دہلی کے کتب خانوں کی بربادی

 ہفتہ 4 اگست 2018
1739ء میں نادر شاہ نے جب دہلی میں خوں ریزی اور غارت گری کی تو کُتب خانوں میں رکھے نوادر بھی ایران لے گیا۔ فوٹو: فائل

1739ء میں نادر شاہ نے جب دہلی میں خوں ریزی اور غارت گری کی تو کُتب خانوں میں رکھے نوادر بھی ایران لے گیا۔ فوٹو: فائل

جس طرح بغداد، قرطبہ اور قاہرہ کے مدرسے اور کتب خانے اپنی اپنی سلطنتوں کے ساتھ نیست و نابود ہوئے اسی طرح مُغلوں اور دیگر مسلم حکم رانوں کے یہ ادارے بھی انہی کے ساتھ فنا ہو گئے۔

1739ء میں نادر شاہ نے جب دہلی میں خوں ریزی اور غارت گری کی تو کُتب خانوں میں رکھے نوادر بھی ایران لے گیا۔ 1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور دہلی کو لوٹا۔ 1778ء میں غلام قادر روہیلے نے بہت سی نادر کتابیں کُتب خانۂ شاہی سے لُوٹیں اور 1857ء میں بھی بے شمار کتابیں ضایع ہوئیں۔ دہلی کے کتب خانوں کی بربادی کی ایک جھلک شمس العلماء مولوی ذکاء اﷲ دہلوی کی اس تحریر میں دیکھیے۔

’’بارہ بجے کالج کے کتب خانے لٹنے شروع ہوئے۔ لُٹیرے عربی، فارسی، اردو وغیرہ کی کتابوں کے گٹھر باندھ کر کتب فروشوں، مولویوں اور طالب علموں کے پاس بیچنے لے گئے۔ بعض طلباء بھی اچھی اچھی کتابیں لے گئے۔ لوگوں نے کتابوں کے اچھے اچھے پٹھے اتار لیے کہ جلد سازوں کے ہاتھ بچیں گے، باقی کو پھاڑ کر پھینک دیا اور احاطہ میں کئی انچ موٹا فرش ردی کا بچھا دیا، غرض کالج میں سوائے ردی کے کچھ نہ تھا۔‘‘ اسی طرح دہلی کے کتب خانے لوٹے اور جلائے گئے، جو کتابیں بچ رہیں وہ کوڑیوں کے مول بکیں۔ کچھ انگلستان وغیرہ بھی بھیج دی گئیں۔

مُغلوں کے علاوہ سلطان ٹیپو وغیرہ کے کتب خانوں کی بہت سی کتابیں انگلستان بھیجی گئی تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دہلی میں ہزاروں مسلمان قتل ہوئے اور ہزاروں کتابیں بھی برباد ہوئیں۔ دہلی کے صدر الصدور مفتی صدرالدین اور محمد حسین آزاد کے والد محمد باقر کے قیمتی کتب خانے بھی اسی زمانہ میں برباد ہوئے۔

( محمد زبیر، علی گڑھ کی کتاب اسلامی کتب خانے سے خوشہ چینی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔