اگلاامکانی منظرنامہ

مقتدا منصور  بدھ 15 مئ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بہر حال پاکستان کی تاریخ کے دسویں انتخابات کا انعقاد ہوگیا۔ مسلم لیگ(نواز) قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکی ہے۔ یوں اس کے اقتدار میں آنے کے واضح امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ مگر دوسری جانب تحریک انصاف سمیت دیگر کئی جماعتوں نے بدترین دھاندلی کے الزامات کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع کردیاہے۔

یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس کافیصلہ توالیکشن کمیشن ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی کرسکے گا۔لیکن بعض غیر ملکی مبصرین نے چند حلقوں کے سوا،جہاں سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں، مجموعی طور پر حالیہ انتخابات کو 2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں خاصا بہتر قرار دیا ہے ۔

منگل تک ترتیب پانے والے انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ(نواز)123نشستیں حاصل کرکے سب سے آگے ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی 30،تحریک انصاف 27،متحدہ قومی موومنٹ 18اورجمعیت علمائے اسلام (ف) 10 نشستوں کے ساتھ اس سے خاصی پیچھے ہیں۔پاکستان کے پارلیمانی سیاسی ڈھانچے کا مطالعہ کیا جائے تو قومی اسمبلی میں براہ راست انتخابات کے ذریعے 272 اراکین منتخب ہوتے ہیں۔خواتین کی60اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مختص 10 نشستوں کے متناسب نمایندگی کے تحت انتخاب کے بعد اراکین کی کل تعداد 342ہوجاتی ہے۔

اس کلیہ کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو خواتین کی 29اوراقلیتوںکی5نشستیں ملنے کی توقع ہے۔یوں قومی اسمبلی میں ان کی کل نشستیں164ہوسکتی ہیں۔ جب کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے کم ازکم172 اراکین کی ضرورت ہے۔یوںمسلم لیگ(ن)کو8اراکین کی کمی کا سامنا ہے۔اس لیے وفاق میں حکومت سازی کوئی بڑا مسئلہ نظرنہیںآرہی،کیونکہ مسلم لیگ(ن) کسی جماعت کے تعاون کے بغیر یہ عدد آزاد امیدواروں کے ذریعے باآسانی پوراکرلے گی۔

یہی کچھ معاملہ پنجاب اور سندھ میںصوبائی حکومتوں کی تشکیل کا ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ اورسندھ میں پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے حکومت سازی کرسکتی ہیں۔لیکن اربن سندھ کی حکومت میںنمایندگی کے لیے امکان ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی سابقہ حلیف جماعت ایم کیوایم کو ساتھ لے کرچلنے کی کوشش کرے، جس کے اشارے بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں۔مصدقہ خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اکثریتی جماعت تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت قائم کرنے جارہی ہے اور اس نے پرویز خٹک کو صوبائی وزیر اعلیٰ بھی نامزدکردیاہے۔

حالانکہ مسلم لیگ (ن) روایتی سیاست کا سہارا لیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور آزاد اراکین کوساتھ ملاکر تحریک انصاف کو اقتدار سے دور رکھ سکتی تھی۔مولانا فضل الرحمان کی خواہش بھی یہی ہے ۔لیکن مسلم لیگ (ن) نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت سازی میں روڑے اٹکانے سے گریز کرتے ہوئے،اکثریتی جماعت کے حکومت سازی کے حق کو تسلیم کرکے قابل تحسین روایت قائم کی ہے۔جہا ں تک بلوچستان کا معاملہ ہے تو اس صوبے میں حسب سابق جوڑتوڑ ہوں گے اور سابقہ روایات کے مطابق ایک ایسی مخلوط قائم ہوگی، جس میں شاید سبھی جماعتیں شامل ہوں۔

حالیہ انتخابات کے بارے میںبعض حلقوں کاکہناہے کہ امریکی اور یورپی منصوبہ ساز2014ء میں ایساف اور نیٹو افواج کے انخلاء کے موقعے پر پیپلزپارٹی اور اس کے حلیفوں کی حکومت کے تسلسل کے خواہشمند تھے۔ مگر پیپلز پارٹی نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نہ صرف اندرون ملک خراب کارکردگی کے باعث عوامی سطح پر اپنی ساکھ کو خاصی حد تک مجروح کیا،بلکہ غیر متوازن خارجہ پالیسی کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی اس کے کردار کے بارے میں شکوک وشبہات پیداہوئے۔

اس کے برعکس مسلم لیگ(ن) نے ان پانچ برسوں کے دوران دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے علاوہ امریکا سمیت مغربی ممالک میں اپنا اعتمادبھی بحال کرایاہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میںایک عمومی تاثریہ بھی پایا جاتا ہے کہ اسے سعودی عرب کے حکمرانوں کا اعتمادحاصل ہونے کے علاوہ امریکا کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی ہے اور وہ بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔یہی سبب ہے کہ بیشتر تجزیہ نگارمسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے پس پشت بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد بھی دیکھ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تحریک انصاف تیسری قوت کے طورپر ابھرکرسامنے آئی ۔عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ تو ضرورکیا، مگر وہ اہم قومی اوربین الاقوامی امورپر کوئی واضح پالیسی نہیں دے پائے۔جس کی وجہ سے عالمی منصوبہ سازوں کوان کے بارے میں یہ خدشات ہیں کہ وہ اپنی سیاسی ناپختگی، بین الاقوامی معاملات کوسمجھنے کے لیے درکار ویژن کی کمی اور سب سے بڑھ کر اپنی متلون مزاجی کے سبب بعض عالمی اور علاقائی مسائل کومزید الجھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔اس لیے عالمی قوتوں کی خواہش رہی ہے کہ اس مرحلے پر جب 2014ء میں ایساف اور نیٹوافواج کا انخلاء شروع ہونے والاہے، وہ کسی طور وفاقی حکومت تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکیں،کیونکہ ان کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹ پیداہوسکتی ہے۔

تحریک انصاف کی قومی سطح پر ویسے بھی کامیابی کے امکانات خاصے کم تھے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت نے اپنی پوری توجہ صرف 18 سے 24 سال کے نوجوانوں پرمرکوز رکھی۔عمر کے اس گروپ سے تعلق رکھنے والے ووٹرزکل ووٹروں کا صرف 17.5فیصد ہیں۔اگر یہ تعداد سو فیصد بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیتی تو بھی ان کی کامیابی مشکوک رہتی ۔جب کہ فطری طورپر ہر عمر کا ووٹرمختلف جماعتوں میں تقسیم ہوتا ہے۔یہ ممکن ہوتا ہے کہ ان کا جھکاؤ کسی جماعت کی جانب زیادہ ہو،لیکن سو فی صدکسی ایک جماعت کی جانب راغب ہونا بعید از قیاس ہے۔اس کے علاوہ 35برس سے اوپر عمر کے ووٹر کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے، جو پاکستان جیسے معاشروں میں بہت کم تبدیل ہوتا ہے۔اس لیے انتخابات سے قبل ہی اندازہ ہوگیا تھاکہ تحریک انصاف قومی سطح پر کوئی بڑا بھونچال پیدا نہیں کرسکے گی اور قومی اسمبلی میں30 سے 35کے قریب نشستیں حاصل کرسکے گی۔یہ اندازے درست ثابت ہوئے۔اس کے برعکس مسلم لیگ(ن) کے کریڈٹ پر اس کے وہ کام ہیں جو اس نے پنجاب میں سرانجام دیے اوربے شک دباؤ کے تحت ہی سہی،مگر نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی حکمت عملی کو اختیارکیا۔

جہاں تک صوبوں کا معاملہ ہے تو سندھ ایک اہم صوبہ ہے،کیونکہ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ اسی صوبے میں ہے۔2014ء کے آخرمیںافغانستان سے ایساف اور نیٹوافواج کے انخلاء کے بعد حساس جنگی سازوسامان جس کی مالیت ایک تخمینے کے مطابق 80ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے،اسی بندرگاہ سے واپس ہونا ہے۔

اس لیے عالمی اسٹبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ کم ازکم اس صوبے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا سیاسی اثرو نفوذ برقرار رہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں جماعتوںکی کامیابی عالمی منصوبہ سازوں کے لیے بڑی حد تک اطمینان کا باعث ہے۔اب ان منصوبہ سازوں کی کوشش ہوگی کہ یہ دونوں جماعتیں کم ازکم 2014ء کے آخر تک ایک دوسرے کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھیں،تاکہ ان کا حساس سازوسامان بغیر کسی رکاوٹ کراچی کی بندرگاہ سے منتقل کیا جاسکے۔

بہر حال عالمی اور علاقائی منظر نامے سے قطع نظر، قومی سطح پر سیاسی جماعتوں کے رویوں اور طرز عمل میں مثبت تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ان میں برداشت اور قبولیت کا رجحان بھی مستحکم ہورہاہے۔ جس کا ثبوت میاں نواز شریف کا شوکت خانم اسپتال جاکر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عیادت کرنا اور پختونخوا میں ان کی جماعت کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرنا ہے۔ساتھ ہی انھوں نے فرینڈلی میچ کی دعوت دے کر تلخیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان نے بھی اسی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ میاں صاحب کو قومی سطح پر کامیابی کی مبارکباد دی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے، مسلم لیگ(ن) نے خیبر پختونخوا میںتحریک انصاف کی اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کا عندیہ دیا ہے۔یہ ایک اچھی روایت ہے، جسے مزید مستحکم کیا جانا چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر جماعتوں کو بھی اسی روئیے اور رجحان کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری عمل حقیقی معنی میں پروان چڑھ سکے۔اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت بھی اپنی پانچ سالہ مدت اسی افہام وتفہیم کے ساتھ پوری کرے گی اور اپوزیشن پارلیمانی دائرے میں رہتے ہوئے اس کی کارکردگی کا سخت گیری کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لیتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔