پیپلز پارٹی کے نئے دور کے آغاز کا انتظار کریں

نصرت جاوید  جمعـء 17 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

12 مئی 2013ء کی صبح سے انتخابی نتائج پر ہونے والے تبصروں کو پڑھنے اور سننے کے بعد میں اس کالم کو ’’ایک تھی پیپلز پارٹی‘‘ کا عنوان دینے پر مجبور ہو رہا تھا۔ قلم اُٹھانے سے کچھ دیر پہلے ٹھنڈے پانی کی ایک پوری بوتل ختم کی اور پنکھا چلنے کا انتظار کرتا رہا جو UPS کے خراب ہو جانے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے محفوظ نہیں کر سکتا تھا۔ سوچ بچار کے ان لمحات میں میں نے دریافت کیا کہ پیپلز پارٹی کو اپنی تاریخ کی بدترین انتخابی شکست کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے لیکن منیر نیازی والی قیامت ابھی بھی نہیں آئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں لمحہ بہ لمحہ اپنے اس دعوے کی وجوہات بیان کرتا رہوں گا۔ فی الحال میری توجہ یہ جاننے کی طرف مبذول ہے کہ ہمارے صحافیوں کی اکثریت یہ کیوں طے کر بیٹھی ہے کہ آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر سے بوریا بستر لپیٹ کر ’’بیماری‘‘ کے نام پر ملک سے ’’فرار‘‘ ہوجانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

میری آصف علی زرداری سے چند ماہ پہلے آخری ملاقات اس تقریب میں ہوئی تھی جہاں وہ پاکستان ٹیلی وژن کے اسلام آباد اسٹوڈیوز میں انگریزی کے 24/7 چینل کا افتتاح کرنے آئے تھے۔ تقریب کے اختتام پر وہ اس جگہ موجود صحافیوں کے گروہ کی طرف آئے۔ کچھ سوال جواب ہوئے اور بس۔ اسی دن کے بعد سے اب تک میری نہ ان سے کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ ٹیلی فون پر کوئی بات چیت۔ ان سے ملاقات یا بات چیت کے اتنے طویل وقفے کی وجہ سے میں ہرگز نہیں جان سکتا کہ 12مئی کے بعد سے وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ اپنی لاعلمی کا یہ اعتراف مجھے یہ دعویٰ کرنے سے پھر بھی نہیں روک سکتا کہ آصف علی زرداری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اگر وہ سنجیدگی سے استعفیٰ دینا طے کر بیٹھے ہیں تو پھر بھی یہ قدم کم از کم میاں محمد نواز شریف کے وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے سے پہلے ہرگز نہ اُٹھائیں گے۔ نواز شریف سے حلف اُٹھاتے ہوئے وہ دراصل اپنے لوگوں اور پوری دُنیا کو یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ اپنی تمام تر مشکلات سمیت پاکستان بالآخر ایک بھرپور جمہوری ملک بن گیا ہے۔

ایک منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ اس کے بعد دہشت گردی کے اتنے سارے واقعات اور خدشات کے باوجود انتخابات ہوئے جن میں رائے دہندگان کی ایک متاثر کن تعداد نے حصہ لیا۔ بالآخر پیپلز پارٹی کی 1988ء سے واحد اور مسلسل مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے سادہ اکثریت حاصل کی اور نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔ بحیثیت صدر پاکستان آصف علی زرداری کا اس شخص سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینا جس کے ’’احتساب الرحمٰن‘‘ نے انھیں برسوں جیل میں رکھ کر ہر طرح کی اذیتیں پہنچائیں اپنی جگہ پاکستان میں خوش گوار اور مثبت تبدیلیوں کے نمودار ہونے کی بہت بڑی مثال ہو گا۔ نواز شریف کے باقاعدہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی وہ اس سال ستمبر تک اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنا چاہیں گے۔ اپنی آئینی مدت کے اختتام پر وہ اسی طرح کے رسمی الوداع کے بھی حقدار ہیں جو انھوں نے ایک فوجی آمر کی رخصتی کے وقت اختیار کیا تھا۔

وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے بعد اگر آصف علی زرداری استعفیٰ دیں گے تو اس کے لیے انھیں کوئی اور نہیں ان کی اپنی جماعت کے لوگ مجبور کریں گے جو ان دنوں خود کو سیاسی طور پر یتیم محسوس کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک لوگ تو انتخابات کے قریب ہی اس بات کی دہائی دینا شروع ہو گئے تھے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری یا کم از کم آصفہ نے پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم نہ چلائی تو وہ 11 مئی کو بدترین شکست سے دو چار ہو جائیں گے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تمنا تھی کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جانے کے بعد آصف علی زرداری ایوانِ صدر سے نکل کر ملک بھر میں جلسوں سے خطاب کرنا شروع کر دیں۔ آصف علی زرداری مگر ان کی باتوں میں نہ آئے۔ اقتدار کے کھیل کے ایک بڑے کائیاں کھلاڑی ہوتے ہوئے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت نہیں ہیں۔

وہ ایک مسحور کن تو کیا ڈھنگ کے مقرر بھی نہیں۔ ان کی جانب سے منعقد کیے جلسے ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دلوا سکتے۔ ان کی اپنی صلاحیتوں کا آغاز صرف اس وقت ہوتا ہے جب انتخابات ہو جائیں اور ان کے بعد جس جس سیاسی جماعت کو جتنے اور جیسے پتے ملیں انھیں ہوشیاری سے کھیلتے ہوئے اقتدار کی تجوری سے اپنا حصہ نکالا جائے۔ وہ کہانیاں بالکل بے بنیاد ہیں جن کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے باپ یا پھوپھی فریال تالپور کی سیاست سے نالاں ہو کر پاکستان سے باہر چلے گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ 2013ء کی انتخابی مہم سے الگ تھلگ رہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جو برائیاں نظر آئیں ان کا ذمے دار صرف اور صرف آصف علی زرداری کی ذات کو ٹھہرایا گیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان، رحمٰن ملک اور فرزانہ راجہ جیسے لوگوں نے سچی بات ہے سیاسی قوت و اختیار کو بے پناہ حد تک Enjoy کیا۔ ان جیسے بہت سے اور لوگ بھی تھے جن کے نام اور کہانیاں پوری طرح لکھنے کے لیے مجھے کالم نہیں ناول کی ضرورت ہے۔ آصف علی زرداری پورے پانچ سال پاکستان میں ’’خرابی کی واحد علامت‘‘ کے طور پر ہر طرف سے لعن طعن سنتے رہے مگر انڈے اور وہ بھی سونے کے ان کے دربار میں گھسے موقعہ پرستوں نے بے دریغی سے کھائے۔ انھیں اب خود ہی اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنا تھی اور انھوں نے بھگتی۔ ان جیسے لوگوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں بڑا زبردست سیزن لگایا ہے۔ اب یہ فیصلہ وہ کریں کہ سیاست میں رہنا ہے یا نہیں اور اگر رہنا ہے تو کس سیاسی جماعت کے ساتھ چلنا ہے۔

آیندہ چند دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی صرف بلاول بھٹو زرداری کی ہونا شروع ہو جائے گی۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات سے دور رہ کر بلاول بھٹو زرداری کو مستقبل کی سیاست کے لیے بچا لیا گیا ہے۔ وہ خود تو ابھی اپنی عمر کی وجہ سے قومی اسمبلی کے رکن بھی نہیں بن سکتے۔ وہ جب اس کی کسی نشست کے لیے انتخاب لڑنے کے اہل ہو جائیں گے تو پیپلز پارٹی کا ایک نیا دور اس وقت سے شروع ہو گا۔ ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے اور ان کی جماعت کو اتنی جلدی کفن پہنا کر دفنا دینے میں عجلت نہیں برتنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔