تحریک انصاف اور متناسب نمایندگی…

ابن مستقیم  منگل 14 مئ 2013

عام انتخابات کا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پا چکا ہے۔ نواز لیگ نے تقریباً دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے۔ تحریک انصاف اگرچہ خیبر پختونخوا میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، لیکن اسے پنجاب میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ روزانہ پانچ، پانچ جلسے کر کے لوگوں کو تبدیلی اور نئے پاکستان کے لیے متحرک کرنے والے عمران خان خود کو وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھ رہے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ تجزیہ کار اسے پہلے بڑے انتخابات میں بھی اچھی کارکردگی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا کہ انھیں ملک بھر سے ایک کروڑ سے زاید ووٹ حاصل ہوئے، تحریک انصاف کے ترجمان شفقت محمود نے بھی کہا کہ ہمیں پورے ملک سے بڑی تعداد میں ووٹ پڑے۔

یہاں تحریک انصاف کے دونوں رہنمائوں کے بیان سے مکمل طور پر اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر موجودہ انتخابی نظام کی خامیوں پر بات کرنا مقصود ہے، کیونکہ ہمارے انتخابی نظام کے تحت مجموعی طور پر کامیابی ان کے حصے میں نہ آ سکی، جب کہ اس نظام میں جوڑ توڑ اور شخصیاتی سحر کے تحت نشستیں حاصل کی جاتی ہیں۔ نتیجتاً بعض اوقات کامیاب امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب نہایت کم ہوتا ہے، جو کسی طور بھی جمہوریت کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا۔ دوسری طرف شہری اپنی رائے کا اظہار بھی آزادانہ طور پر نہیں کر پاتے۔ وہ جس جماعت کو پسند کرتے ہیں اس کے امیدوار کو حلقے میں تیسری یا چوتھی پوزیشن ملنے کا امکان ہوتا ہے، لہٰذا وہ سوچتے ہیں کہ اگر انھوں نے اسے ووٹ دیا تو ان کا ووٹ ’’ضایع‘‘ ہو جائے گا۔ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ متوقع پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں میں سے کسی کا چنائو کریں۔ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی من پسند جماعت کو ووٹ دیا تو یہ متوقع پہلی دوسری پوزیشن میں سے کسی ایک کے حق میں چلا جائے گا۔ یوں ووٹ دینے والے اپنی رائے کے حقیقی اظہار سے محروم رہ جاتے ہیں۔

موجودہ انتخابی نظام کا جائزہ لیں تو یہ نظام ایسا ہے کہ اگر کوئی امیدوار ایک لاکھ ووٹ بھی حاصل کر لیتا ہے، مگر اس کا مخالف صرف ایک لاکھ ایک ووٹ حاصل کر کے اسے شکست سے دو چار کر سکتا ہے۔ کسی حلقے میں دس پندرہ ہزار ووٹ لے کر امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے، جب کہ کسی حلقے میں امیدوار ایک لاکھ ووٹ لے کر بھی ہار جاتا ہے، کیونکہ چند ہزار ووٹ لے کر جیتنے والے کے حلقے میں دیگر امیدواروں کے ذریعے ووٹ تقسیم ہو رہا ہوتا ہے، یوں اس کی جگہ مستحکم رہتی ہے، جب کہ دوسری طرف ایک لاکھ ووٹ لے کر ہارنے والے کا مخالف ووٹ یکجا ہوتا ہے اور وہ محض ایک ووٹ کے فرق سے بھی باہر ہو جاتا ہے، چاہے اس نے کتنی ہی بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کیے ہوں۔ یوں عوام کی بہت بڑی تعداد کی رائے رد ہو جاتی ہے اور مختلف جماعتوں اور شخصیات کے جوڑ توڑ کے ذریعے امیدوار کو نام نہاد عوامی نمایندگی کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔

انتخابی مہم میں بھی مختلف طبقات کی نمایندہ جماعتیں زیادہ تر صرف وہیں جلسے جلوس کرتی ہیں، جہاں سے ان کے مضبوط امیدوار کی کامیابی کا امکان ہوتا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان نے زیادہ تر جلسے پنجاب میں کیے۔ اگرچہ پنجاب ملک کی نصف آبادی سے بھی زیادہ ہے، لیکن ان کی انتخابی مہم کی بنیاد یہی تھی کہ جہاں انھیں ’’آسرا‘‘ تھا بس وہیں اپنی توانائیاں صرف کی جائیں اور ’’کمزور‘‘ حلقوں اور علاقوں میں جا کر وقت ’’ضایع‘‘ نہ کیا جائے۔ کراچی شہر اس کی بڑی مثال ہے، عمران خان نے یہاں کا جلسہ ملتوی کرنے کے بجائے سرے سے ہی منسوخ کر دیا۔۔۔ جب کہ نواز شریف بھی کراچی سے ہو کر گزر گئے، لیکن انھوں نے ٹھٹھہ میں جا کر جلسہ کیا، کیونکہ وہاں ان کی امیدوار ماروی میمن اپنی نشست کے لیے خاصی پر امید تھیں۔ اس ہی طرح متحدہ کی جانب سے بھی پنجاب میں چند ایک مقامات پر جلسے کیے گئے۔

سیاسی تجزیہ کار اسے موجودہ انتخابی نظام کے تحت ’’عجیب‘‘ حکمت عملی سے تعبیر کر رہے تھے، کیونکہ متحدہ کے امیدواروں کا پنجاب سے جیتنے کا پہلے ہی کوئی امکان موجود نہیں تھا، اگر انھیں پنجاب میں ووٹ پڑے بھی ہوں تو وہ سادہ الفاظ میں ضایع ہو گئے۔ ہمارے اس ہی انتخابی نظام کی بنیاد پر مختلف سیاستدان اپنی وفاداریاں بھی بدلتے رہتے ہیں، کبھی انتخابات سے پہلے اور کبھی انتخابات کے بعد۔ جو جماعت انھیں زیادہ اچھی جگہ دیتی ہے، اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انتخابات کے بعد بھی مفادات کی خاطر وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہیں، جسے عرف عام میں ’’لوٹا کریسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں تو نام نہاد ’’آزاد‘‘ امیدوار ہی کامیاب ہوتے آئے ہیں جو ہمیشہ ہی اقتدار بنانے والی جماعت کے سامنے اپنی قیمت لگاتے ہیں اور ہر حکومت کے اتحادی بن کر جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

ہمارے اس انتخابی نظام کی ان تمام خامیوں کے علاوہ موروثیت، شخصیت پرستی، برادریت، لسانیت اور غیر جمہوری نمایندگی کا حل متناسب نمایندگی میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اکثر سیاسی جماعتیں موجودہ انتخابی نظام کی اسیر ہیں۔ گائوں کے چوہدری، وڈیرے اور جاگیرداروں سمیت بااثر شخصیات کے ذریعے اقتدار کی بیساکھیاں حاصل کرنے والی جماعتوں سے تو امید نہیں کہ وہ اس پر آمادہ ہوں کہ ملک بھر میں متناسب نمایندگی کا نظام نافذ کیا جائے، تا کہ خیبر تا کراچی کسی بھی جماعت کو پڑنے والا ایک ایک ووٹ گنا جائے۔ حلقوں میں جوڑ توڑ اور ووٹوں کی تقسیم کے ذریعے لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ووٹ ضایع نہ ہوں۔ انتخابات میں صرف انتخابی نشان کو مہر لگائی جائے اور اس بنیاد پر تمام ووٹ ایک ساتھ گنے جائیں اور پھر اس تناسب سے منتخب ایوانوں کی نشستیں مختلف جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں۔

یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہو گا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے۔ ایسے میں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انتخابی پرچی پر سو سے زاید نشانات دیے جائیں؟ ظاہر ہے ایسا کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ نچلی یا بلدیاتی سطح پر انتخابات کی کارکردگی کی بنیاد پر صرف دس، پندرہ جماعتوں کو عام انتخابات کے لیے اہل قرار دیا جائے۔ ایک بار سلسلہ چل نکلے تو پھر گزشتہ انتخابات کی بنیاد پر ایک مخصوص تعداد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو آیندہ انتخابات کی دوڑ سے باہر کر دیا جائے، اس کی جگہ بلدیاتی سطح پر اکثریت حاصل کرنے والی دوسری جماعتوں کو جگہ دی جائے۔ اس طرح خود بخود عوام کی نمایندہ دیگر جماعتوں کو عام انتخابات میں جگہ ملتی رہے گی اور غیر مقبول جماعتیں پیچھے ہٹتی چلی جائیں گی۔

موجودہ منظرنامے کے تحت نواز لیگ اقتدار میں آ رہی ہے، جو شاید متناسب نمایندگی کو اہمیت نہ دے۔ یہی صورت حال پیپلز پارٹی کی بھی ہے۔ البتہ حزب اختلاف کی اہم جماعت تحریک انصاف اس سلسلے میں اپنی تجاویز تیار کر سکتی ہے، جسے متحدہ اور جماعت اسلامی کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ یہ تمام جماعتیں کوشش کر کے آئین میں ایسی ترامیم لے کر آئیں جس کے ذریعے پارلیمان میں عوام کی حقیقی نمایندگی ہو سکے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعے سیاسی بھائو تائو کے ذریعے عوامی رائے کا سودا کرنے کے سلسلے کا بھی خاتمہ ہو گا اور عوام کی حقیقی حاکمیت قائم ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔