ادارہ ہے جو اس مطالبے پر عملدرآمد کرائے گا۔ ان رہنماؤں کو ہوائی قلعے بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے بجائے اسے اور مضبوط کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

عوام بہت زیادہ مشکلات سے دو چار ہیں پچھلے چند سال کے دوران ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں بے تحاشہ اور اضافہ ہو گیا ہے جمہوریت اور ملک اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب عوام خوش ہوتے ہیں جب مہنگائی میں اضافہ ہونے کے بجائے اس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہو، انھیں باآسانی روزگار مہیا ہو رہا ہے، صحت اور تعلیم کی سہولیات مفت فراہم ہو رہی ہوں، ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ انھیں درپیش نہ ہو۔ بجلی، گیس اور پانی کی سہولیات بغیرکسی رکاوٹ وکمی کے انھیں مہیا ہو رہی ہو، لیکن اگر صو رتحال اس کے الٹ ہو تو پھر نقصان سب ہی کا ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔