ایک معصوم سی خواہش

رئیس فاطمہ  بدھ 15 مئ 2013

شاید ہی کوئی کالم نگار ایسا ہو جس نے الیکشن کی سن گن ملنے کے بعد سے لے کر رزلٹ آنے تک اس موضوع پر اپنے اپنے اہم اور زریں خیالات کا اظہارنہ کیا ہو۔ اسی لیے میں نے اس پرکوئی بات نہیں کی۔ ویسے بھی اس بار ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستان میں پہلی بارالیکشن ہورہے ہوں۔ ساری مہم میڈیا چلا رہا تھا۔

طالبان کی جانب سے ہمدرد جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے پورے پورے مواقعے فراہم کیے گئے جب کہ لبرل اور پروگریسو جماعتوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے نہ صرف بعض قوتوں نے بم دھماکے کروائے بلکہ ان کے کارکنان کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مارے گئے۔

افسوس اس امر کا ہر مہذب پاکستانی کو ہے کہ کسی بھی مذہبی اور طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس رویے پر اپنا احتجاج درج کرایا نہ ہی مذمت کی۔ غیرملکی میڈیا کا اس سے یہ تاثر لینا بالکل درست ہوگا کہ کچھ نادیدہ قوتیں پرو طالبان وزیر اعظم لانا چاہتی ہیں۔ کیا یہی وہ نام نہاد جمہوریت ہے جس کا پروپیگنڈہ ٹی وی چینلز پرکیا جارہا تھا۔ ایک طرف امن کی امید کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف جہادی گروپوں کے سربراہوں کی بھرپور شمولیت ان کے امن کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔

میں نہ توکسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں نہ ہی میری روزی ان خودساختہ بتوں کی پوجا سے وابستہ ہے۔ جن کے ساتھ دوروں پرجانے اور باورچی خانے کا خرچ چلانے کے لیے میں ان لیڈروں میں وہ صفات پیدا کروں کہ اپنے قلم سے انھیں ’’نجات دہندہ‘‘ قرار دے دوں کہ اگر انھیں ووٹ نہ دیا تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ یہ کام ہمارے بعض منجم حضرات بڑی تیاری اور باریک بینی سے کر رہے تھے اور نہایت مہارت اور چابکدستی سے یہ بتا رہے تھے کہ کس کے سر پہ ہما بیٹھے گا۔

سرخاب کا پرکس کی ٹوپی میں لگے گا۔ حالانکہ یہ ایک ایسا کھلا راز تھا جو ایک درمیانے درجے کی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس کے لیے خفیہ فنڈز کی تقسیم کا پلندہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ اب ایسی اشاعتیں باعث خفت و شرمندگی نہیں بلکہ باعث فخر سمجھی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے ’’سرخاب کا پر‘‘ ہی تو ہے۔ الیکشن سے پہلے اسلام آباد میں بھی پیرسوہاوا، اور دامن کوہ کی پگڈنڈیوں، پرخطر راستوں کے علاوہ کہیں کوئی گہماگہمی الیکشن کی نظر نہیں آرہی تھی۔

لیکن جیلن ڈکسن کی طرح کے کئی منجم ہی نہیں بلکہ خود بعض جماعتوں کے سربراہ اپنی کامیابی کی پیش گوئی بہت پہلے کرچکے تھے۔ عمران خان بار بار ’’باریوں‘‘ کا ذکر کرتے تھکتے نہیں تھے۔ لیکن یہ بھول جاتے تھے کہ پی پی نے پانچ سال (ن) لیگ کی مہربانیوں ہی سے پورے کیے تھے۔ اس اتحاد اور تعاون کی بنا پر (ن)لیگ کو اس کا حق ملنا چاہیے تھا۔ اسی لیے ن لیگ کے رہنماؤں نے الیکشن ہونے سے بھی پہلے عوام کو خوشخبری سنادی تھی کہ آیندہ وزیر اعظم ان کا ہی ہو گا۔ لیکن یہ پیش گوئی کوئی دھماکا نہیں تھی۔

بس یوں سمجھ لیجیے کہ بادل گھر آتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بارش ہونے والی ہے۔ ہواؤں کے رخ بدلنے سے موسموں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح صدر صاحب جس طرح اپنی باری پوری کر رہے تھے اور میوزیکل چیئر کی سیٹ کسی طور بھی چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ اس نے آنے والے موسموں کا درجہ حرارت واضح طور پر بتا دیا تھا کہ کس کے گلستان میں پھول کھلیں گے اور کس کے باغ کے پھولوں کو مئی کی گرم لو جھلسا جائے گی۔

بہرحال سرکاری رزلٹ آنے کے بعد نواز شریف نے جو بیان سب سے پہلے دیا ہے وہ بہت خوش آیند ہے۔ انھوں نے بھارت سے امن اور دوستی کی بات کو دہرایا ہے۔ پہلے بھی وہ یہ کوشش کرچکے ہیں۔ واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر نواز شریف ہی کے دور میں لاہور تشریف لائے تھے۔ سمجھدار اور محب وطن لوگوں کی اکثریت نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے کی خواہاں ہوتی ہیں تاکہ ہتھیاروں کی دوڑ بند ہوسکے۔ بجٹ کا وہ کثیر حصہ زر جو ’’دفاعی بجٹ‘‘ کے نام پر مختلف پٹیوں میں چلا جاتا ہے۔ اسے کہیں اور خاص کر تعلیم پر خرچ کیا جاسکے۔ لیکن اقتدار کی چابی ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے والوں میں خاصی بڑی تعداد مذہبی انتہاپسندوں کی ہے۔

اسی لیے واجپائی کے دورے کے موقعے پر ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں نے بہت ہنگامہ کیا تھا ۔ نواز لیگ کی تمام تر کوششوں کے باوجود پھر ’’کارگل‘‘ ہوگیا تھا۔ جس میں ہونے والے جانی نقصان کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اسی لیے حکومت بنانے سے پہلے ہی نواز شریف کا مفاہمانہ اور دوستانہ اندازفکر شاید کچھ قوتوں کو پسند نہ آئے۔ جمہوریت کی ڈگڈگی تو بج چکی اور اس ڈگڈگی کی تھاپ پر ناچنے والوں نے بھی سمجھ لیا کہ اب اگلی باری کس کی ہوگی؟ ہوسکتا ہے اگلا موقع عمران خان کو دیا جائے کہ وہ مذہبی جماعتوں اور طالبان کی گڈ بک میں ہیں۔

لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اگر سب کچھ ایجنڈے کے مطابق نہ ہوا تو ہوسکتا ہے کہ پرانی ترتیب ہی بادشاہ گروں کے لیے مفید ہو کہ پس پردہ بہت سی قوتیں اب بھی متحرک ہیں جو اپنی مرضی کا ’’مینو‘‘ اقتدار کے دسترخوان پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان دسترخوانوں پہ سے فاطمہ جناح کے نام کی پلیٹ ہٹادی جاتی ہے، کبھی ایک نئی ڈش ’’بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے متعارف کرادی جاتی ہے کبھی کارگل کروادیا جاتا ہے اور کبھی وقفے وقفے سے پاک بھارت تعلقات پلاننگ کے تحت خراب کروائے جاتے ہیں کہ کہیں امن اور دوستی کے نام پر کسی مخصوص بجٹ میں کمی نہ کردی جائے ۔

اس ملک کی ایک سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں ان کے ہاتھ پیر باندھ دیے جاتے ہیں۔ نوازشریف نے اپنے دور اقتدار میں وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ بھارتی ویزہ آفس کراچی میں قائم کروائیں گے۔ اس سلسلے میں کسی حد تک پیش رفت بھی ہوئی۔

لیکن جیساکہ میں نے ابھی عرض کیا کہ بعض معاملات میں اقتدار کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے والے ہر بٹن اپنی مرضی سے دبانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے میاں صاحب کی تمام تر نیک خواہشات اور کوششوں کے باوجود آج تک ویزا آفس کا کراچی میں قیام عمل میں نہیں آیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت جانے والے زیادہ تر خاندانوں کا تعلق اندرون سندھ اور کراچی سے ہے۔ ان کے لیے اسلام آباد کا سفر بہت تکلیف دہ ہے۔ صرف سفر ہی نہیں بلکہ وہاں ہوٹلوں میں قیام اور دیگر اخراجات ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔

نواز حکومت کو شروع ہی سے اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھنی چاہیے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ڈالر کو 60 روپے سے 100 روپے تک کس نے پہنچایا؟ میرٹ کا قتل عام کس نے کیا؟ نوکریوں کی خرید و فروخت کس نے کی؟ جرائم پیشہ افراد کو جیلوں سے رہا کرواکے کراچی کا امن کس نے خراب کیا؟ مہنگائی کے جن کو بوتل سے باہر کس نے نکالا؟ متعصب صوبائی پالیسی کن کا ایجنڈا تھا؟ اگر انھوں نے ان مسائل پر قابو پالیا، قوم کو (ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے) لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلادی تو آیندہ انھیں اپنی باری کے لیے کسی کی مدد درکار نہیں ہوگی۔

پتہ نہیں کیوں میرے دل میں ایک معصوم سی خواہش ابھرتی ہے کہ کاش! اس ملک کا وزیر اعظم شہباز شریف کو ہونا چاہیے۔ میری ان سے صرف ایک ملاقات ہوئی ہے، وہ بھی جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کے توسط سے، لیکن جس نیک نیتی، خلوص اور دیانت سے وہ جنات کی طرح کام کرتے ہیں، ویسا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آتے۔ اسی لیے انھوں نے لاہور کو تجاوزات سے پاک کردیا ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بجائے اگر وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہوں تو وہ یکساں طور پر سب کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ نواز شریف صاحب دو بار وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ لیکن اگر وہ اس ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں تو خود انھیں صدر بن جانا چاہیے اور وزارت عظمیٰ کی کرسی جناب شہباز شریف کو دے دینی چاہیے کہ یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے اور آخر میں ان سے اور عمران خان سے یہ بھی درخواست کروں گی کہ وہ دونوں ملکی مفاد میں مل کر حکومت بنائیں۔

نواز شریف صاحب بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کو گلے سے لگالیں اور عمران خان اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے میاں صاحبان سے تمام تلخیاں بھلاکر معاملات طے کرلیں۔ تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے اتحاد کو پوری قوم سراہے گی۔ لیکن اگر چلے ہوئے کارتوسوں کو دوبارہ چلانے کی کوشش کی گئی اور چوروں کو دوبارہ ساتھ ملاکر مرکز میں حکومت بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ فاش غلطی ہوگی جو (ن) لیگ کے گراف کو آسانی سے نیچے گرادے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔