مفاہمت یا ٹکراؤ

جاوید قاضی  جمعرات 2 اگست 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

عمران خان وزیر اعظم بننے چلے اور شاید پنجاب میںحکومت بنانا بھی ایک یقینی صورتحال ہے لیکن آگے ان کا واسطہ ایک مضبوط حزب اختلاف سے پڑنے والا ہے۔ایوان سے باہر نہیں، ایوان کے اندر۔ حالات اس حد تک کشیدہ ہیں کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں تو چیئرمین برخاست ہوسکتے ہیں۔ یوں تو وہ خانصاحب کے وزیراعظم بننے میں بھی روڑے اٹکا سکتے ہیں اور پنجاب میں بھی مسائل پیدا کر سکتے ہیں اور سندھ میں بھی خانصاحب پیپلز پارٹی کے خلاف بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر سندھ کا گورنر ایک ایسے شخص کو نامزد کریں جو علامتی اعتبار سے پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا دشمن ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ تعداد کے اعتبار سے سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کوئی ٹھوس اپوزیشن نہیں بنا سکی لیکن ایم کیو ایم کے طرح پی ٹی آئی کوئی نسلی پارٹی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی ایک ملک گیر اور تمام قومیتوں، رنگ ونسل کی پارٹی ہے، پیپلز پارٹی کی طرح۔جب سے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوئی ہے وہ سندھ کے اندر سندھی قوم پرستوں کی پارٹی بن گئی ہے مگر پیپلز پارٹی کی پرفارمنس دوسری پارٹیوں کی نسبت بد تر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم سے خطرہ نہیں تھاکیونکہ وہ سندھیوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتی تھی، لیکن یہ کام پی ٹی آئی بہت بہتر انداز سے کرسکتی ہے اگر وہ سنبھل سنبھل کرکھیلے اور پیپلز پارٹی کی پھینکی ہوئی اینٹ کا جواب کم از کم پتھر سے دے سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ کے اندر ابھرتے ہوئے خطرات کو پی ایم ایل این سے وفاق میں بیٹھ کرکاؤنٹرکرنا چاہتی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو خود پی ٹی آئی کا ابھرنا اس وجہ سے بھی بنا کہ پی ایم ایل نون نے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بہت محدود کیا، جو بیانیہ خود پیپلز پارٹی کا ہے وہ اپنی افادیت پنجاب میں گنوا بیٹھا ہے، جب کہ پی ایم ایل نون اور پی ٹی آئی کا بیانیہ دائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ دونوں ماضی قریب میں طالبان کی حمایتی تھیں۔ جنرل ضیاء سے دونوں کا لگاؤ بھی رہا ہے لیکن عورتوں اور جوانوں کے حوالے سے اپنی ماہیت میں پی ٹی آئی بہت وسیع اور progressive رہی ہے۔

سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ نون اپنے ماضی سے نکلتی گئی اور ملک کے اندر جمہوریت پرست قوتوں کا ہر اول دستہ بن گئی، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سر پے سجے ہوئے اس تاج سے محروم ہوگئی۔ مسلم لیگ نون کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ سینٹرل پنجاب تک محدود ہوگئی ہے ۔ اس میں ملک گیر پارٹی بننے کی اتنی بھی گنجائش نہیں جتنی پیپلزپارٹی میں ہے۔

اس طرح آگے جا کے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دو بڑی پارٹیاں بن کے ابھریں گی اور مریم نواز نہیں بلکہ بلاول بھٹو اور عمران خان آمنے سامنے دو بڑے لیڈر بن کے ابھریں گے۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کے ستم ہوتے رہے اور وہ ان کو برداشت کرتی رہی لیکن پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے اس قدر ٹکراؤ میں کبھی نہیں گئی جتنا کہ آج مسلم لیگ نون جا چکی ہے، جب کہ خان صاحب کی مخالفت کا نشانہ بھی صرف مسلم لیگ نون بنی، پیپلز پارٹی نہیں اور خان صاحب پیپلز پارٹی سے ٹکراؤ میں آنے کے لیے بھی تیار ہیں کیونکہ وہ حکومت بنا رہے ہیں یعنی ایک فطری تنقید کی آنکھ ان پر ہمیشہ ہوگی اور اس ا اطلاق بھی ہوگا یعنی حکومت میں رہ کر یا پھر یوں کہیے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کے دوسروں پر سنگ باری نہیں کی جاسکتی کیونکہ حکومت کرنے کا حق تو پی ٹی آئی کو بھی ہے اور ان کے مخالفین کو بھی نہ صرف وفاق میں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی۔ تنقید توکی جائے لیکن ٹکراؤ سے اجتناب برتا جائے۔

پی ٹی آئی اس وقت سندھ میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور اب تک توکراچی پر بھی پی ٹی آئی کی گرفت مضبوط ہے۔اس وقت پی ٹی آئی کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ پرانی اجارہ داری کا خاتمہ کرے لیکن اس کے لیے پی ٹی آئی کو ہوش مندی کے ساتھ سندھ کے مزاج کو سمجھنا ہوگا۔

میرا یہ خیال ہے کہ سب سے پہلے سندھ کی مڈل کلاس کو سمجھنے اور ان کے اندر گھلنے ملنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بعد جب الیکشن قریب آئیں تو پھر الیکٹیبلز کی طرف رخ کیا جاسکتا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ سندھ کے اندر عام لوگوں کے دلوں کو جیتا جائے نہ کہ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت وہ ورکر اور جوش و ولولہ تو نہیں لیکن بلاول بھٹو کی شخصیت کا سحر اب بھی موجود ہے۔

میری اطلاعات کے مطابق لیاقت جتوئی الیکشن میں آخر تک جیت رہے تھے لیکن الیکشن سے دو دن پہلے بلاول اپنا کارواں لے کر وہاں سے گزرے اور ان کے وہاں گزرنے نے کایا ہی پلٹ دی۔ مجموعی طور پر بلاول بھٹوکی ریلیاں بہت کامیاب ہوئیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں بھائی بہن یعنی آصف زرداری اور فریال تالپور نے یہ اچھی طرح بھانپ لیا کہ ان کے چہرے لوگوں کو پسند نہیں۔

ہماری سیاست نے بہت تیزی سے رخ بدلا ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ تقریبأ تاریخ کا حصہ ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کراچی کے اکثریتی عوام اب اس خول سے نکل رہے ہیں اور یہ کام صرف عمران خان ہی انجام دے سکتے تھے اور ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ 2018ء کے انتخابات اتنے بھی شفاف نظر نہیں آرہے جتنے 2013ء یا 2008ء کے ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی بہت ہی ناقص نظرآئی، لیکن ہارنے والے جس طرح سے الیکشن کو متنازع قرار دے رہے ہیں وہ بھی حقیقت نہیں۔ جو پارٹیاں الیکشن میں دھاندلی کرواتی تھیں اس مرتبہ وہ نہ کراسکیں جیسا کہ انھوں نے 2008ء یا پھر 2013ء میں کروائی تھیں۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی میں کس طرح الیکشن کو یرغمال بنایا جاتا تھا جب لوگ ووٹ دینے پہنچتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ ووٹ پہلے سے ہی کاسٹ ہوچکا ہے دھاندلی تو 1990ء کے الیکشن میں بھی ہوئی تھی اور جس طرح بھاری مینڈیٹ 1996ء میں حاصل کیا گیا اس کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کے اندر ایک آزاد الیکشن کمیشن تب ہی بن پائے گا جب جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔

جس ملک میں پہلی بار آمریت کو جمہوریت نے شکست دی ہو وہ جمہوریت یا الیکشن کا ہونا بھی ایک دم اچھا اور شفاف ہوجائے یہ اتنا آسان نہ ہوگا۔ آزاد وشفاف الیکشن بھی مضبوط جمہوریت کے سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دونوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مضبوط جمہوریت خود آزاد وشفاف الیکشن کی ضامن ہے۔ بنیادی طور پر ٹکراؤکی سیاست سے اجتناب کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی پسند وناپسند سے دور رہنا چاہیے۔ بس اتنا دیکھنا کافی ہے کہ پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی میں خلل نہ آئے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اب وقت آگیا ہے کہ ایسے مفروضوں اور خیالات سے پرہیزکیا جائے۔ اس ملک کو دنیا کی ماڈرن ریاست بننا ہے اور اس کے تمام اجزاء پورے ہونے چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان کو اسی حد تک security  ریاست کے خیال نے پہنچایا ہے۔ ہم ایران اور نارتھ کوریا نہیں ہیں اور نہ ہی سمجھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔