قومی پرچم کے انتخاب کا تاریخی قصہ

وجیہہ تمثیل مرزا  ہفتہ 11 اگست 2018
قیامِ پاکستان کے اگلے دن، 15 اگست 1947ء کے روز، عام لوگوں نے پاکستان کا پرچم اُٹھایا ہوا ہے۔ (فوٹو: ڈان آرکائیوز)

قیامِ پاکستان کے اگلے دن، 15 اگست 1947ء کے روز، عام لوگوں نے پاکستان کا پرچم اُٹھایا ہوا ہے۔ (فوٹو: ڈان آرکائیوز)

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے ملک میں گویا قومی پرچموں کی بہار آگئی ہے۔ گھروں اور عمارتوں پر قومی پرچم لہرا رہے ہیں تو گلی محلوں میں دکانوں پر چھوٹے بڑے، ہر طرح کے قومی پرچم دستیاب ہیں۔ کاپیوں پر چپکانے کےلیے قومی پرچم کے اسٹیکرز اور جیبوں پر لگانے والے قومی پرچم کے بیجز بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ سب کو پاکستان کے قومی پرچم، یعنی اس ’’سبز ہلالی پرچم‘‘ کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی جائیں۔

شاید آپ کو معلوم ہو کہ پاکستانی پرچم امیرالدین قدوائی نے قائداعظم کی ہدایت پر تیار کیا تھا اور اسے 11 اگست 1947 کے روز (پاکستان بننے سے 3 دن پہلے) قومی پرچم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا انتخاب کب اور کن طریقوں سے گزر کر ہوا؟ یہ بھی اپنے آپ میں ایک دلچسپ تاریخی قصہ ہے۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب انگریز کی جانب سے تقسیمِ ہند کا اعلان کیا گیا تھا۔ سردارعبدالرب نشتر مسلم لیگ کے زور آور سیاست دان تھے۔ اُن کی آپ بیتی کے مطابق وہ واحد فرد تھے جو پاکستانی پرچم کے بارے میں سب جانتے تھے۔ تقسیم ہند کا اعلان ہوتے وقت، جب سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اعلان تقسیم کی شرائط کے مطابق تقسیم کے حق میں تجویز منظور کی تو پاکستان کی طرف سے قائداعظم اور بھارت کی طرف سے پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس کمیٹی میں شامل کیے گئے۔ کمیٹی کے اجلاس عام طور پر صبح کے وقت وائسرائے کے گھر پر ہوا کرتے تھے اور سہ پہر کو پاکستانی نمائندے قائداعظم کے مکان پر (واقع اورنگ زیب روڈ دہلی) مشورہ کرنے کےلیے جمع ہوتے تھے۔ وہاں پر صبح کے نتیجے اور آئندہ اجلاس کے ایجنڈے پر غور کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر مسائل سے متعلق فیصلے کیے جاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن قائداعظم نے فرمایا:

وائسرائے نے ان کے ساتھ پاکستان کے پرچم کے متعلق بحث چھیڑی اور کہا کہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر رضامند ہیں کہ باقی نوآبادیوں (کالونیز) کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی ’’یونین جیک‘‘ کےلیے مخصوص کردیں۔ وائسرائے نے قائداعظم سے پاکستان کے رویّے سے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے رفقائے کار سے مشورہ کرکے وائسرائے کو مطلع کریں گے۔

سردار عبدالرب نشتر کے مطابق، انہوں نے عرض کی کہ:

انہیں یہ تجویز ماننی نہیں چاہیے کیونکہ ہماری کیفیت باقی برطانوی نوآبادیوں سے جدا ہے۔ وہ ممالک برطانوی لوگوں کے قبضے میں ہیں، انہیں برطانوی جھنڈے سے خاص تعلق ہے۔ ہم تو برطانیہ کے قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ نہ ہمارا نسلی تعلق ہے، نہ مذہبی۔ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا اور اس ملک کے پرچم میں ایک ایسے جھنڈے کو جگہ دینا جو ہماری غلامی کی یاد گار رہے گا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں صلیب موجود ہے، ہماری قوم کو کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہم سب اس پر متفق تھے کہ وائسرائے کی تجویز قبول نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ قائداعظم نے وائسرائے کو اطلاع دی کہ بھارت کا جو بھی جواب ہو، پاکستان متعدد وجوہ سے یونین جیک کو پرچم میں جگہ نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد یہ پوچھا گیا کہ جھنڈے سے متعلق ’’پاکستان کی کیا تجویز ہے؟‘‘

بالآخر یہ طے پایا کہ:

چونکہ پاکستان میں کئی اقلیتیں ہیں اس لیے اگر سب کی نمائندگی کےلیے علیحدہ علیحدہ رنگ یا نشان کے پرچم رکھے گئے توموزوں نہ ہوگا، بجائے اس کے ایک حصہ سفید رکھا جائے جو سب رنگوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح ایک تو سب اقلیتوں کی نمائندگی ہوجائے گی اور دوسرا پاکستانی میں سفید رنگ کا موجود ہونا ہمارے اسلامی ملک کی امن و صلح کی پالیسی کا بھی مظہر ہوگا۔ جب اس سلسلے میں قائداعظم نے وائسرائے سے گفتگو کی تواس نے مشورہ دیا کہ نیوی والے پرچم تجویز کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ چند دنوں کے بعد بحریہ والوں نے چھوٹے چھوٹے پرچم بنا کر بھیج دیئے لیکن وہ سب جھنڈے اس طرز کے نہیں تھے جیسی وہ چاہتے تھے۔ کئی دنوں تک نمونوں پر بحث ہوتی رہی۔ دوران گفتگو قائداعظم نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستان کے پانچ صوبوں کی نمائندگی کےلیے پرچم میں پانچ ستارے رکھے جائیں؟

سردارعبدالرب نشتر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ریاستوں کا الحاق ہوگا۔ چند روز تک اس پر طویل بحث رہی۔ جھنڈے کے مختلف نمونے بنائے گئے۔ مزید محنت اور مشوروں کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ قائداعظم کو جھنڈے کا ایک نمونہ خیال میں آیا جس کا ڈیزائن امیرالدین قدوائی نے تیار کیا اور ماسٹر الطاف حسین نے پہلا پرچم اپنے ہاتھ سے تیار کیا مگر کچھ عرصے بعد جھنڈے سے متعلق خاصی مشکلات پیش آئیں لیکن تب تک قائداعظم محمدعلی جناح رحلت فرما چکے تھے۔ مشکلات کا ذکرجب لیاقت علی خاں کی طرف سے وزراء اور اسمبلیوں کے سامنے پیش کیا گیا تو مسلسل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ پرچم کو اس کی اُسی حالت میں رہنے دیا جائے جس طرح مجلس دستور ساز میں فیصلہ کیا گیا۔

اس تمام قصے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس طرح پاکستان جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کیا گیا، اسی طرح ہمارا پرچم بھی بہت مشکلات سے گزر کر معرض وجود میں آیا تھا۔ ہمارا پرچم امن کی نشانی ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو جھنڈے میں موجود پانچ کونوں پر مشتمل ستارہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، توحید، یعنی پانچوں ارکان اسلام کی طرف اشارہ بھی ہے۔

ہمارے ملک میں بہت سے دن آتے ہیں جن پر قومی پرچم کو بڑی شان و شوکت سے لہرایا جاتا ہے۔ ایسا صرف یومِ قراردادِ پاکستان، یوم آزادی، اور یوم قائداعظم پر ہوتا ہے یا پھر جب حکومت کسی اور موقع پر لہرانے کا اعلان کرے۔ سرکاری دفاتر کے علاوہ، قومی پرچم جن رہائشی مکانات پر لگایا جا سکتا ہے ان میں ایوانِ صدر اور دوسرے ممالک میں پاکستانی سفارت کاروں کی رہائش گاہیں شامل ہیں۔ (ایوان صدر میں صدرِ پاکستان کی موجودگی پر قومی پرچم لہراتے رہتے ہیں جبکہ صدر پاکستان کی وہاں عدم موجودگی پر ایک پرچم اتار لیا جاتا ہے۔) مزید یہ کہ صوبوں کے وزراء اور گورنر بھی اپنی رہائش گاہوں پر قومی پرچم لگاسکتے ہیں جبکہ اُس ہوائی جہاز، بحری جہاز، یا اُس موٹر کار پر بھی قومی پرچم لہرایا جاتا ہے کہ جس میں صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان یا وفاقی وزراء سفرکررہے ہوں۔

یہ وطن بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے اور ہمارا عظیم پرچم ہماری پہچان ہے۔ موقع چاہے یومِ آزادی کا ہو یا یومِ قراردادِ پاکستان کا، اپنے پرچم کی حفاظت اور اس کا دل سے احترام ہمارا فرض ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وجیہہ تمثیل مرزا

وجیہہ تمثیل مرزا

بلاگر جامعہ پنجاب میں صحافت (جرنلزم) کی طالبہ ہیں۔ ٹیم پیغام پاکستان اور ڈیفنس پاکستان کے تحت منعقد ہونے والے مقابلہ نظم و نثر میں تیسری پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ قبل ازیں آپ گوجرانوالہ آرٹس کونسل کے تحت تحریری مقابلے میں پہلی پوزیشن کے علاوہ اسلام آباد اسکول آف انٹرنیشنل لاء کے تحت منعقدہ مقابلہ مضمون نگاری میں بھی پانچویں پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔