سیاسی جوڑ توڑ

جاوید قاضی  ہفتہ 4 اگست 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اور آخر تمام حزب اختلاف ایک ہی چھتری تلے جمع ہوگئے۔ اس اتحاد کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت ہے، تاریخی اعتبار سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ مخصوص حالات کے پیش نظر یہ اتحاد کیا گیا کہ الیکشن میں بے پناہ دھاندلی ہوئی اور اس دھاندلی زدہ الیکشن کے نتائج سے ایک شخص کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ وہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ وہ اب بائیکاٹ کے موڈ میں نہیں، جس طرح اس اتحاد سے پہلے ماحول اور تاثر تھا۔ بینظیر نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات سے اس وقت کے سیاسی اتحاد یعنی ایم آر ڈی نے بائیکاٹ کیا تھا، جس کو بینظیر نے بعد ازاں اپنی سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دیا تھا۔

آج کا یہ سیاسی اتحاد اتنا طاقتور ہے کہ وہ سینیٹ کے چیئرمین کو اڑا سکتا ہے۔ یوں کہیے پاکستان پیپلز پارٹی نے جو پی ٹی آئی سے اتحاد کیا تھا اور ساتھ مل کے چیئرمین سینیٹ لائے تھے۔ پیپلز پارٹی کا یہ قدم اسٹیبلشمنٹ دوستانہ تھا، جب کہ ان کو پی ایم ایل نون کی بھرپور آفر تھی کہ وہ رضا ربانی کو لائیں اور وہ ان کی حمایت کریں گے لیکن آصف زرداری نے رضا ربانی کا نام سن کر کسی پریس کانفرنس میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔

بہت سے سیاسی پنڈتوں کا یہ خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کسی بھی ایک سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، جس سے یہ تاثر آیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی یا خود پی ٹی آئی کی بنی ہوئی حکومت کے خلاف پی ایم ایل نون کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ زرداری اور فریال تالپور پر منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے جو ایف آئی اے تفشیش کر رہی ہے یا کیس داخل ہوا ہے اس کے بعد پارٹی نے اپنا مؤقف بدلا ہے اورکہیں بیچ میں یہ افواہیں پھیلیں کہ ممتاز بھٹو کو سندھ کا گورنر بنایا جائے گا۔ ان تمام حالات اور حرکات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کیا اور پی ٹی آئی چونکہ سندھ میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھر رہی ہے، اس کو بھی خطرہ جانا۔

اس بات میں ابہام نہیں کہ اس ملک میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے سیاسی ہدف آسانی سے حاصل کیے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی طرف لائے اور شیخ مجیب سے چھٹکارا حاصل کیا۔ اس کی ہمیں قیمت کس قدر ادا کرنی پڑی وہ ایک الگ بحث ہے۔ پھر نیپ سے چھٹکارا حاصل کیا (لیکن اس میں بھٹو کی رضامندی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ تھی) پھر قومی اتحاد بنوایا گیا اور بھٹو سے چھٹکارا حاصل کیا، ملک پر آمریت مسلط کی گئی، پھر نواز شریف کے ذریعے بینظیر اور بینظیرکے ذریعے نواز شریف اور آخرکار عمران خان کے ذریعے دونوں یعنی پی ایم ایل نون اور پیپلزپارٹی، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمان اور حاصل بزنجو ان تمام کو ایک ہی ساتھ دیوار سے لگایا، مگر یہ حقیقت اتنی سادہ بھی نہیں اور ضروری نہیں کہ ان کو ہروایا گیا ہو۔ جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ آج سے پہلے جو بھی اسٹیبلشمنٹ نے حکمت عملی بنائی اس میں امریکا کا آشیرواد ہوتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے امریکا کے کہنے پر بینظیر کی حکومت بنانے میں مشکلات پیدا کیں اور پھر این آر او بھی کیا۔ بھٹوکو ہٹانا بھی براہ راست سی آئی اے کا آپریشن تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست میں نہ صرف ہماری اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہے بلکہ اس میں بیرونی طاقتوں کا بھی عمل دخل رہا ہے۔ ہماری مذہبی پارٹیاں سعودی عرب کے زیر اثر رہیں اورابھی تک ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود سعودی عرب ان سے اب جان چھڑا نا چاہتا ہے، خود بینظیر نے امریکا میں بھرپور لابنگ کی، یہ ان ہی کا کارنامہ تھا جس نے امریکا کو باورکروایا کہ جنرل مشرف کا آمریتی دور مذہبی انتہاپسندی کوکچلنے کے بجائے اس کو مزید جواز پیدا اور فراہم کر رہا ہے۔

آج اسٹیبلشمنٹ اور امریکا ایک پیج پر نہیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ پاکستان کو قرضے نہ دیے جائیں۔ لیکن چائنا جب ہمارے لیے ایک بہت بڑی لائف لائن بن کر ابھرا تو چین کے ساتھ بھی امریکا نے ٹریڈ جنگ کا آغاز کر دیا۔ جس نے چین کی معشیت پر منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے بیرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم نے ہماری آزاد حیثیت کو شدید کمزور کردیا ہے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ ہماری بنتی ہوئی حکومت ہو یا اس کے خلاف گرینڈ سیاسی اتحاد، یہ دونوں داخلی عمل ہیں اور دونوں ملک سے محبت کرتی ہوئی قوتیں ہیں۔

دراصل ہماری ترقی اس وقت سی پیک سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سارے عمل میں شفافیت کی اشد ضرورت ہے۔ سی پیک کے خلاف بین الاقوامی سازشیں ہورہی ہیں ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح امریکا کی غلام نہیں ہے۔ امریکا کا ہندوستان کی طرف جھکاؤ ایک ایسا عمل تھا جس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا اور اس طرح ہم نے اپنے زمینی حقائق کے تناظر میں اپنی حکمت عملی دوبارہ بنائی۔ ہم سب کو اس بڑھتے ہوئے چیلنجز کے لیے ایک پیج پر آنا ہوگا۔ یہ ملک کسی اور سیاسی بحران کا یا ٹکراؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے سب کو رنگ کے اندر رہتے ہوئے کھیلنا ہوگا۔

ہم نے بہت سے ہدف پورے بھی کیے۔ انتہا پرستی کے طوفان پر قابو پایا۔ اب ہمارے لیے معیشت کو سنبھالنے کے لیے راستے کھلے ہیں لیکن ہماری پالیسی میں بہت بڑے نقائص ہیں۔ ہمیں اپنی معشیت کو ایکسپورٹ کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے انسانی وسائل کے معیار کو اور بہتر بنانا ہوگا۔ ایک ایسی حکمت عملی دینی ہوگی جو اس ملک کو دس سال کے لیے سات فیصد شرح نمو پر لے جائے۔

اس وقت ایک ایسی پارلیمنٹ نے جنم لیا ہے جہاں پاکستانی تاریخ کی مضبوط ترین حزب اختلاف بیٹھے گی۔ ایک لحاظ سے یہ ہماری جمہوریت کے لیے اچھا شگون ہے، اگر اس کو تعمیری انداز سے بروئے کار لایا جائے۔ خان صاحب نے اپنا کردار بحیثیت اپوزیشن بہت ہی مخصمانہ رکھا۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر تو تیسری پوزیشن پر تھے لیکن ان کا کردار اتنا متحرک نہیں تھا، کیونکہ انھوں نے اپنا کردار ایوانوں کے باہر زیادہ ادا کیا۔

متحدہ اپوزیشن اپنے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کے امیدوار آگے لائے گی اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اپوزیشن کون ہے۔ کیونکہ کوئی بھی اپنا وزیراعظم کا امیدوار جتوا سکتا ہے یا جو ہارے گا وہ چند ووٹوں سے ہارے گا۔ اصولی طور پر حکومت بنانے کی پہلی دعوت اس پارٹی کو ملنی چاہیے جو پارٹی سب سے زیادہ نشستیں لے کر اسمبلی میں آئی ہے، جہاں وہ اگر وزیراعظم لانے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اتحادی پارٹیوں کو دعوت دی جائے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آیندہ دنوں میں پیپلزپارٹی حزب اختلاف کا کردار نبھا سکے گی یا پھر کہیں ایسا نہ ہوجائے جیسے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں ہوا تھا۔ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر بلاول بھٹو کرنسی بن کر ابھر رہے ہیں۔ جو سیٹیں پیپلز پارٹی جیتی ہے اس کے پس منظر میں بلاول بھٹو کو کامیاب الیکشن کیمپین ہے۔ اس پارٹی کے آگے نکلنے کے بہت چانسز ہیں، اگر زرداری اور ان کی ہمشیرہ کا کردار اور دخل اندازی کوکم کیا جائے۔

ایک طرف یہ پارٹی سوچتی ہے کہ نواز شریف کی طرح ٹکراؤ کی سیاست بھی غلط ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ان کے اپنے کچھ ویسٹیڈ انٹریسٹ ہوں، مگر ماضی کے اعتبار سے پیپلز پارٹی اب بہت مختلف اور تعمیری سوچ رکھتی ہے۔ بہرحال اس وقت سب کو ایک ساتھ چلنا ہوگا کہ ملک کو بیرونی خطرات سے بچایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔