متروکہ املاک کی زمین اور سرکاری ملازمین کے گھر

کشور زہرا  پير 6 اگست 2018

گزشتہ حکومت میں ایک سرکاری ملازم نے اپنے ہی دفتر کی چھت سے چھلانگ لگا کر صرف اس بات پر خودکشی کرلی کہ اس کے بیٹے کو ملازمت نہیں دی گئی تھی اور خود اس کی اپنی ریٹائرمنٹ بہت قریب تھی۔ خودکشی کا سبب ملازمت نہ ملنا نہیں بلکہ ایک خوف تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کی صورت میں وہ اپنے خاندان کو کہاں لے کر جائے گا؟ اورکس جگہ رہے گا؟

میں ہجرت کرکے آنے والے ایک سرکاری ملازم کی بیٹی ہوں۔ ابتدائی عمر ایسے خاندان کے ساتھ گزاری جو ہم سے کچھ عرصہ قبل پاکستان آکرسرکاری ملازمت حاصل ہونے کی وجہ سے پولیس لائن کے کوارٹرز میں آباد ہوگئے تھے۔ وہ گھر سرکاری ہونے کے سبب اپنا سا لگا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہی تھی کہ پاکستانی سرکار، اپنی سرکار تھی اور یہ مکان اس ہی کی ملکیت تھا۔ میرے والد کو بھی کچھ عرصے بعد پو لیس میں ملازمت تو مل گئی لیکن گھر نہ مل سکا اور بالآخر ایک کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔ میرے وہ عزیز جن کے گھر ہم نے پڑاؤ ڈالا تھا کچھ عرصے بعد انتقال کرگئے تو ان کے بال بچوں کو وہ گھر چھوڑنا پڑا، جو میرے لیے ایک دھچکا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ میرے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے گئے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، سوالات بھی بڑھتے گئے کہ کیا کبھی کسی حکومت نے جس میں پارلیمانی، صدارتی، فوجی، تمام تر طرز حکومت آتی رہیں اور ان کے ہاتھوں میں اقتدار بھی رہا، تو کیا کبھی انھوں نے سوچا؟

1۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اتنی کیوں نہیں کہ وہ دوران ملازمت اپنے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنالیں؟

2۔ کسی بھی دور حکومت میں ایسی کوئی پالیسی وضع کرلی جاتی جس میں سرکاری ملازمین کو ذاتی گھر بنانے کی سہولت مل سکتی؟

3 سرکاری ملازمین کے لیے بجٹ سازی میں کوئی ایسی سبسڈی دے دی جاتی جو ان کو مستقبل میں اپنے ذاتی گھر حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی؟

جب میں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں قدم رکھا تو سوچ متوسط اور کم آمدنی والے طبقات کے مسائل کے گرد ہی گھومتی رہی، لہٰذا تمام تر سوالات کو حل کرنے کے لیے بہترین طریقہ قانون سازی کا ہی نظر آیا، جس کے لیے آئینی، فوجداری، دیوانی اور فیملی قوانین میں تبدیلی کے لیے متعدد ترامیم پیش کیں، ساتھ ہی ان عوامل کے پیش نظر 22 مارچ2017  کو میں نے اپنے دیگر ممبران کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں ہاؤسنگ پالیسی بل جس کا ڈائری نمبر452 ہے، جمع کرایا، جس میں عوام کو ذاتی رہائش کی سہولت کے لیے ایک جامع اسکیم تیار کرکے دی گئی، جو آئین پاکستان سے مطابقت رکھتا ہے۔ میرا تجویز کردہ یہ بل قومی اسمبلی کی مختلف قائمہ و ذیلی کمیٹیوں سے ہوتا ہوا پچھلی حکومت کے پاس پہنچا۔

جس کے بعد 21 مئی 2017 کو ملک کے تمام بڑے اخبارات میں چار کالم کی ایک خبر کی اشاعت ہوئی،جس کی سرخی تھی کہ’’وفاقی حکومت کا تین رہائشی اسکیمیں متعارف کروانے پر غور، گھر کی خریداری کے لیے بینک سے قرضے دیے جائیں گے، جن کی حکومت ضمانت دے گی اور قرض کی ادائیگی اقساط میں واپس کرنا ہوں گی‘‘۔ یقیناً یہ خبر قوم کے لیے خوش آیند تھی اور محدود آمدنی رکھنے والوں کے لیے اپنی ذاتی رہائش گاہ حاصل کرنے کا بہترین راستہ بھی، لیکن بدقسمتی سے چونکہ یہ عوامی نوعیت کا منصوبہ تھا اور اس کے براہ راست اثرات نچلی سطح پر آتے، جس سے غریب اور بے گھر لوگوں کو سہولت حاصل ہوتی، اس لیے اس وقت کی حکومت نے بروقت فیصلہ نہ کیا اور 31 مئی 2018کو اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہوگئی اور افسوس کہ یہ منصوبہ سرخ فیتے کی حد تک ہی محدود رہا، جس کے باعث محدود آمدنی رکھنے والے آدمی کے خواب ادھورے ہی رہ گئے۔

آج یہ کالم تحریر کرتے ہوئے میری نظروں میں اس بدنصیب کا چہرہ گھوم رہا ہے جس نے اپنے دفتر کی چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی اور اس کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں ادھر سے ادھر دوڑتے بھاگتے گھبرائے ہوئے وہ لوگ بھی میری نظروں میں ہیں، جو برسہا برس سے مارٹن روڈ، جہانگیر روڈ، پاکستان کوارٹر، فیڈرل کیپٹل ایریا اور کلیٹن روڈ میں رہتے چلے آرہے ہیں، جن کے گھر گرائے جانے اور خالی کروانے کا سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ آچکا ہے، جب کہ ان میں سے بیشتر زمینیں 1948 میں ہونے والے لیاقت نہرو ایکٹ متروکہ املاک (Evaque Proparty) کے مطابق ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے پاکستانیوں کے لیے وقف کی جاچکی ہیں، جس کا فیصلہ 10 مئی 2015 میں جناب جسٹس ثاقب نثار لاہور ہائی کورٹ میں بھی دے چکے ہیں۔ تو کیا اس زمین پر بنا ہوا ہزاروں طالبات کا اور میرا گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کلیٹن روڈ بھی ڈھا دیا جائے گا۔

جہاں سے میں نے پرائمری سے میٹرک تک کی تعلیم اور پھر گرلز گائیڈ کی تربیت میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے اپنے وطن کو سنوارنے اور آگے بڑھاتے رہنے کے خواب بنے تھے، جن کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ لیکن وہ سوالات میرا پیچھا نہیں چھوڑتے، کیونکہ میں ان ہی بستیوں کی پیداوار ہوں، جن میں بسے حکومتی ملازمین جو اپنی عمر کے طویل عرصے تک سویلین اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں، ان کے مستقبل کی ایک بنیادی ضرورت یعنی ذاتی گھر کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ دوران ملازمت وہ تمام تر اپنی ذہنی و جسمانی توانائیاں اپنے ملک و ادارے کی خدمات میں لگا دیتے ہیں اور جب ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے، تو سویلین سرکاری ملازم کو ملنے والی گریجویٹی کی رقم اتنی نہیں ہوتی کہ ایک سفید پوش آدمی اپنی اور اپنے بچوں کی رہائش کے لیے مناسب مکان کا بندوبست کرسکے، کیونکہ ملک میں ایک ایسا نظام اپنے پنجے گاڑ چکا ہے جو غریب اور معصوم شہری کا خون چوسنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں نجی کمپنیوں نے ہاؤسنگ اسکیمیں متعارف کروائی ہیں، خصوصاً کراچی کو تو فلیٹوں کا جنگل بنا دیا گیا ہے لیکن کہیں کوئی ترجیحی اصول عمل میں نہیں لائے گئے۔

جس میں خاص طور پر سرکاری ملازمین کے لیے کسی قسم کی کوئی اسکیم نہیں رکھی گئی، جب کہ ان پروجیکٹ کو بنانے والے بلڈرز جو لکھ پتی کے بعد کروڑ پتی اور اب ارب پتی بھی بن گئے مگر ان کے شیڈول میں سرکاری ملازمت کرنے والوں کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ ہاں سرکاری ملازم سر چھپانے کے لیے رہائش کی کوششوں میں مقروض در مقروض ہوتے رہے بلکہ ان گنت لوگوں کی مشکل سے جمع کی گئی پونجی بلڈر مافیا کے جال میں ایسی جا پھنسی کہ وہ بالکل ہی بے آسرا ہی رہ گئے۔ جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج بھی سرکاری مکانات میں رہنے والے یقیناً وہ ہی لوگ ہوسکتے ہیں جنھوں نے ایمانداری سے ملازمتیں کی ہوں یا کررہے ہوں اور اپنی تنخواہ سے گھر چلانے، بچوں کی تعلیم اور علاج ومعالجے میں اپنی بچت کو خرچ کررہے ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آج تک اپنے ذاتی گھر نہیں کرسکے۔ یاد رہے کہ سرکاری مکانات میں مرمت کا کام نہ ہونے کے برابر ہے، اگر مرمت کروائی بھی گئی تو 95  فیصد سے زائد ضرورت کا کام وہاں کے رہنے والوں نے ہی کروائے ہیں۔

ایسا نہیں کہ منصوبہ سازوں کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں۔ اور جب ادراک ہے تو ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اداروں کی تقلید کی جائے اور اس طریقہ کار کو اپنایا جائے جس کے نتائج آپ کے سامنے موجود ہیں، جیسا کہ پاکستان کے دفاعی اداروں میں خدمات انجام دینے والوں کے ساتھ کی جاتی ہے، کیونکہ ان کو دوران سروس ہی ذاتی ملکیت کی بنیاد پر پلاٹ یا فلیٹ کی سہولت حاصل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگ خود اور ان کے اہل خانہ ذہنی طور پر مطمئن رہتے ہیں (یاد رہے کہ ان کی ماہانہ تنخواہ سے قلیل تعداد میں کٹوتی کی جاتی ہے) اور بعد از ریٹائرمنٹ بغیر کسی تگ و دو کے وہ سرکاری رہائش کو چھوڑ کر ذاتی مکان میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔