ایک پولنگ ایجنٹ کی روداد

فاطمہ قمر  جمعـء 10 اگست 2018
مجھے الیکشن کا حصہ بن کر بہت اچھا لگ رہا تھا کیونکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولنگ کا عمل اور اس کا نتیجہ نکلتا دیکھا۔ (فوٹو: فائل)

مجھے الیکشن کا حصہ بن کر بہت اچھا لگ رہا تھا کیونکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولنگ کا عمل اور اس کا نتیجہ نکلتا دیکھا۔ (فوٹو: فائل)

میں، فاطمہ قمر، اپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشن میں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے پولنگ ایجنٹ نامزد کی گئی تھی۔ یہ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ میں اپنی آنکھوں سے الیکشن ہوتے دیکھوں اور جان سکوں کہ کیسے ووٹنگ کا عمل ہوتا ہے اور کیسے ان ووٹوں کے ذریعے اس ملک کی تقدیر بدلی جاتی ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میں الیکشن میں بطور پولنگ ایجنٹ فرائض انجام دوں گی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں بے چینی سے پچیس جولائی کا انتظار کرنے لگی۔

آخر خدا خدا کرکے الیکشن والا دن بھی آ ہی گيا۔ میں صبح صبح اٹھی اور ساڑھے سات بجے پولنگ اسٹیشن کی جانب نکل پڑی۔ وہاں پر سخت سیکیورٹی تھی۔ مجھے موبائل فون تک اندر لے جانے کی اجازت نہ دی گئی اور مجھے گھر والوں کو بلا کر فون واپس بھجوانا پڑا۔

پورا پولنگ اسٹیشن فوج اور پولیس کے عملے سے بھرا پڑا تھا اور ہر آنے والے کی اندر داخل ہونے سے پہلے تلاشی لی جا رہی تھی۔

ابھی آٹھ بجنے میں کچھ وقت باقی تھا اور پولنگ کا عمل شروع نہیں ہوا تھا۔ مجھے بھی تلاشی اور شناختی کارڈ اور پولنگ ایجنٹ کے نامزدگی فارم دکھانے کے بعد اندر جانے اور بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔

پولنگ کے عمل کا ٹھیک آٹھ بجے آغاز کر دیا گيا۔ ہم سب پولنگ ایجنٹس بھی مستعد ہو کر اپنے کام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ شوق اور کچھ تجسس سے ہم ووٹ ڈالنے کےلیے آنے والے افراد کو آتا اور ووٹ ڈال کر جاتا دیکھ رہے تھے۔

پریذائیڈنگ آفیسر اور باقی تمام عملے کا رویہ بھی بہت اچھا اور دوستانہ تھا اور وہ ہمیں بار بار گائيڈ کررہی تھیں کہ کس طرح سے ووٹر لسٹوں سے نام ڈھونڈنا ہے اور کیا کام کرنا ہے۔

چونکہ صبح کا وقت تھا اس لیے ووٹ ڈالنے کےلیے آنے والے افراد کا زیادہ رش نہ تھا۔ ہم سب پولنگ ایجنٹس بھی فارغ وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے اور جب کوئی ووٹ ڈالنے آتا تو مستعدی سے اپنے کام میں لگ جاتے۔ پولنگ اسٹیشن کا ماحول خاصا بے تکلفانہ اور دوستانہ تھا اور تمام لوگ اچھے طریقے سے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔

آرمی کے جوان، پولیس کا عملہ، لیڈی پولیس آفیسر اور لیڈی ہیلتھ ورکر، سبھی اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہے تھے۔ سب لوگ الیکشن کے دن کے خیر خیریت سے گزر جانے اور ملک کےلیے اچھے حکمران کے انتخاب کی دعاؤں میں بھی مصروف تھے۔

مجھے الیکشن کا حصہ بن کر بہت اچھا لگ رہا تھا اور وہ دن میری زندگی کا ایک یادگار اور ناقابل فراموش دن تھا کہ جب میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولنگ کا عمل اور اس کا نتیجہ نکلتا دیکھا۔

ووٹ ڈالنے کےلیے آنے والی خواتین کا رش تقریباً دس بجے کے بعد شروع ہوا جو چار بجے جا کر ختم ہوا۔ اس کے بعد ووٹرز ایک ایک دو دو کی تعداد میں آنے لگے۔ ہم تمام عملے نے اسی دوران میں کھانا کھایا اور وہ بھی اس طرح کہ اگر کوئی ووٹ ڈالنے آگیا ہے تو اپنا کھانا چھوڑ کر اس کا ووٹ پہلے ڈلوایا گیا تاکہ کسی کو دوبارہ آنے کی زحمت نہ ہو۔

میرے لیے پولنگ ایجنٹ بننا ایک دلچسپ کام ثابت ہو رہا تھا لیکن بعد میں یہ تھکا دینے والا بھی ثابت ہوا کہ صبح ساڑھے سات بجے سے لے کر رات کو تقریباً نو بجے تک مسلسل ایک ہی جگہ پر بیٹھنا واقعی ایک شدید تھکا دینے والا کام ہے۔

خدا خدا کرکے شام کے چھ بجے تو پولنگ کا عمل ختم ہوا اور ٹھیک چھ بجے پولنگ اسٹیشن کے تمام دروازے کسی بھی آنے اور جانے والے کےلیے بند کر دیئے گئے۔ اس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا جو ہم سب پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں نہایت ایمانداری سے ہوا۔ اس دوران میں ایک فوجی افسر بھی ہمارے ساتھ کمرے میں موجود رہا۔

ووٹوں کی گنتی ہوتی رہی اور نتائج آتے رہے۔ تمام عملے نے نہایت جانفشانی اور ایمانداری سے یہ سارا عمل مکمل کیا اور ذرّہ برابر بھی دھاندلی نہ ہوئی۔

ووٹوں کی گنتی کے بعد بیلٹ پیپرز کو پیک کرنے اور انہیں سیل کرنے کی باری آئی۔ اس وقت تک ہم تمام پولنگ ایجنٹس اتنے زیادہ تھک چکے تھے کہ ہم سب پریزائیڈنگ آفیسر سے کہہ رہے تھے کہ میم! آپ پلیز ہمیں جانے دیں، ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس پولنگ اسٹیشن میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور شفاف طریقے سے سارا عمل ہوا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ سب کام مکمل ہوجانے اور بیلٹ پیپرز کو پیک کرکے سیل کرنے تک نہ اس کمرے کا دروازہ کھلے گا، نہ کوئی اندر آئے گا اور نہ کوئی باہر جائے گا۔ ہم سب کے پاس ان کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

ہم سب مایوس ہوکر بیٹھ گئے اور آپس میں وقت گزاری کےلیے باتیں کرنے لگے لیکن ہماری باتوں کا موضوع سیاست ہرگز نہ تھی۔

جب ہم آپس میں باتیں کر کرکے تھک گئے تو خاموش ہوگئے مگر وقت کاٹے نہ کٹتا تھا۔ اس وقت رات کے آٹھ بج چکے تھے اور بیلٹ پیپرز تیسری مرتبہ گنتی کے بعد اب لفافوں میں ڈالے جارہے تھے۔

جب مجھ سے وقت کاٹنا زیادہ مشکل ہو گیا تو میں نے کمرے میں موجود فوجی آفیسر سے مختلف قسم کے سوالات کرنا شروع کردیئے۔ اس فوجی آفیسر نے بھی میرے کچھ سوالات کے جواب دے دیئے اور کچھ کو ٹال دیا۔ مجھے اس آفیسر کا نام نہ معلوم تھا اور نہ ہی مجھے اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس ہوئی۔ میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ایک فوجی آفیسر ہے اور ملکی سیاست کو مجھ سے بہتر طور پر جانتا ہے۔

چونکہ الیکشن سے کچھ دن پہلے ہی جسٹس شوکت عزيز کا بیان منظر عام پر آیا تھا کہ عمران خان کو جتوانے کےلیے اسٹیبلشمنٹ سرگرم عمل ہے تو اس وقت میرے ذہن ميں یہ بات کلیئر کرنے کا خیال آيا۔ میں نے سوچا کہ یہ آرمی آفیسر ضرور اس بات کی حقیقت کو جانتا ہوگا۔

میں نے اس سے پہلے سوال کیا کہ جو آج کل کہا جا رہا ہے کہ کپتان کو وزيراعظم بنوانے کےلیے فوج ان کی پشت پناہی کررہی ہے تو اس میں کتنا فیصد سچ ہے؟ وہ آفیسر پہلے تو خاصی دیر میرے سوال کو ٹالتا رہا لیکن جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا توکہنے لگا کہ اس بات میں صداقت زيادہ ہے؛ اور واقعی فوج ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔

اب میرا اگلا سوال تھا کہ کیوں؟ ایسا کرکے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس آفیسر نے جواب دیا کہ ہمارا اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس میں فائدہ ملک کا ہی ہے۔ اگر عمران نہ آسکا تو یا تو زرداری آئے گا یا پھر نواز شریف؛ اور ہم ملک کو ان دونوں سے بچانے کےلیے یہ سب کر رہے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں ملک کا کیا فائدہ ہے؟ تو اس کا جواب کچھ یوں تھا کہ زرداری اور نواز کو تو عوام بارہا آزما چکے ہیں اور وہ دونوں ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا چکے ہیں۔ ملک کو بچانے کےلیے عمران خان کو وزيراعظم بنانے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔

میں نے کہا، ’’یعنی فوج نے طے کرلیا ہے کہ عمران ہی اگلا وزیراعظم ہوگا،‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ہاں! پھر میں نے کہا کہ جب یہ طے کر ہی لیا ہے کہ وزیراعظم کون ہوگا تو پھر الیکشن کا ڈراما کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عوام کو مطمئن کرنے کےلیے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

میں نے کہا کہ یہ تو پھر سلیکشن ہوگئی، الیکشن تو نہ ہوا۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انتخاب ان کے ووٹوں سے ہوا ہے لیکن یہ انتخاب تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا ہے، عوام کوتو بس الیکشن کے ذریعے بہلایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی سمجھ لیں۔

میں نے کہا کہ ایک الجھن اب بھی ہے میرے دماغ میں؛ وہ یہ کہ اگر فوج عمران کی پشت پناہی کر رہی ہے تو میڈیا تو آزاد ہے ناں، پھر وہ عمران خان کی اتنی تشہیر کیوں کررہا ہے؟ اس افسر نے جواب میں کچھ یوں کہا کہ ہمیں جو بھی کرنا ہوتا ہے ہم پہلے اس کا ماحول بناتے ہیں، ہم نے میڈیا کے ذریعے اس کا ماحول بنایا، لوگوں کے ذہن بنائے کہ اس مرتبہ عمران ہی وزیراعظم ہوگا تو ہمارا آدھا کام آسان ہوگيا۔ اور عوام سمجھتے رہے کہ یہ انتخاب ہمارے ووٹوں سے ہوا ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن صرف ووٹوں سے کام نہيں بنتا، ذرائع بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں۔

اس افسر نے مزید کہا کہ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر کچھ اور ہوتی ہیں لیکن اندر سے کچھ اور۔ فوج نے آج تک جو بھی کیا ہے وہ اس ملک کی بہتری کےلیے کیا ہے۔ ہاں! فوج میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے لیکن چھوٹے لیول کے تمام سپاہی اس ملک کےلیے مخلص ہيں۔

یہ جو وزیراعظم کی سلیکشن ہے، یہ بہت پہلے ہی ہو جاتی ہے اور ہم سب اپنے افسروں کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس آفیسر نے مزید کہا کہ لال مسجد کے واقعے کے وقت بھی ہم مجبورتھے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور مسجد ہمارے لیے بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی سب مسلمانوں کےلیے ہوتی ہے۔ ہمارے بہت سارے کرنل صرف اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے کہ انہوں نے مسجد پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ اس وقت بھی لال مسجد میں موجود اسلحے کو نکالنے کا دوسرا راستہ موجود تھا لیکن پرویز مشرف نے اسی راستے کو اپنایا اور ہم سب اس کی بات ماننے پر مجبور تھے۔

میں شاید اس افسر سے مزيد کچھ اور سوالات بھی پوچھتی مگر پریزائیڈنگ آفیسر نے ہمیں اسی وقت فارم 45 جاری کردیا اور ہمیں جانے کا عندیہ دے دیا۔ میں واپس جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ عمران خان بے شک کھرا انسان ہے مگر وہ اکیلا تواس ملک کو نہیں چلا سکتا ناں۔ اس کو ملک چلانے کےلیے ایک مخلص کابینہ کی ضرورت ہے اور اس کی کابینہ میں زیادہ تر افراد وہی ہیں جو پہلے اس ملک کو کرپشن کے ذریعے لوٹ کر کھا چکے ہیں۔

اس ملک میں قیادت کا بحران اتنی شدت اختیار کرچکا ہے کہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ اگر عمران خان بھی عوام اور فوج کی توقعات پر پورا نہ اترا تو کیا ہوگا؟ کب تک ہماری فوج سیاست میں اپنی ٹانگ اڑاتی رہے گی؟ کیا ہمارا ملک ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے؟ کیا 71 کی تاریخ پھر سے دوہرائی جانے والی ہے؟

ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اب صرف کوئی معجزہ ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فاطمہ قمر

فاطمہ قمر

بلاگر اسلامی یونیورسٹی میں بی ایس کی طالبہ ہیں اور بلاگنگ کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کی کوشش پر یقین رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔