دوبارہ فوری انتخابات کے لیے اتحاد

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 8 اگست 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ’’اتحاد برائے آزادانہ منصفانہ انتخابات‘‘ تشکیل دیا ہے۔ یہ نام خود اپنی ہی جماعتوں میں نفاق پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ سیاسی سمجھ رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو نو منتخب اراکین اسمبلی ہیں وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی اکثریت یہ بات سننے کو تیار نہیں ہو گی کہ فوری طور پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ مشکل انتخابی مہم کے بعد وہ منتخب ہوئے، ابھی انھوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا کہ ’’اتحاد برائے آزادانہ منصفانہ انتخابات‘‘ کے نام سے مختلف جماعتیں اکٹھی ہوگئیں۔

اس نام پر غور و فکر ہوتا تو یہ بات ضرور مدنظر ہوتی کہ خود اپنی صفوں میں شامل نو منتخب اراکین اسمبلی پر اس کے کتنے منفی اثرات ہوں گے۔ کیا وہ یہ پسند کریں گے کہ فوراً دوبارہ انتخابات ہوجائیں۔ کامیاب ہونے والے امیدوار پسند نہیں کریں گے کہ فوراً انتخابات ہوں اور ممکنہ طور پر وہ اس اتحاد کو ناکام بنانے کے لیے آنے والی حکومت کا ساتھ دیں گے۔ خصوصاً مسلم لیگ (ن) میں زیادہ خلفشار ہوگا۔

دوسری بات بھی عجیب ہے، یعنی ایک طرف مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل نے موجودہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا، ساتھ ہی ان نتائج میں کامیابی کا بھی اعلان کرتے ہوئے ممکنہ طور پر شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی کوشش بھی انھی جماعتوں کی جانب سے ہورہی ہے۔ اگر وہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے تو ممکنہ طور پر آصف زرداری غیر اعلانیہ شریک وزیراعظم ہوں گے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت کسی صورت نہیں چل سکے گی، جب کہ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اسپیکر ہوں گے، متحدہ مجلس عمل کے پاس ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ ہوگا۔ اس فارمولے کی کامیابی کی صورت میں سب زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا، جس کے پاس مرکز کی حکومت پر مکمل کنٹرول ہوگا، یعنی ایک زرداری سب پر بھاری کی عملی کیفیت سامنے ہوگی۔ سندھ کی حکومت پہلے ہی پیپلز پارٹی کی بننے جارہی ہے۔

اس فارمولے کی کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی کو مزید امتحانات کا سامنا ہوگا کہ نواز شریف کے بارے میں کیا پارٹی پالیسی ہوگی۔ اس نئے فارمولے میں پیپلز پارٹی سب پر حاوی ہوگی۔ البتہ مولانا فضل الرحمن وفاقی مشیر بن کر اپنی سرکاری عالی شان سرکاری رہائش گاہ کو اپنے پاس رکھیں گے، اور ان کے معمولات زندگی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ممکن ہوگا جب یہ اتحاد کامیاب ہوگا۔ اتحاد کی کامیابی کے امکانات کم ہیں لیکن ہر دو صورت میں کامیابی پیپلز پارٹی کے پاس ہوگی، جو مکمل سمجھ داری کے ساتھ بلاول بھٹو کو مستقبل کی سیاست کے لیے تیار کررہی ہے اور ہر دو صورت میں نقصان مسلم لیگ (ن) کا ہوگا۔

کامیابی کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو ہر فورم پر پیپلز پارٹی کا دفاع کرنا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں پارٹی میں اندرونی خلفشار کے ساتھ عوامی پذیرائی سے بھی محروم ہوگی۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی پر (ن) لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام لگتا تھا۔ اس تمام صورت حال میں ایم ایم اے کا مستقبل مزید خطرے کا شکار ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو اتحاد کی ناکامی کی صورت میں علیحدہ رہ کر احتجاجی تحریک چلانا ہوگی۔ فوری طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا ہے۔ منتخب اراکین احتجاجی سیاست کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں رہ کر کام کر نا چاہتے ہیں۔ حالات جس سطح پر پہنچ گئے ہیں اس میں ان اراکین پر اپنی قیادت پر اعتماد کم ہورہا ہے، اداروں سے محاذ آرائی کے لیے انھیں اعتماد میں نہ پہلے لیا گیا تھا، نہ اب انھیں اعتماد میں لیا جارہا ہے۔ لہٰذا وہ ایسی راہ تلاش کررہے ہیں جس میں انھیں زیادہ تحفظ اور کامیابی ملے۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ کوئی نئی مسلم لیگ سامنے آجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اتحاد ہی ابتدائی مراحل میں انتشار کا شکار ہوجائے، اور کوئی بھی مشترکہ امیدوار سامنے نہ آئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان دوریاں اچانک دور نہیں ہوسکتی ہیں، خود مسلم لیگی کارکن اور رہنما پیپلز پارٹی کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

وہ اس بات پر بھی خوش ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ میں تنہا حکومت بنا رہی ہے۔ جب کہ پنجاب حکومت تقریباً مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف تیزی سے آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل کرکے اپنی پوزیشن مضبوط کررہی ہے، اگر وہ وفاق اور پنجاب میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو انھیں اسمبلی کی کارروائی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہوگا، دوسری طرف قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ سینیٹ کے لیے مطلوبہ اراکین کی کمی کی صورت میں ہوگی۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی اکثریت ہے، جس کا کوئی واضح حل تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔ مستقبل کے منظرنامے میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ (ن) لیگ پیپلزپارٹی سے کس حدتک تعاون کرے گی۔ اگر یہ تعاون دیرپا ہوگا تو اس بات کا امکان ہوگا کہ پیپلزپارٹی سینیٹ کے چیئرمین کے حصول میں کامیاب رہے۔

سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، وہ تنہا حکومت بناسکے گی۔ متحدہ قومی موومنٹ فی الحال پیپلز پارٹی سے قریب آنے کے لیے تیار نہیں ہے، البتہ اگر پیپلزپارٹی کوئی بہت بڑا پیکیج دینے پر آمادہ ہوجائے اور سندھ حکومت میں بھرپور نمایندگی دینے کی پیش کش کردے تو ایم کیو ایم کو قریب لاسکتی ہے، جس کے امکانات بہت کم ہیں۔ فی الحال قومی منظرنامے پر نئی حکومت کے قیام کا معاملہ سب پر حاوی ہے۔ آیندہ چند روز میں صورت حال مزید واضح ہوگی۔ سب سے دلچسپ صورت حال اس وقت ہوگی جب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے نتائج سامنے آجائیں گے جس سے کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکے گا کہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔