شیر اور بکری

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 17 مئ 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی عمل کو غلطیوں اور دھاندلیوں سے پاک بنانے کے لیے طریقہ بظاہر بہت اچھا ہے۔ بیلٹ پیپر کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بھی بہت بہتر تھا، مثلاً ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے جب بیلٹ پیپر اور دیگر سامان پریذائیڈنگ آفیسر کو دیا جاتا ہے تو بیلٹ پیپر بکس (Books) سیریل نمبر کے ساتھ دی جاتی ہیں اور دوران ووٹنگ استعمال ہونے والے اور بقیہ رہ جانے والے بیلٹ پیپر کے اندراج اور رپورٹ کا طریقہ بھی وضع کیا ہوا ہے۔ خواتین اور مردوں کے بیلٹ بکس میں ڈالے گئے ووٹ کی نہ صرف گنتی الگ الگ ہوتی ہے بلکہ کس بیلٹ بکس میں کس نمبر کے بیلٹ پیپر ڈالے گئے اور کب اور کس وقت کس نمبر سے بیلٹ پیپر نئے بکس میں ڈالے گئے، پھر ان بیلٹ کی کائونٹر سلپ پر بھی ووٹ ڈالنے والے کا شناختی کارڈ نمبر، حلقہ نمبر اور انگوٹھے کا نشان بھی لیا جاتا ہے۔

یوں اگر غلط یا جعلی ووٹ باہر سے بیلٹ بکس میں ڈالا جائے گا تو باآسانی اس کی نشاندہی ہوجائے گی، کیونکہ سیریل نمبر کا فرق ظاہر ہوجائے گا۔ اسی طرح نادرا کی مدد سے انگوٹھے کے نشان سے بھی جعلی ووٹ کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔ نیز انتخابی عمل میں حصہ لینے والے آزاد اور سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی دوران ووٹنگ اور اختتام پر گنتی کے وقت موجودگی ان تمام جعلی ووٹوں کی فوراً نشاندہی کردیتی ہے جو آنکھ بچا کر بیلٹ بکس میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ تمام افراد ووٹ دینے کے لیے آنے والے کے نام کو اپنی انتخابی فہرست میں مارک کرتے ہیں اور ان مارک شدہ ناموں کو آخر میں گن لیتے ہیں جس سے ووٹوں کی کل تعداد تمام جماعتوں کے نمایندوں کو فوراً ہی پتہ چل جاتی ہے۔ لہٰذا چند ووٹ بھی اس پروسس سے ہٹ کر بیلٹ بکس تک چاہے جتنی صفائی و مہارت سے ہی کیوں نہ پہنچا دیے جائیں، ووٹوں کی کل تعداد بڑھ جائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ کتنے ووٹ جعلی طور پر ڈالے گئے ہیں۔

مختصراً یہ کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپرز بکس کے استعمال کا اندراج اور بیلٹ بکس میں ڈالے گئے ووٹ کا درجہ بہ درجہ ریکارڈ کا اندارج، نیز سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کی موجودگی میں ہر ووٹر کے کوائف کی چیکنگ اور پھر گنتی کے وقت ان کی موجودگی صد فی صد نہ سہی لیکن اس کے قریب تر ضرور انتخابی عمل کو شفاف بنا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر آج تقریباً تمام ہی جماعتوں نے مختلف حلقوں میں احتجاجی دھرنے کیوں دیے ہوئے ہیں اور جعلی ووٹوں کی اطلاعات خصوصاً یہ کہ 100سے بھی زائد فیصد ووٹ کیسے ڈالے گئے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جواب سب کے سامنے ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس قسم کا عمل دھونس، طاقت اور اسلحہ کے استعمال سے ہی ممکن ہے، جیسا کہ معروف گلوکار ابرار الحق نے شکوہ کیا۔

بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں پھل اور سبزی فروش گاہک کو سامان دیتے وقت وزن کرنے میں آنکھوں کے سامنے ڈنڈی مار دیں بلکہ گلے سڑے پھل بھی شامل کردیں، جہاں ایمانداری اور اخلاقیات نہ ہونے کے برابر ہوں، جہاں جھوٹی گواہیاں دی جائیں، بھرے بازار چند ہزار کے موبائل کے لیے خواتین اور معصوم بچوں کو گولی مار دی جائے، اس معاشرے میں یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص یا جماعت اقتدار کی سونے جیسی کرسی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرے مگر ایمانداری اور شرافت کا مظاہرہ ایک دودھ والے یا سبزی فروش سے زیادہ کرے جب کہ ہم سب جانتے ہیں ہمار ے معاشرے میں ایک عام آدمی کے مقابلے میں سیاسی کارکن ہی سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، اور یہ مثل بھی ہمارے لیے ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘۔

کیا ہم ایسے منظرنامے میں یہ توقع کرسکتے ہیں جو امیدوار اپنے حلقے میں انتہائی طاقتور ہو وہ ووٹنگ کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے اپنا کردار بالکل غیر جانبدار رکھے گا؟ جہاں سیاستدانوں کا دامن کرپشن سے داغدار ہو وہ شفاف انتخابات کا ’’رسک‘‘ کیسے لے سکتے ہیں؟ یہ تاثر بھی عام ہے کہ جو علاقہ جس گروپ کا گڑھ ہوتا ہے وہ انتخابی عمل میں وہاں سیاہ وسفید کا مالک ہوتا ہے اور وہاں یقیناً جعلی ووٹ بھی پڑتے ہیں، یہ کسی ایک گروپ کی بات نہیں، پورے ملک کا یہ حال ہے۔

اگر صورتحال یہی ہے تو پھر اہم ترین سوال یہ ہے کہ جعلی ووٹوںکے عمل کو کیسے روکا جائے۔ شفاف انتخابی عمل کیسے ممکن بنایا جائے؟ اس کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر فوج یا رینجرز کا جوان ہونا چاہیے۔ ابھی تک انتخابی عملے کے لیے اساتذہ اور سرکاری ملازمین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ معاشرے کی سب سے نرم مزاج شخصیت کے حامل طبقے کو انتخابی عملے خصوصاً پریزائیڈنگ افسر بنانا کہاں کی عقلمندی ہے جب کہ سب جانتے ہیں کہ دھونس، دھمکی اور اسلحہ کا استعمال پولنگ اسٹیشن پر ناممکن نہیں ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک شریف النفس اور سیدھا سادا انسان یعنی ایک استاد، پولنگ اسٹیشن پر سیاسی غنڈوں اور مسلح افراد کا دبائو قبول کرنے سے انکار کیسے کرسکتا ہے؟

حالیہ الیکشن میں بھی بعض جگہ یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ آدھی رات کو جب پریزائیڈنگ افسر پولنگ اسٹیشن پر پہنچا تو اسے مسلح افراد کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں اور بیلٹ پیپر بکس ان کے حوالے کرنے کو کہا گیا، پھر یہ بھی حقیت سب جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں نوکریاں سفارش کے بغیر نہیں ملتیں بلکہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر ملازمت ملتی ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو ملازمت سیاسی پلیٹ فارم سے ملے وہ ووٹنگ کے عمل میں غیر جانبدار کیسے رہ سکتے ہیں؟ پھر موجودہ خوف کے ماحول میں اساتذہ سمیت کوئی بھی شخص سیاسی جماعتوں کے مسلح افراد سے نمٹنے کے لیے دم خم کہاں سے لاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ جب الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے اساتذہ کے نام آئے تو کراچی شہر کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر ڈیوٹی کینسل کرانے ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچ گئی۔

یہ فیصلہ درست نہیں جس کے تحت تمام عملہ اساتذہ اور سرکاری ملازمین میں سے منتخب کیا گیا۔ یہ حقیت پیش نظر رہنی چاہیے تھی کہ خوف کے جس ماحول میں بڑے بڑے سورمائوں کے چھکے چھوٹ رہے ہوں وہاں بھلا ایک استاد کیسے ان حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ جن حلقوں میں اب دوبارہ پولنگ ہورہی ہے اگر ہم واقعی شفاف پولنگ چاہتے ہیں تو پولنگ اسٹاف میں کم از کم پریزائیڈنگ افسر فو ج یا رینجرز کا جوان مقرر کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہی بیرونی دبائو کا سامنا کر سکتا ہے، ایک عام استاد نہیں۔ تازہ اطلاع بھی یہی ہے کہ کراچی شہر میں دوبارہ پولنگ کے لیے رحیم یار خان، صوبہ پنجاب سے اساتذہ کو بلایا جانا تھا مگر ان اساتذہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ جیل تو جاسکتے ہیں مگر کراچی شہر ڈیوٹی کے لیے نہیں جائیں گے۔

ان اساتذہ کا یہ خوف ثابت کررہا ہے کہ صرف اساتذہ کے عملے پر مشتمل اسٹاف لگانے سے الیکشن کبھی شفاف نہیں ہوسکتے کیونکہ سیاسی کارکنوں کے دبائو کا ایک نہتا استاد کیسے مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شیر سے مقابلے کے لیے کسی بکری کا انتخاب کیا جائے، شیر کبھی بکری کے خوف سے بھاگ نہیں سکتا۔ ایسے وقت جب حکومت سند ھ نے بھی NA-250 میں پولنگ کرانے سے معذرت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے تجاویز طلب کی ہیں کہ کس طرح یہ انتخابی عمل ممکن بنایا جائے یہ ضروری ہے کہ آیندہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر کم از کم فوجی یا رینجرز کا سپاہی مقرر کیا جائے، اگر ہم واقعی شفاف نتائج چاہتے ہیں تو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔