ثریا جمال شیخ

رئیس فاطمہ  اتوار 5 اگست 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

برصغیر کی تقسیم سے قبل بمبئی (ممبئی) کی فلمی دنیا میں گلوکاری اور اداکاری کے حوالے بہت سے نام نظر آتے ہیں، جنھوں نے اپنے کام کا لوہا منوایا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ محنت کرکے اپنا مقام بناتے تھے۔ چاہے اداکار ہوں یا اداکارہ، گلوکار ہوں یا گلوکارہ، میوزک ڈائریکٹر ہوں یا پروڈیوسر نامور لوگوں کی ایک کھیپ نظر آتی ہے۔ جن میں سے آج کوئی بھی موجود نہیں، لیکن ان کا فن زندہ جاوید ہے۔

ثریا جمال شیخ فلمی دنیا کا وہ چمکتا نام ہے جس نے اداکاری اورگلوکاری دونوں حوالوں سے اپنی پہچان بنائی۔ ثریا کے والدکا نام عزیز جمال شیخ اور والدہ کا ممتاز بیگم تھا۔ وہ گجرانوالہ (برٹش انڈیا) میں 15 جون 1929ء میں پیدا ہوئیں۔ ثریا ایک بے حد خوبصورت اور پرکشش اداکارہ تھیں اللہ نے دونوں ہاتھوں سے نہ صرف حسن کی دولت دی تھی بلکہ آواز بھی بہت سریلی دی تھی، بڑی بڑی غلافی آنکھیں اور ان میں ایک عجیب سی گہرائی جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتی تھی۔ ثریا حادثاتی طور پر اداکارہ اور گلوکارہ بنی۔ ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور ثریا کے ماموں ظہور بھارتی فلمی دنیا میں ولن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ثریا کو فلمی دنیا میں لے آئے۔ کے آصف کی فلم ’’سنجوگ‘‘ کے لیے ثریا نے تین پلے بیک دیے اس وقت اس کی عمر صرف بارہ برس تھی اور یہ گانے مشہور اداکارہ مہتاب پر فلمائے گئے تھے لیکن اس کے بعد انھوں نے صرف اپنی فلموں کے لیے گایا۔ شہرت اور دولت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی تھی۔

ایک بار فلم ’’ممتاز محل‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی اور ثریا بھی وہاں اپنے ماموں کے ساتھ موجود تھی یہ 1941ء کی بات ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر نانو بھائی وکیل نے ثریا کے چہرے کی معصومیت اور تابناکی محسوس کی اس خوبصورت اور پیاری بچی کو ممتازمحل کے بچپن کا رول آفرکردیا۔ موسیقار اعظم نوشاد کا کہنا ہے کہ ثریا کا سب سے پہلا پلے بیک فلم ’’ نئی دنیا ‘‘ کا تھا۔ اے۔آر کاردار یہ فلم بنا رہے تھے جس میں ایک بوٹ پالش کرنے والے لڑکے پرگانا پکچرائز کروانا تھا، نوشاد ثریا کو لے گئے اور انھوں نے یہ پہلا پلے بیک ریکارڈ کروایا۔ بوٹ کروں میں پالش بابو بوٹ کروں میں پالش۔

راج کپور اور دیو آنند ان سے تقریباً پانچ چھ سال بڑے تھے۔ وہ ثریا کے بچپن کے ساتھی بھی تھے اور ہمسائے بھی۔ قریب ہی مشہور کمپوزر مدن موہن بھی رہتے تھے۔ راج کپور اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں بچوں کے پروگراموں میں حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے ثریا کو بھی مشورہ دیا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو جوائن کرلیں۔ اس زمانے میں زیڈ اے بخاری بمبئی ریڈیو کے سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ ثریا کو انھوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر یوں ہوا کہ ریڈیو پر ثریا کی آواز نے نوشاد علی کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ پھر ثریا نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ایک کے بعد ایک فلم ان کو ملتی گئی، اپنے وقت کے تمام بڑے بڑے ہیروزکے ساتھ انھوں نے کام کیا اور گلوکاری سے فلموں کو مزید مقبول بنایا۔ لوگ آج بھی ثریا کے گائے ہوئے گیت شوق سے سنتے ہیں۔ یہ پیدائشی فنکارہ تھیں۔ قدرت نے سُروں کی مالا ان کے گلے میں پیدائش کے وقت ہی ڈال دی تھی۔ ثریا نے موسیقی کی تعلیم کہیں سے بھی حاصل نہ کی تھی۔ ان کی آواز قدرت کا عطیہ تھی۔ ثریا کے گیت سن کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ گانے والی نے گانے کی کوئی تربیت نہیں لی۔البتہ رقص کی ٹریننگ انھوں نے ماسٹر ممتاز سے لی جو خود بہت ہی اچھے رقاص اور اداکار تھے اور مشہورکامیڈین محمود اور ڈانسر و اداکارہ مینو ممتاز کے والد تھے۔ فلم ’’صاحب بی بی اور غلام‘‘ میں مشہور کورس ’’ساقیا آج تجھے نیند نہیں آئے گی‘‘ پر مینو ممتاز ہی نے ناقابل فراموش رقص کیا ہے۔

دلیپ کمار، دیو آنند، راج کپور اور اشوک کمار کی فلموں کا معاوضہ ثریا کے معاوضے سے کم ہوتا تھا۔ ثریا اس وقت ایک فلم کا معاوضہ ایک لاکھ لیتی تھیں جو اس وقت کوئی دوسرا اداکار یا اداکارہ نہیں لیتے تھے۔ خوش آواز، خوبصورت ثریا اپنے گانوں کا معاوضہ بھی دوسری گلوکاراؤں کے مقابلے میں زیادہ لیتی تھیں۔ وہ اداکاری اور گلوکاری دونوں میدانوں کی شہ سوار تھیں۔ فلم مرزا غالبؔ میں کام کرنے پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے انھیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا : ’’تم نے تو مرزا غالبؔ کی روح کو زندہ کردیا۔‘‘

ثریا کو ملنے والے اعزازات اور خطابات میں ’’کوئین آف میلوڈی‘‘، ’کوئین آف بیوٹی، کوئین آف ایکٹنگ‘جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ ثریا نے زیادہ تر فلموں کے گیت نوشاد علی کی موسیقی میں گائے۔ اپنے کیریئر میں تقریباً 340 گیت فلموں میں گائے۔ غیر فلمی غزلیں، گیت اور نعتیں الگ ہیں۔ اس کے علاوہ 1948ء میں فلم ’’ کاجل‘‘ میں اداکاری پرگولڈ میڈل دیا گیا۔ مرزا غالبؔ پر صدارتی گولڈ میڈل ایوارڈ دیا گیا ۔ 1996ء میں اسکرین ویڈیو کون لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ اردو اکیڈمی دہلی اور سابقہ اکیڈمی نے بھی مرزا غالبؔ میں اداکاری اور گلوکاری پر ایوارڈ دیے گئے۔ اس کے علاوہ انھیں Singing Super Star کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ثریا جی کو بمل رائے میموریل ٹرافی بھی دی گئی۔ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کی بھی حقدار ٹھہریں۔ Best of Screen Beauty کا خطاب بھی ملا۔ اس کے علاوہ 3 مئی 2013ء میں انڈین گورنمنٹ نے 5 روپے کا ڈاک کا ٹکٹ بھی جاری کیا جس پر ثریا کی تصویر تھی۔ ثریا نے بے شمار فلموں میں کام کیا جن میں دل لگی، جیت، افسر، بڑی بہن، انمول گھڑی، مرزا صاحباں، داستان، درد، تدبیر، پھول، شاعر،کنول کے پھول، پیارکی جیت، پروانہ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ثریا اپنے زمانے میں اتنی مقبول تھیں کہ بمبئی (اب ممبئی) میں ان کے گھر کے سامنے ہمیشہ لوگوں کا ہجوم رہتا تھا جو ثریا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں وہاں کھڑے رہتے تھے۔ بعض اوقات ٹریفک کے مسائل پیدا ہونے کی صورت میں پولیس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑتا تھا۔ یہی صورتحال ثریا کی فلموں کے پریمیئر شو پر بھی ہوتی تھی اور پولیس کو باقاعدہ کنٹرول سنبھالنے کے لیے کانسٹیبل وغیرہ متعین کرنے پڑتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہالی وڈ کا ایک خوبرو ہیرو گریگوری پیک جس نے Roman Holiday میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ثریا کا شیدائی تھا وہ ثریا سے ملنے بمبئی بھی آیا تھا اور شادی کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن ثریا نے انکار کردیا تھا کیونکہ وہ کسی اور کو چاہتی تھی۔

ان سب فتوحات کے باوجود ثریا کی ذاتی زندگی میں کوئی خوشی نہ تھی۔ وہ اور دیو آنند ایک دوسرے کو دل سے چاہتے تھے۔ ثریا کی یہ ادا بھی قابل غور ہے کہ اس کا اسکینڈل کسی کے ساتھ نہ بنا۔ البتہ دیو آنند اسے بہت چاہتا تھا۔ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران دیو آنند نے ہیرے کی انگوٹھی ثریا کی انگلی میں پہنا دی۔ جس کی بھنک ثریا کی نانی کو پڑ گئی اور انھوں نے انگوٹھی کو سمندر میں پھینک دیا اور دیو آنند سے شادی نہ ہونے دی۔ دونوں کی آخری ملاقات بہت تکلیف دہ تھی۔ دونوں خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے اور پھر کبھی نہ ملنے کا عہد کرکے ہمیشہ کے لیے الگ ہوگئے۔ دیو آنند نے کلپنا کارتک سے شادی کرلی لیکن ثریا نے ساری عمر یوں ہی گزاردی ۔ تنہائی اور محبت میں ناکامی کا دکھ ان کے گیتوں میں بھی جھلکنے لگا۔

(1)۔ تم مجھ کو بھول جاؤ، اب ہم نہ مل سکیں گے

(2)۔او لکھنے والے نے لکھ دی مری تقدیر میں بربادی لکھنے والے نے

(3)۔وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں

(4)۔ سوچا تھا کیا، کیا ہوگیا

(5)۔میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا

(6)۔جب تم ہی نہیں اپنے دنیا ہی پرائی ہے

ان کے علاوہ فلم مرزا غالبؔ میں گائی ہوئی تمام غزلیں بے حد مقبول ہوئیں خاص طور سے ان غزلوں کا تو جواب نہیں:

(1)۔نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

(2)۔دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

(3)۔ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

وقت گزر گیا حسن ماند پڑ گیا تنہائی کے ناگ لہرا اٹھے لیکن ثریا اپنے روشن ماضی میں زندہ تھی۔ اگر کوئی غلطی سے اس کے کمرے کی کھڑکی بند کرنا چاہتا تو وہ روک دیتی تھی کہ اسے یقین تھا کہ اس کی ایک جھلک دیکھنے والے اب بھی سڑک کے اس پارکھڑے ہوں گے۔ وہ اس تلخ حقیقت کو بھول گئی تھی کہ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ خاص طور سے فلمی دنیا بڑی ظالم ہے روشنیوں کے آئینے جوں ہی چکنا چور ہوتے ہیں صورتیں بگڑ جاتی ہیں۔

آج کے دور میں حیرت ہوتی ہے یہ جان کرکہ ثریا نے اپنی نانی کی مرضی کے خلاف شادی نہ کی اور پوری زندگی یوں ہی گزار دی ، جب کہ آج کے ماحول میں شریف گھرانوں کی لڑکیاں ماں باپ کے آگے تن کرکھڑی ہوجاتی ہیں اور رشتوں سے انکارکردیتی ہیں اور من پسند امیدوارکو سامنے لاکھڑا کرتی ہیں ۔ ہر دورکی اپنی شائستگی ہوتی ہے، اپنے معیار اور تہذیب ہوتی ہے وہ فلمی دور تھا لیکن ایک رکھ رکھاؤ تھا۔

ثریا اور دیو آنند نے اکٹھے سات فلموں میں کام کیا جن میں افسر، دو ستارے، صنم، ودیا، شاعر، نیلی اور جیت شامل ہیں ۔ ثریا نے جس طرح اور جس شان سے فلمی دنیا پہ راج کیا اس کے آس پاس بھی کوئی ہیروئن نہ پہنچ سکی ۔ فلم دل لگی کی کامیابی کے بعد ثریا کا معاوضہ تمام ہیرو اور ہیروئنوں سے زیادہ تھا ۔ ثریا نے اشوک کے ساتھ فلم ’’واجد علی شاہ‘‘ میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ فلم ’’بلوامنگل‘‘۔۔۔۔انعام، وارث، شمع پروانہ،کنچن، مسٹر لمبو، ٹرالی ڈرائیور، مالک، شمع اور مس 1958ء بھی قابل ذکر ہیں۔

اپنی تنہائیوں کے ساتھ جیتی ہوئی ثریا 2004ء میں یہ دنیا چھوڑ گئی۔ پتہ نہیں اس کے عالی شان مکان کا کیا ہوا؟ کیونکہ والد تو 1963ء میں انتقال کرگئے تھے اور بھائی بہن کوئی تھا نہیں۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ دلیپ کمار کے ساتھ صرف ایک فلم ’’جانور‘‘ میں کام کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر ثریا نے وہ فلم چھوڑ دی۔ البتہ گلوکاری میں مناڈے،  مکیش، رفیع اور طلعت محمود کے ساتھ دوگانے گائے اور خوب داد سمیٹی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔