شناخت سے محروم لوگ

کشور زہرا  جمعـء 10 اگست 2018

اقوام متحدہ کا ایک مسلمہ اصول جو ان تمام ممالک پر لازم ہے جنہوں نے اس کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں ، جس میںایک بنیادی نکتہ کرہ ارض پر موجود انسانیت کی بحیثیت فرد شناخت کا دینا بھی شامل ہے کہ وہ کون ہے ؟ اور اس کی رکنیت کس ملک سے وابستہ ہے؟ ساری دنیا میں کہیں کہیںافراد کو شناخت کا مسئلہ در پیش نظر آتا ہے جب کہ ایشیائی ممالک میں بھی شامل ایسے کئی ملک موجود ہیں جہاں افراد تو بسیرا کرتے ہیں مگر ان کی شہری شناخت کوایک مسئلہ بنادیا گیا ہے۔

ان میں سے ایسے ہی ایک المیہ کا سامنا اس خطے میں جو سارک کے حدود میں آتا ہے جسے ماضی میں متحدہ ہندوستان کہا جاتا تھا، اگرہم گزری صدی پر نگاہ ڈالیں تو متحدہ برصغیر میں خود مختار ر یاستیں اپنا وجود رکھتی تھیں اور ان ریاستوں میں فرد کی رہائشی شناخت کو ہی دائمی تصورکیا جاتا تھا بلکہ گزرے کل کی دنیا اتنی مشکل نہ تھی جتنی آج ہے۔ ماضی میں لوگ اپنی جائے پیدائش یا مستقل رہائش کو پہچان کے طور پہ متعارف کراتے تھے، عام انسانوں کے علاوہ بڑے بڑ ے لوگوں نے علاقے کو اپنی شناخت بنایا، جن میں ’’ رئیس امروہوی، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، مجید لاہوری، ثریا ملتانیکر ، مجید تونسوی ‘‘ وغیرہ، وغیرہ شامل ہیں جب کہ آ ج کی دنیا خود کوگلوبلائزیشن کہلوانے کو ترجیح دے رہی ہے اورکمپیوٹرائزیشن جیسے نظام کی سہولتیں موجود ہیں لیکن فردکی اپنی کاغذی پہچان کے حصول کے نہ ہونے کے سبب وہ بے شناخت ہے۔

ایسے ہی متاثرین میں وہ لوگ جنھیں ہجرتیں کرنا پڑی، اول ہندوستان کے اقلیتی علاقو ں سے آنے والے مسلمان جو ہجرت کرکے پاکستان آئے تواپنی شناخت بڑی کاوشوں اور قربانیوں سے حاصل کیے ہوئے پاکستان کی مناسبت سے پاکستانی ہی رکھنے پر فوقیت دی لیکن جب 17 سال تک اس خطہ پاک پر پیدائش نہ ہونے کی پاداش میں اپنے وجودکو سوالیہ نشان بنتے دیکھا تو پھر ان کی اگلی نسل نے جو اس ہی سر زمین پاک پر پیدا ہونے کے باوجود فرزند زمین نہ ہو نے کے طعنے سے بچنے کے لیے اپنی بنیادی پہچان تو پاکستا نی ر کھی لیکن اجداد کے عملِ ہجرت کو ذیلی شناخت کے طور پر مہاجرکہلا کر اپنے وجود کو منوا بھی لیا گوکہ اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ برابری کے حقوق کے حصول کی سعی میں دو نسلیں برباد ہوئیں۔ حصول کی اس جہد میں ایسا نہیں کہ کچھ نہ ملا ہو،کچھ مادی فائدہ انھیں ملا جو شریک سفر نہ تھے اور نہیں ملا تو انھیںجو اس وقت سے لے کر اب تک اس کارواں کا حصہ ہیں جب کہ یہ ہی شہید بھی ہوئے، اسیر بھی رہے اور آج تک اسیریاںکاٹ رہے ہیں ۔

یہ وہ ہیں جنہوں نے شناخت کا پرچم اٹھا کرآواز حق کو بلندکیا اور جب نہ سنی گئی توٹائر جلا کر اپنے مسائل کی طرف توجہ دلائی تو راہ چلتے، بازاروں ، دکانوں اور دفتروں میں بیٹھے لوگ نکل آئے ۔ قوت کے ان مظاہروں نے ان طاقتوں کو چونکا دیا جن کے کان پر جوں تک نہ رینگتی تھی لیکن وہ ہراول دستہ جوٹائر جلا کر صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا اسے اپنے حق کی آواز اٹھانے پر جرم کی سزا ملتی رہی اور شہرکے تھانوں میں نامعلوم افراد کے نام پرکٹی ہوئی ایف آئی آر (FIR ) ان کے گلوں کی طوق بنتی رہیں، بن رہی ہیں اور نہ جانے کب تک بنائی جاتی رہیں گی لیکن ہاں ! ان قربانیوں کے عوض چاہے حقوق پور ے نہ ملے ہوں مگرشناخت ضرور ملی کہ مہاجرعوام نے مہاجروں کوایوانوں تک پہنچا دیا اور2018  کے الیکشن کے نتائج اس بات کی غمازی کرتے نظر آرہے ہیں کہ مہاجروں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہاجروں کو ووٹ دیا وہ خواہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ۔

دوئم وہ مسلمان جو مغربی سے مشرقی بنگال کی طرف ہجرت کرکے آئے اور وہ خطہ جو مشرقی پاکستان کے حصے میں آیا ان کی پہچان ازخود بہاری بن گئی جس کی سزا انھوں نے تقسیم پاکستان کے وقت بھی اتنی نہیں بھگتی جتنی سقوط ڈھاکہ کے بعد سے لے کر آج تک بھگت رہے ہیں ۔ ان میں وہ محصورین جو بنگلہ دیش میں رہ گئے تھے وہ آ ج تک وہاں کے کیمپوں میں اپنے پاکستانی ہونے کی شناخت کے انتظار میں بدترین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ جو دوسری بار پھر ہجرت کی صعوبتیں سہتے ہوئے مغربی پاکستان میں آکر آباد ہوئے، جن کی ایک بہت بڑ ی تعداد کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں آکر رہائش پذیر ہوئی جسے ایشیا ء کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی کہا جاتا ہے، یہاں آکر انھیں زمین تو ملی لیکن شناخت آج تک ہچکولے کھارہی ہے ۔

انتہائی مشکلات کے بعد جن کو شناختی کارڈ جاری ہوئے تو، لیکن وہ دیے گئے کارڈ بھی مصلحتِ خانہ مردم شماری میں آبادی کوکم دکھانے کے لیے بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی توجیہات پیش کرتے ہوئے ان کے شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے جو آج تک بلا ک ہیں اورآیندہ بھی کسی بہتری کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ان کی توجیہا ت وہ ہیں جنھیں کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر ستر سال کی ضعیف خاتون سے ان کے ماں باپ کا نکاح نامہ مانگنا ؟ باپ یا دادا کی مائیگریشن سرٹیفیکٹ کی کاپی کا طلب کرنا ایک سوالیہ نشان ہے اب ان دو ہجرتوں کے مسائل جھیلنے والے جو آج بھی شناخت سے محروم ہیں وہ کہاں جائیں؟

اسی طر ح وہ بنگالی جو سقوط ڈھاکہ کے وقت مغربی پاکستان میں موجود تھے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے باوجود ان میں سے بہت سرکاری عہدیداران جن میں بڑے بڑے محب وطن پاکستانی تھے ان ہی میں وہ بھی تھے جنہوں نے 1965 کی جنگ میں ہندوستان کے دانت کھٹے کرکے افواج پا کستان کی شجاعت کو چار چاند لگا دیے تھے۔

ان ہی میں محب وطن نورالامین اور محمدعلی تھے جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں یہیں پوری کی اور اسی سرزمین میں دفن ہونے کو ترجیح دی اور ان ہی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی ہنرمندی،کارکردگی اور روٹی روزی کے لیے طویل عرصے سے یہاں مستقل آباد ہیں اور ان تمام کا سب سے بڑا کرب یہ کہ وہ برسہا برس سے پاکستان میں رہتے ہو ئے بھی شہری شناخت سے محروم ہیں۔ اب دیکھنے، سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے صرف نظر سے آبادی میں خوف اور بے یقینی بڑھ جاتی ہے لاکھوں، انسانوں کا مستقبل اور وجود داؤ پر نظرآرہا ہے ۔ یوںتو اس کرب سے مماثلت رکھنے والی ہندوستان کی ریاست آسام میں بھی تقریباً چالیس لاکھ شہریوں کو شناخت سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ ان لوگوں سے بھی اپنے آباؤاجداد کے70  ۔ 80 سال پرانے کاغذات طلب کیے جا رہے ہیں ۔ اس ہی سے ملتا جلتا ایک مسئلہ خطے میں موجود لاکھوں روہنگیا کے لوگوں کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ افغانستان کے شہریوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔

با ت یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسائل ہمار ے دائرہ اختیار میں نہیں لیکن اپنے گھرکودیکھنا اور مسائل کو حل کرنا مکمل طور پر ریاست کی ذمے داری ہے۔کسی بھی انسان کو شناخت نہ دینا نہ صرف انسانیت کی تذلیل ہے، بلکہ اس کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف بھی۔ جو بحرانوں کا سبب بن جایا کرتی ہے جب کہ ہماری ریاست اسی گھمبیر مسئلے کا شکار ہے جن سے نکلنے کے لیے ہمیں مضبوط فیصلے کرے ہونگے ۔ مردم شما ری کوکم دکھانے کی تذبذب سے باہر آنا ہوگا۔ حلقہ بندیوں سے آبادیوں کو آگے پیچھے کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔ حقائق کو تسلیم کرنا ہی عقلمندی کا تقاضہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔