ملیشیا کو بھی چائینیز سونامی کا سامنا

انوار فطرت  اتوار 19 مئ 2013
انتخابات میں دھاندلی اور حلقہ بندیوں میں ہیرا پھیری کے الزامات۔ فوٹو : فائل

انتخابات میں دھاندلی اور حلقہ بندیوں میں ہیرا پھیری کے الزامات۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں ’’سیاسی سونامی‘‘ کا لفظ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متعارف کرایا ہے لیکن یہ لفظ ملیشیا میں بھی سیاسی اصطلاح کے طور پر وہاں سال رواں کے عام انتخابات میں بے تحاشا استعمال ہوا ہے۔

پاکستان میں اسے ’’کلین سویپ‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جب کہ ملیشیا میں یہ لفظ شہری ووٹروں کا موج در موج پولنگ اسٹیشنوں کی طرف آنا کے مرادف ہے، ہرچند پاکستان میں بھی اس بار انتخابی صورت ایسی ہی رہی اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ٹرن آؤٹ یعنی لگ بھگ 64 فی صد آیا۔

ملیشیا میں مقتدر پارٹی کا نام بارلیسان ناسیونال (قومی محاذ) ہے۔ اس پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ یہ 1950 سے انتخابات جیتتی چلی آ رہی ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ عرصے تک برسراقتدار رہنے والی پارٹی قرار پاتی ہے۔ کیا بعید کہ اس کا یہ طویل ترین جمہوری اقتدار ہی ملیشیا کی بے مثال ترقی کا باعث رہاہو۔

ملیشیا کے تیرہویں عام انتخابات اس بار ماہِ رواں کی 5 تاریخ کو منعقد ہوے جس میں پارلیمان ناسیونال ایک بار پھر کام یاب ٹھہری ہرچند اس بار اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد نسبتاً کم رہی اور اسے پارلیمانی نشستیں بھی کم ہیں تاہم وہ اس بار بھی اکثریتی پارٹی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس بار اس کی کام یابی کی وجہ پارلیمانی حلقہ بندیوں میں ’’ہیرا پھیری‘‘ تھی وگرنہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکاتان راکیات (جمہوری راج) نے 51 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جس کے باعث اس کے حصے میں 89 نشستیں آئیں جب کہ باریسان ناسیونال نے 133 سیٹوں پر پالا مارا ہے۔

لفظ سونامی پہلی بار ملک کے موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق نے اس وقت استعمال کیا جب کہ عین آخری وقت میں چینی ملیشیئن ووٹرز نے اپنا وزن پی آر (یاکاتان راکیات) کے حق میں ڈال دیا اور مقتدر پارٹی بی این اپنی دو نشستوں سے محروم ہو گئی۔ اس حرکت کو وزیراعظم نجیب رزاق نے ’’چینی سونامی‘‘ کا نام دیا تاہم ان کی اس اصطلاح کو پسند نہیں کیا گیا بل کہ اس کے رد عمل میں اشتعال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، مبصرین نے بھی اسے وزیرِ اعظم کی جسارت بے جاء سے تعبیر کیا ہے۔

ملیشیا میں اپوزیشن کے سب سے بڑے رہ نما انور ابراہیم ہیں۔ یہ دراصل 1980 کی دہائی میں قومی سیاست کے اسٹیج پر نمودار ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ ایک متحرک طالب علم لیڈر رہے ہیں، بعد میں جب قومی سیاست میں داخل ہوئے تو قومی سطح پر تسلیم کیے گئے اور ڈاکٹر محضر محمد کے دور میں ایک سکینڈل کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی جانے پہچانے گئے۔ یہ ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔

یہ ملیشیا کے قومی سطح کے رہ نماؤں میں ایک طرح سے ’’پھڈے باز‘‘ لیڈر ہیں، رعایت کی جائے تو انہیں کم از کم ملیشیا کا نواب زادہ نصراللّٰہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی تحریک چلائے رکھتے ہیں۔ اس بار چینی ملیشین ان کے کام آ گئے۔ واضح رہے کہ ملیشیا کو اکثر ملائیشیا لکھا جاتا ہے جو غلط ہے، دوسرے یہ کہ اس کااصل باشندہ جسے دھرتی کا بیٹا یعنی Son of soil کہا جاتا ہے، ملے (Malay) یا ملایو (Maloyu) کہلاتا ہے، پمارے ہاں انہیں عرفِ عام میں ملائی بھی کہا جاتا ہے،

وہ لوگ، جو دوسرے ملکوں سے آ کر یہاں کے شہری بنے، جن میں ہندوستانی، پاکستانی، چینی، تامل اور سکھ شامل ہیں، Malaysian ملیشین کہلاتے ہیں۔ چینی ملیشین باشندوں کو مقتدر جماعت بی این (پارلیمان ناسیونال) کی پالیسیوں سے اختلاف رہتا ہے تاہم حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کا مورد صرف چینیوں ہی کو قرار نہیں دیا جا سکتا، اس میں دوسری قومیتیں بھی شامل ہیں۔ حکومت مخالف ووٹ زیادہ تر شہری علاقوں سے پڑا ہے۔

پاکستان اور ملیشیا کے انتخابات میں لفظ سونامی اور دھاندلی کے علاوہ ایک اور قدر مشترک یہ رہی ہے کہ اس بار ملیشیا میں نوجوانوں نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ تاہم پاکستان کی مقتدر جماعت (جماعتوں) کو نوجوانوں نے عبرت کانشان بنا دیا اور صدر زرداری کا مقبول جملہ ’’جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے‘‘ ان ہی کی طرف لوٹا دیا۔ ملیشیا کی باریسان ناسیونال کے ساتھ یوں تو نہیں ہوا کیوں کہ لوگ بہ ہرحال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملیشیا کو بام عروج پر لے جانے والی جماعت یہ ہی ہے۔

البتہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ ضرور واضح ہوا ہے کہ باریسان کی مقبولیت میں کمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں اور اب یہ تاثر ابھر کر سامنے آنے لگا ہے کہ باریسان، ملیشیا کے شہری علاقوں میں اپنی پذیرائی سے محروم ہو کر دیہی علاقوں کی جماعت بن کر رہ جائے گی کیوں کہ اس پر مالی بدعنوانیوں، بری گورننس، حقوق انسانی کی پامالی، انتخابی دھاندلی اور ذرائع ابلاغ کو انگوٹھے تلے رکھنے کی کوششوں کی ملزم قرار دیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نجیب رزاق کی اصطلاح ’’چائینیز سونامی‘‘ ان کے گلے پڑتی دکھائی دے رہی ہے کیوں کہ وہ جسے چائنیز سونامی قرار دے رہے ہیں اس میں دراصل صرف چینی ہی شامل نہیں ہیں بل کہ دوسری اقلیتی قومیتیں بھی شامل تھیں جن کا تعلق شہروں ہے۔

چینی ملیشین وزیراعظم کی اس اصطلاح کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں بل کہ اسے وہ اپنے لیے گالی تصور کر رہے ہیں۔ چینی، ملیشیا کی دوسری اکثریتی قومیت ہے۔ انتخابی نتائج پر وزیراعظم کا یہ بے سوچا سمجھا فوری ردعمل ملک میں نسلی سیاست کا باعث بن سکتا ہے۔ ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ اصطلاح ایک خاص قومیت کو پِن پوائنٹ کرکے وہ ملک سے مخلص ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کی غیر محتاط زبان کے استعمال نے ان کی اپنی ہی مقبولیت کو کم کیا ہے اور وہ ملیشیا جیسے کثیر القومیتی ملک میں پھوٹ ڈالنے کے خدشات کو ہوا دینے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یہ تمام مسائل جو نجیب رزاق کو درپیش ہیں وہ ایک طرف، اس وقت جو مسئلہ ان کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد الیکشن 2013 (مئی) کے نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 8 مئی کو پاکاتان راکیات (اپوزیشن اتحاد پی آر) نے دارالحکومت کوالا لمپور کے قریب ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں 60 ہزار سے زیادہ مرد و زن نے شرکت کی، جن کی قیادت انور ابراہیم نے کی۔ انہوں نے تنبیہ کی ہے کہ وہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی مظاہروں کا اہتمام کریں گے، جن میں لوگ نہ صرف اپنے حکومت مخالف جذبات کا اظہار کریں گے بل کہ حزبِ اقتدار کی چھتری تلے پارلیمانی انتخابات میں کی جانے والی دھاندلیوں پر سے پردہ بھی اٹھائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ چینی اور غیر چینی کی جنگ نہیں ہے نہ ہی یہ ملے (Malay) یا غیر ملے کی لڑائی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم ملک کے کونے کونے میں جائز احتجاج کریں گے اور دکھا دیں گے کہ ہمیں تمام ملیشین لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ملیشین سے ان کی مراد غیر ملائی باشندے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پی آر (حزب اختلاف) کی انا کا نہیں ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو اسے با آسانی نظرانداز کر دیا جاتا لیکن قضیہ یہ ہے کہ حالیہ انتخابات شفافیت اور منصفیت کے طے شدہ معیارات پر پورا اترتے ہی نہیں اور اس امر کی گواہی عالمی شاہدین، دانش ور، عام ملائی اور ملیشین بھی دیتے ہیں۔ ہر چند یہ ملیشیا کا اندرون خانہ کا معاملہ ہے تاہم انکل سام (امریکا) کا چوں کہ وتیرا ہے کہ وہ دوسروں کے معاملات میں اپنی ناک ضرور گھسیڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے بھتیجے کو نصیحت کرنے سے باز نہیں رہ سکے فرمایا ’’ملیشیا کو انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنی چاہیے‘‘۔

اب خیال کیا جاتا ہے کہ مقتدر پارلیمان ناسیونال اگر سچ مچ مخلص ہے اور اس سیاسی گنجل کو سلجھانا چاہتی ہے تو اسے انتخابی اصلاحات کرنی چاہئیں بہ صورتِ دیگر یہ خدشہ اپنی جگہ بہ ہرحال موجود ہے کہ حالات ایسی نہج پر جا پہنچیں جہاں سے واپسی کا راستہ مسدود ہو جائے۔

گزشتہ برس پارلیمان ناسیونال نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ریلیوں کا اہتمام کیا تھا جو کہا جاتا ہے کہ ’’بہارِ عرب‘‘ جیسی تحریک کا پیشگی سدبات کرنے کی ایک کام یاب کوشش تھی لیکن یہ جو ملیشین سونامی، موج در موج اٹھتی چلی آ رہی ہے اس کا کیسے روکنا ہے؟ یہ ملیشیا اور دنیا کی طویل ترین صاحب اقتدار جماعت پارلیمان ناسیونال کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے آئی ہے۔

ملیشیا کی پارلیمنٹ 222 اراکین پر مشتمل ہے اور پارلیمان ناسیونال نے ملک بھر سے 133 نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس سے قبل پارلیمان میں اس کی نشستوں کی تعداد 135 تھی۔ اس بار اس نے دو نشستیں ہاری ہیں۔ 5 مئی کو ہوئے ان انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ زبردست رہا ہے۔ انتخابی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کثیر القومیتی ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 80 فی صد تھا جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ ملک کے رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ ہے جن میں سے ایک کروڑ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔

واضح رہے کہ ملیشیا کی کل آبادی 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 83 لاکھ 34 ہزار 135 تھی جس میں ظاہر ہے اب اضافہ ہو چکا ہے۔ یہاں چینی لوگ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ پارلیمان ناسیونال (مقتدر پارٹی) نے لاریب 133 نشستیں جیتی ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر انہیں پڑنے والے ووٹوں کی شرح 49 فی صد بنتی ہے جب کہ اس کے مقابلے اپوزیشن اتحاد نے 51 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں تاہم اس ساحری کے پیچھے پارلیمانی حلقہ بندیوں میں ہیرا پھیری تھی۔

ایسا ملیشیا میں پہلی بار ہوا ہے اس طرح نجیب رزاق یہاں کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اقلیتی پاپولر ووٹ پر جیتے تاہم حزب اختلاف سے اپنی جیت تسلیم کروانے میں انہیں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ وہ بڑے اصرار کے ساتھ کہتے ہیں ’’صرف انتخابات کے 14 دن ہی نہیں‘‘ بل کہ حزب اختلاف ہمارے خلاف گزشتہ پانچ سال سے مخالفانہ مہم چلا رہی ہے، وہ روز اول ہی سے ہمارے کام کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے اور ہمیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے لیکن یہ خدا کا خاص کرم ہے کہ ہماری پارٹی، عوام کی پارٹی، اقتدار میں ہے۔

ملیشیا اس وقت ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ملائی آبادی اس کے حق میں جم کر ڈٹی ہوئی ہے جب کہ چینی ملیشین اس کے خلاف معلوم پڑتا ہے ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ چینیوں کی آبادی ملک کی ایک چوتھائی بنتی ہے اور یہ ہی ملک کی معیشت پر بھی حاوی ہے تاہم فی الحال وہ ایک ایسی اپوزیشن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہے جس کی قیادت بہ ہرحال ایک ملائی رہ نما کے ہاتھ میں ہے۔

انتخابات کے نتائج آتے ہی وزیراعظم نجیب رزاق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقبول سیاسی انداز میں کہا کہ وہ قومی یک جہتی پر زور دیں گے۔ ’’ہم زیادہ اعتدال اور سادگی قائم کریں گے اور ایسی پالیسیاں بنائیں گے جو حسب سابق ملک و قوم کے مفاد میں ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے یہ غیر محتاط جملہ بھی پھسلا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ حالات درست راہ پر چلتے رہیں لیکن ہمیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے چینی عوام کی طرف سے تعاون حاصل نہیں ہوا۔

ادھر ان انتخابات کے غیر ملکی نگران بھی ملیشیا کی حزب اختلاف کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ انتخابات میں غلط ہتھ کنڈے استعمال کیے گئے ہیں۔ ایشیا سے انتخابات کے موقع پر یہاں اٹھارہ مبصرین موجود تھے۔ ریڈیو آسٹریلیا کے پروگرام کنیکٹ ایشیا کے پریزنٹر لیئم کوچرین یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ملیشیا کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن اسے ثابت کرنا آسان کام نہیں ہے کیوں کہ الزامات ایسے بھی ہیں کہ غیر ملکی ووٹر، سابا اور سراوا سے (مشرقی ملیشیا) سے مغربی ملیشیا لائے گئے اور دور دراز علاقوں میں ان سے ووٹ ڈلوائے گئے، ان غیر ملکیوں کی تصدیق کون اور کیسے کرے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ملیشیا ایک کثیر القومیتی ملک ہے، لوگ مختلف شکل و صورت، قد و قامت اور خد و خال رکھتے ہیں، جس کے باعث کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کون سچ مچ ملیشین ہے اور کون نہیں۔ بعض ووٹروں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے الزامات کی بوچھاڑ کر دی کہ مقتدر جماعت اور الیکشن کمیشن انتخابات چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے نشان زدگی کے جو روشنائی فراہم کی گئی تھی اس کے بارے میں کہا تو یہ ہی گیا تھا کہ یہ ان مٹ ہے لیکن عملی طور پر وہ آسانی سے مٹائی جا سکتی تھی۔ انتخابات کے دوران ’’اصل ملیشین باشندوں‘‘ اور غیر ملکی ووٹروں کے درمیان پولنگ سنٹرز پر توتکار کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔