عروج بخت مبارک ہو، مگر دھیان رہے

شاہد سردار  اتوار 5 اگست 2018

کہتے ہیں کہ سیاست وقت وقت کا کھیل ہے۔ آج کا تاجدار کل تختہ دار پر بھی ہوسکتا ہے یا پھرکسی گمنام وادیوں کا راہی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ کیجیے۔کئی ایسی شخصیات اور جماعتیں جو کسی دور میں سیاست کا مرکز ہوا کرتی تھیں، آج لوگ ان کے نام تک بھول گئے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنے والی قیادت اپنی خواہشات کی غلام نکلی ، یہاں تک کہ نہ وہ پاکستان کے صوبوں کو باہم متحد رکھ سکی اور نہ ہی صوبوں کے مفادات کو تحفظ دے سکی اس نے صرف اپنے مفادات کے بچاؤ کا کھیل کھیلا اور سیاست پر حاوی اور موجود رہنے کے گُر  سیکھے۔ دراصل اقتدار میں کچھ اس طرح کی لذت اور کشش ہوتی ہے کہ لوگ نقصان کے باوجود اپنے قریبی عزیزوں کے قتل اور ہر قسم کی سختیوں کے باوصف اقتدار کے حصول کی خواہش ترک نہیں کرتے۔

مملکت پاکستان کے گیارہویں الیکشن میں عمران خان نے تبدیلی بلکہ غیر معمولی تبدیلی کا ایک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ قائم کیا ہے، آج تک کے واحد سیاست دان ہیں جو ایک ہی الیکشن میں تین صوبوں کے پانچ مختلف حلقوں سے کامیاب ہوئے ۔اس سے قبل پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو 1970 میں پانچ حلقوں سے کھڑے ہوئے تھے جہاں انھوں نے چار حلقوں سے کامیابی حاصل کی لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مفتی محمود کے مقابلے میں ہار گئے تھے لیکن عمران خان نے پانچ حلقوں سے کامیابی سمیٹ کر زیادہ حلقوں سے کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور ایک نئی سیاسی تاریخ مرتب کی ہے۔

غورکیا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں 25 تاریخ اور بدھ کا دن بہت ہی اہمیت کا حامل چلا آرہاہے ۔ 16 نومبر 1988 کے عام انتخابات بدھ کے روز ہی ہوئے جس میں بے نظیر اسلامی ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ 6 اکتوبر 1993 کو بدھ کے دن پیپلزپارٹی دوسری بار عام انتخابات میں کامیاب ہوئی، پاکستان کرکٹ کے بین الاقوامی اہمیت کے حامل کھلاڑی عمران خان جوکپتانی کے منصب پر بھی فائز رہے ان کی زندگی میں بھی 25 کا ہندسہ نیک شگون کی علامت ہے۔

25 مارچ 1992 کو پاکستان عمران خان کی کپتانی میں پہلی بارکرکٹ کا ورلڈ چیمپئن بنا اور اس روز بدھ کا دن تھا۔ عمران خان نے جب سیاست میں قدم رکھا تو اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد بھی 25 اپریل 1996 کو ہی رکھی تو، عمران خان نے اسلام آباد میں جاری اپنا سیاسی دھرنا جو 126 دنوں پر مشتمل تھا ۔ 17 دسمبر 2014 کو بدھ ہی کے روز ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور 25 تاریخ کو بدھ ہی کے دن وہ اپنے جماعت کے ساتھ بھاری اکثریت سے عام انتخابات جیت کر 25 تاریخ اور بدھ کے دن کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے۔

عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد 25 اپریل 1996 کو لاہور میں رکھی اور 22 سال کی زبردست سیاسی جدوجہد کے بعد اپنے خواب کی تعبیر حاصل کی ہے۔ خاص طور پر پچھلے پانچ برسوں کے دوران انھوں نے رائے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے اور عوام بالخصوص نئی نسل کے نوجوانوں اور خواتین کو اپنی جانب کرنے کا جو وصف اپنی ذات اور اپنے سیاسی ویژن کے حوالے سے پیش کیا۔ اس سے نئی نسل ان کی گرویدہ ہوگئی، ثبوت کے طور پر پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کو ان کے سیاسی گڑھ میں اپ سیٹ شکست سے دو چار کر دیا۔

متحدہ قومی موومنٹ اپنے گھر عزیز آباد اور پیپلزپارٹی اپنے گڑھ لیاری میں شکست کھاگئی۔ یوں عمران خان نے کراچی میں ایک ہی بال پر بلاول بھٹو ، فاروق ستار، مصطفی کمال اور شہباز شریف کی نشستیں اڑاکر اب بھی خود کو ’’ فاسٹ بالر ‘‘ ثابت کیا ہے۔ بلاشبہ انھوں نے سیاست میں غصے، عدم برداشت اور لفظوں کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کا ایک نیا لیکن قابل اعتراض ٹرینڈ دیا لیکن اپنی پارٹی کو عوام کے مسائل حل کرنے والی پارٹی کے طور پر پیش کرنے کے لیے انھوں نے جان توڑ محنت کی اور عوام نے اس بار صرف اور صرف ’’تبدیلی‘‘ کے لیے ہی اپنے لیڈر کو تبدیل کیا ہے ،اپنے ووٹوں کے ذریعے پاکستانی قوم نے الیکشن 2018 میں نئی قیادت کا چناؤ نہیں کیا ہر قیمت پر جمہوری اقتدار کے استحکام کا فیصلہ بھی دے دیا ہے۔

چشم فلک نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران خان کو متوقع وزیراعظم کے طور پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا ہے وگرنہ روایت تو یہ رہی ہے کہ صدر مملکت سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم قوم سے خطاب کرتا ہے ،اس موقعے پر قومی ترانہ بھی بجایا جاتا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ ان کی خود اعتمادی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن انھیں اس شعر کے معنویت پر بھی توجہ دینی ہوگی۔

عروج بخت مبارک ہو مگر دھیان رہے

انہی دنوں کے تعاقب میں ہے زوال کا دن

عمران خان کو اپنی وزارت عظمیٰ کی نئی شیروانی زیب تن کرتے ہوئے اس بات کو بھی اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ جب آپ اپنی قوم کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے تو آپ ساری دنیا کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب آپ اپنی قوم کے سامنے جوابدہ ہوں تو پھر دنیا آپ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ قوم کے سامنے جواب دہ ہوکر آپ دنیا کے سامنے جوابدہی سے بچ جاتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جو ہمارے حکمرانوں کو نہ کبھی قبول رہی ہے اور نہ ہی اسے انھوں نے کبھی پسند کیا ہے۔ کیونکہ ان کا مزاج شاہانہ اور آمرانہ رہا ہے وہ اپنے عوام کے سامنے جواب دہی کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔

عمران خان نے اپنے پہلے قوم سے خطاب کے دوران اپنے لب و لہجے اور باڈی لینگویج کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ہے اور اسے بھی ’’ تبدیلی‘‘ سے وہ موسوم کیا جائے گا۔ بڑی عاجزی، بڑے احسن طریقے سے انھوں نے پاکستان کو درپیش جن ہمالیہ پہاڑ جیسے بلند مسائل کی نشاندہی کرکے اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے وہ اپنی جگہ قابل حیرت اور قابل ستائش دونوں ہی کہاجاسکتا ہے۔ عمران خان کی گردن ہمیں ذمے داریوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی نظر آئی ، یقینا ان کا اصل امتحان اب شروع ہوگا۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ انھوں نے جوکچھ کہا وہ کر پائیںگے یا نہیں؟ انتخابات میں فتح یاب ہونے کے بعد عمران خان کا ذاتی رویہ اور ان کے عوامی اقدامات کی سخت ہڑتال ہوگی، عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانا ہے، افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ اس مملکت خداداد میں تقریباً ہر اہم، بڑے اور حساس اداروں کے ساتھ ہر جگہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے کام پر اندھوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی۔

عمران خان کا پہلا کام یہی ہے کہ اس خستہ بدن ملک کو گدھوں اور نالائقوں سے نجات دلائی جائے، اس کے زخموں کو پوری دیانت داری سے رفوکیا جائے، وہ اقتدار جسے ظلم و زیادتی اور نا انصافی نے پروان چڑھایا، جس کی مہنگائی اور کرپشن نے تربیت کی، جو نا انصافیوں اور استحصال کی آغوش میں پلا بڑھا ایسے اقتدار کو انھوں نے ہر قسم کے مرض سے نجات دلاکر اسے سنبھالنا ہے۔ ہمارے ملک کی 71 سالہ تاریخ سازشوں کا قبرستان بن چکی ہے اس کو بلڈوز کرنا بھی انہی کی ذمے داری بنتی ہے۔

کچھ لوگ تاریخ سیاہی سے لکھتے ہیں اورکچھ اپنے خون جگر سے، تاریخ لکھنے والوں کے نام بھی موجود ہوتے ہیں اور تاریخ بنانے والوں کے بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی حکمت عملیوں سے وطن عزیز میں کس طرح کی تاریخ رقم کریں گے؟

عمران خان کو خوشامدیوں اور غلط شہرت رکھنے والوں سے بھی خود کو یکسر الگ رکھنا ہوگا اور انھیں ان غلطیوں سے کنارہ کش رہنا ہوگا جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں کے زوال کا سبب بنیں ویسے بھی ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کی روایت ابھی تک قائم نہیں ہوئی ہے۔ اگر وہ عوام کی امید بنے ہیں تو انھیں عوام کی امیدوں پر بہر طور پورا اترنا ہوگا اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسری جماعتوں کے فہمیدہ لوگوں کی فہم و فراست سے مدد لینی ہوگی۔

عمران خان جوشیلے ہیں اور بڑی حد تک کھرے انسان بھی ہیں لہٰذا انھیں ہماری دانست میں ایک نیا شوکت خانم اسپتال تعمیرکرنا چاہیے جس میں نظریات اور سوچوں کے کینسر کا علاج کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔