عدالتی زبان اردو مگر؟…

ابن مستقیم  جمعـء 17 مئ 2013

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالتی فیصلے قومی زبان میں بھی لکھنے کا مطالبہ تسلیم کرکے بلاشبہ ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ اب یہ بحث  بہت پرانی ہوچکی ہے کہ ہمارے لیے قومی زبان کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے، تحریک پاکستان میں اس کا کیا کردار رہا اور پھر بعد کے حکمرانوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ہمارے آئین میں اس کے لیے کس قدر واضح احکامات موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔

قومی زبان کے نفاذ کے لیے بہت سی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں کی طرف سے اس کے لیے شعور اجاگر کرنے کی بھی بساط بھر کوششیں بھی کی جاتی رہیں، لیکن یہ لوگ اکثر اس بات سے شعوری یا غیر شعوری طور پر بے خبر نظر آتے ہیں کہ قومی زبان اردو کس صورت حال سے دوچار ہے۔ اس کا حلیہ کس قدر بگڑ رہا ہے۔ تعلیم اور ابلاغ کے میدان میں اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور اب آنے والے وقت میں جب کبھی نفاذ اردو کی منزل آئے گی تو وقت کی اس تیز رفتاری میں ہم اپنی قومی زبان کو لے کر کہاں کھڑے ہوں گے؟

زبان اس کے بولنے، لکھنے  اور پڑھنے سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ دور جدید کی ضروریات شامل کرلیں تو جدید ایجادات اور علوم کے بغیر اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا معاملہ تو احساس کمتری کے مارے آدھی اردو اور آدھی انگریزی سے کسی طرح ڈھکا چھپا نہیں۔ زبانیں بے شک ایک دوسرے کے الفاظ لیتی ہیں، مگر موجودہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا معاملہ کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ سراسر زبان کو مسخ کرنے کے ہی مترادف ہے۔ بول چال کا یہ حال ہے تو پھر جدید علوم اور کتابوں کا تو ذکر ہی نہ کیجیے۔

تعلیم کے لیے اردو کی چھوٹ دے  کر نوکر شاہی نے رعایا پر ’’احسان‘‘ کیا ہے، لیکن جدید علوم موجود نہیں، لہٰذا جوں جوں پڑھائی آگے بڑھتی ہے، انگریزی نہ آنے کی وجہ سے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ پھر آگے چلیے مقابلے کے امتحان پر انگریزی کی اجارہ داری تو بہت پرانی ہوگئی، اردو میں ایم فل  اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی دیگر سماجی اور سائنسی علوم کی طرح ہمیں انگریزی زبان میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر تین ماہ بعد ہونے والے اس ٹیسٹ میں ہزاروں نوجوان امیدوار ہوتے ہیں لیکن بہت کم تعداد ہی سرخرو ہو پاتی ہے۔  ان سب کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ انگریزی سے عدم واقفیت ہے۔ ریاست تعلیم تو اردو میں دے رہی ہے مگر اس تعلیم کے نتیجے میں جب کوئی نوکری نہ ملے تو پھر سوچ لیجیے کتنی بڑی سازش ہے یہ قومی زبان کے خلاف!

اس بدترین تجربے سے گزرنے کے بعد جب یہ نوجوان عملی زندگی میں آتے ہیں تو اپنے بچوں کو ایسے انگریزی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں جہاں اردو بولنے پر یوں جرمانہ عاید کیا جاتا ہے گویا منہ سے گالی نکل گئی ہو۔ لہٰذا بچہ اپنی مادری اور قومی زبان کے بجائے ایک بدیسی زبان کا اسیر ہوجاتا ہے۔ پھر اعلیٰ طبقوں کے بچے تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہوتے ہیں، جن کا اردو سے دور پرے کا بھی کوئی لینا دینا نہیں رہتا۔ یہاں تو امریکا اور کینیڈا میں رہنے والوں سے شکوہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بچوں کو اپنی زبان سے دور کردیا، آج ان کے بچے جیسے تیسے بول تو لیتے ہیں، لیکن اردو لکھ نہیں سکتے۔ جب ہم اپنے ہی ملک میں ایک ایسی نسل کو پروان چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں جس کے شعور میں کسی سطح پر قومی زبان سے کسی تعلق کا کوئی معاملہ ہی نہیں رہا اور عملاً ان کی زبان مکمل طور پر انگریزی ہوچکی ہے۔ یہ ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس پر ہر طرف قیامت خیز خاموشی ہے۔

پاکستان میں موجود اردو میں لکھنے والوں کے بچوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان کی تحریریں اور کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ بچوں کے بچوں کا تو کیا ہی ذکر کیا جائے، اس پر طرہ کہ وہ اردو کانفرنسوں میں زبان کی بے قدری کا رونا روتے ہیں اور ساتھ میں مثال بھی اپنے ہی گھر کی پیش کررہے ہوتے ہیں، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لکھنے پڑھنے والوں کی بھی سوچ و فکر کس نہج پر جا پہنچی ہے۔

جب معاملات اس ڈگر پر چل نکلے ہیں تو ہم جس قومی زبان کے جائز مقام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، تب اس کے بولنے والے ہی نہ رہے تو پھر سوچ لیجیے اس منزل اور کامیابی کی وقعت کتنی رہ جائے گی۔ اس لیے قومی زبان کے فروغ اور پھیلائو کے ساتھ اس کے آگے بڑھنے کے لیے طویل المدتی اقدام کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، نوکر شاہی کل کی طرح آج بھی اس کی راہ میں مزاحم ہے۔

کاش ہمارے ارباب اختیار کچھ توجہ اس ملک میں تباہ کی جانے والی قومی زبان کی طرف بھی کریں اور اس کے تحفظ اور فروغ کے لیے طویل المدتی اقدام کے لیے راہیں ہموار کریں۔  ارباب اختیار کی جانب سے جہاں آئین اور قانون کی پاسدار ی کے لیے بلند بانگ فیصلے کیے جارہے ہیں، آئین اور قانون کی حکومت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں،وہاں یہ سنگین آئینی مسئلہ براہ راست اس ملک کے مستقبل اور عوام کے بنیادی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ملک کے اعلیٰ اداروں سے پوچھ گچھ کی جائے اور نوکر شاہی کو مزید اس سنگین آئینی خلاف ورزی سے باز رکھا جائے۔

جدید علوم کی قومی زبان میں منتقلی کے لیے فوری طور پر حکم دیا جائے کہ وفاقی سطح پر ایک بڑا اور معیاری ’’دارالترجمہ‘‘ قائم کیا جائے جو برق رفتاری سے دنیا کے جدید علوم کو اردو میں ڈھالے اور پاکستان میں پڑھنے والے طالب علموں کو تمام جدید علوم قومی زبان میں دستیاب ہوں۔ اس کے ساتھ ہی  مکمل طور پر خیبر تا کراچی ذریعہ تعلیم مکمل طور پر قومی زبان میں کیا جائے۔ اردو کی تمام مطبوعات سمیت تمام جدید بصری و نشری مواد کے لیے سرکاری سطح پر خصوصی زر تلافی دی جائے تاکہ اردو اخبارات و رسائل اور کتب سے لے کر تمام جدید اردو مواد ہر عام آدمی کی دسترس میں آئے۔

عدالتی فیصلے اردو میں شایع کرنا قومی زبان کے فروغ اور نفاذ میں ایک اہم قدم ہے۔ عدالتی فیصلے قومی زبان میں بھی شایع کرنے کے فیصلے کی نیت کو وسعت دینا ضروری ہے۔ عوام  عدالت میں  بدیسی زبان کا سامنا تو کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ تعلیم سے معاشرت تک قدم قدم پر اس کے لیے انگریزی زبان کی وجہ سے مسائل ہی مسائل ہیں، جسے حل کرنا حکومت کا کام ہے۔ دنیا بہت تیزی سے آگے جا رہی ہے، اگر اب بھی ہم مصلحتوں کا شکار رہے تو تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں کے ہاتھوں روند دیے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔