71 سالہ کشیدگی بدستور برقرار

کلدیپ نئیر  جمعـء 10 اگست 2018

بھارت کی آزادی سے تین دن قبل یعنی 12 اگست 1947ء کو میرے والد نے، جو ڈاکٹر تھے، ہم تینوں بھائیوں کو طلب کیا اور پوچھا ہمارا پروگرام کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ میں پاکستان میں ہی رہنا چاہتا ہوں جیسے بہت سے مسلمان بھارت میں ہی رہیں گے۔ میرے بڑے بھائی نے، جو امرتسر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہا تھا مداخلت کرتے ہوئے کہا، کہ مغربی پنجاب میں مسلمان ہندوؤں کو گھر خالی کرنے کے لیے کہیں گے جس طرح کہ مشرقی پنجاب میں ہندو مسلمانوں کو نکلنے کے لیے کہیں گے، میں نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے۔ اگر ہندو گھر خالی کرنے پر تیار نہ ہوں تو۔ بھائی نے کہا ہمیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔

اور ہوا بھی یہی۔ یوم آزادی کے دو دن بعد یعنی 13 اگست کو کچھ مسلم مدبرین ہمارے پاس آئے اور ہم سے گھر چھوڑنے کی درخواست کی۔ میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا ہم کہاں جائیں؟ تو اس نے اپنے گھر کی چابیاں دیتے ہوئے کہا یہ گھر جالندھر میں ہے اور ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ گھر میں مکمل فرنیچر موجود ہے۔ فوراً رہائش رکھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ لیکن جب وہ چلے گئے تو ہم سب کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گئے تاکہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ میں نے کہا میں تو لاہور میں ہی رہوں گا جب کہ انھوں نے کہا وہ امرتسر چلے جائیں گے اور جب یہ ہنگامے ختم ہو گئے تو واپس آ جائیں گے۔ ہم نے اس پر اتفاق کر لیا اگرچہ دل بہت دکھی تھا۔

میری والدہ نے گھر کو تالے لگاتے ہوئے کہا ہم زیادہ سے زیادہ ایک مہینے تک واپس آ جائیں گے۔ لیکن انھیں ایک غیر مرئی سا احساس ضرور تھا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ میرا بڑا بھائی والدہ سے ہم آہنگ تھا۔ میں نے اپنے نیلے کینوس بیگ میں شرٹ اور سفری پائجامہ رکھتے ہوئے کہا ہم نئی دہلی کے محلہ دریا گنج  میں اپنے ماموں کے گھر  اکٹھے ہوں گے۔ میری والدہ نے مجھے 120 روپے دیے کہ ان کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کروں تاآنکہ ہم دوبارہ ملیں۔ میرے والد نے بھی میرا سفر آسان بنا دیا۔ انھوں نے ایک بریگیڈئیر سے کہا جو  ان کا مریض تھا کہ ہمارے تین بیٹوں کو حفاظت سے سرحد پار کرا دو۔ اس نے کہا کہ اس کی جیپ میں زیادہ جگہ نہیں، وہ صرف ایک بیٹے کو لے جا سکتا ہے۔ اگلی صبح مجھے جیپ میں بٹھا دیا گیا۔

اس موقع پر میرے آنسو بہہ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔ سیالکوٹ سے سمبڑیال تک کا سفر آسانی سے گزر گیا لیکن وہاں سے ہمیں ہر دو جانب سے لوگوں کے قافلے آتے جاتے دکھائی دیے۔ ہندو سکھ ادھر سے ادھر جا رہے تھے، مسلمان ادھر سے ادھر آ رہے تھے، اچانک ہماری گاڑی کو روک دیا گیا۔ ایک بوڑھا سکھ گاڑی کے سامنے کھڑا ہم سے التجا کر رہا تھا کہ اس کے پوتے کو بھارت پہنچا دیا جائے۔ میں نے بڑی نرمی سے کہا کہ میں تو ابھی اسٹوڈنٹ ہوں اور اس کے پوتے کو نہیں لے جا سکتا جس کا مجھے افسوس ہے۔ اس بوڑھے سکھ نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا تمام گھرانا قتل کر دیا گیا صرف ایک پوتا بچا ہے، وہ چاہتا ہے یہ زندہ رہے۔ اس کا آنسو بھرا چہرہ مجھے اب بھی یاد آتا ہے، تاہم میں بھی مجبور تھا۔ آخر میں اس کا بچہ کیسے سنبھال سکتا تھا جب کہ مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

راستے میں جگہ جگہ لوگوں کا سامان بکھرا پڑا تھا البتہ لوگوں کی لاشیں ہٹا دی گئی تھیں، تاہم شدید قسم کی بدبو باقی تھی۔ اسی وقت میں نے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ میں دونوں ملکوں کے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کروں گا۔ یہی بڑی وجہ تھی کہ میں نے واہگہ بارڈر پر موم بتیاں جلانا شروع کیا، ایک کام جو میں نے تقریباً 20 سال قبل شروع کیا تھا اس وقت صرف پندرہ بیس لوگ میرے ساتھ تھے۔ اب امن کی شمعیں روشن کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کے جذبے کی کوئی حد نہیں البتہ حکومتیں آڑے آ جاتی ہیں۔ اس سارے علاقے پر کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور وہاں جانے کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ میں نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو لکھا ہے کہ موم بتیاں جلانے کے لیے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ تک جانے کی اجازت دی جائے۔ یہ رسم صرف چند افراد تک محدود ہے۔ میری خواہش ہے کہ سرحد کو نرم کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں میں کشیدگی بھی بتدریج کم ہو سکے۔

جس بس میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور گئے تھے، اس بس پر میں بھی سوار تھا۔ دونوں اطراف پر بہت خوشی کا اظہار کیا گیا تھا اور میں نے سوچا اب باقاعدہ آمدو رفت اور مشترکہ تجارت کا آغاز ہو جائے گا۔ لیکن اب میری امید دم توڑ گئی۔ ماضی میں انٹلیکچوئل (دانشور) موسیقار اور آرٹسٹ مل سکتے تھے اور مشترکہ پروگرام کر سکتے تھے لیکن آج وہ بھی بند کر دیے گئے۔ حکومتیں ویزہ جاری کرنے میں اور زیادہ سخت ہو گئیں۔ اب دونوں اطراف میں سرکاری یا غیرسرکاری طور پر قطعاً کوئی رابطہ نہیں ہے۔

نئے نامزد وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے وہ تجارت اور بزنس شروع کرا دیں گے لیکن مجھے ڈر ہے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں ممکن ہے عمران انھیں عبور نہ کر پائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی رکاوٹ کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہو۔ قیام امن سے بھلا کس کو احتراز ہو سکتا ہے۔ بھارت میں فیصلے منتخب پارلیمنٹ کے ارکان کرتے ہیں ۔کیا عمران خان انھیں راغب کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہے۔ نئی دہلی کا پاکستان سے بات کرنے سے انکار اس امر کا ثبوت ہے کہ رکاوٹ اس طرف سے بھی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔