خاموشی اور زبان کی حفاظت

مفتی محمد وقاص رفیع  جمعـء 10 اگست 2018
حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ نیزوں کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔‘‘
فوٹو: فائل

حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ نیزوں کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔‘‘ فوٹو: فائل

عربی زبان کا مشہور محاورہ ہے: ’’ جو خاموش رہا اس نے سلامتی پائی اور جو سلامت رہا اس نے نجات پائی۔‘‘ اسی سے ملتا جلتا مفہوم بہ طورِ محاورہ کے اردو زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: ’’ایک چُپ سو سُکھ‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے اگر انسان خاموش رہنا اور اپنی زبان کی حفاظت کرنا سیکھ لے تو وہ کئی طرح کی آفات و بلیات سے نہ صرف یہ کہ خود مامون رہ سکتا ہے، بل کہ اس سے انسانی معاشرے میں زبان کے سبب جنم لینے والے جرائم و نقصانات سے بھی کافی حد تک حفاظت کا سامان کیا جاسکتا ہے۔

ویسے کہنے کو تو زبان ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی، لیکن اس کا ناجائز اور غلط استعمال ہڈیاں تڑوا دیتا ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی جرائم جنم لیتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق زبان کی تیزی، فحش کلامی، سخت الفاظ، گالم گلوچ اور طعنہ زنی وغیرہ جیسی معیوب چیزیں ہی ہوتی ہیں اور ان سب چیزوں کا بہ راہِ راست تعلق زبان سے ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے مشہور شعر کا ترجمہ یہ ہے: ’’ نیزوں کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اردو کے ایک شاعر نے اس کو نظم کا جامہ یوں پہنایا ہے: ’’ لگا جو زخم زباں کا، رہا ہر دم ہرا۔‘‘ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اوّل تو وہ وہ خاموش رہا کرے اور زبان سے کوئی فضول بات، کوئی فحش کلام اور کوئی ایسی غلط بات ہرگز نہ نکالے کہ جس سے کسی دوسرے کو تکلیف ہو اور اُس کا اثر انسان کی اپنی انفرادی زندگی پر یا دوسرے انسانوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی پر بالواسطہ یا بلاواسطہ پڑتا ہو، دوسرے اگر کبھی بولنا پڑ بھی جائے تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ خیر اور بھلائی ہی کی بات زبان سے نکلے کوئی دوسری لغو اور فضول قسم کی بات زبان سے نہ نکلنے پائے کہ اسی میں آدمی کے دین و دنیا کی بھلائی اور ایمان کی سلامتی مضمر ہے۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت ابومالک اشجعی رضی اﷲ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اﷲ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اس وقت ہم لوگ نوجوان لڑکے تھے، میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ خاموش رہنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب آپؐ کے صحابہ رضی اﷲ عنہم آپس میں گفت گُو کرتے اور بہت زیادہ باتیں کرتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سن کر مسکرا دیتے۔

(معجم طبرانی)

حضرت سماک رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ آپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر اوقات خاموش رہا کرتے تھے۔ (مسند احمد)

حضرت خالد بن نمیر رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما بہت زیادہ خاموش، غمگین اور بے چین رہتے اور عام طور پر فرمایا کرتے کہ میں اﷲ تعالیٰ کی آزمائش سے اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء)

حضرت ابوادریس خولانی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک بزرگ دیکھے جن کے سامنے کے دانت بہت چمک رہے تھے اور وہ بہت زیادہ خاموش رہنے والے تھے اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ ان کا آپس میں کسی معاملے میں اختلاف ہو جاتا تو وہ اسے ان کے سامنے پیش کرتے اور پھر یہ اس معاملے میں جو فیصلہ کرتے سب اس سے مطمین ہوجاتے، میں نے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ ہیں۔ (مستدرک حاکم)

حضرت اسلم رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی طرف جھانک دیکھا تو وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اسی نے تو مجھے ہلاکت کی جگہوں پر لا کھڑا کیا ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جسم کا ہر عضو زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔

(مسند ابی یعلی)

حضرت عیسیٰ بن عقبہ رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! روئے زمین پر کوئی چیز ایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ عمر قید کی ضرورت ہو۔ (حلیۃ الاولیاء) نیز آپؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں بے کار باتیں کرنے سے ڈراتا ہوں اور بہ قدرِ ضرورت بات کرنا ہی تمہارے لیے کافی ہے۔

اسی طرح فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ خطائیں ان لوگوں کی ہوں گی جو دنیا میں فضول بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ (معجم طبرانی) حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے، جب زبان ٹھیک ہوجائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہوجاتے ہیں اور جب زبان بے قابو ہوجائے تو تمام اعضاء بے قابو ہوجاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنی شخصیت کو چھپا پھر تیرا ذکر نہیں ہوا کرے گا (اور تو بگڑنے سے بچ جائے گا) اور خاموشی اختیار کر تو سلامتی میں رہے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خاموشی جنت کی طرف بلانے والی ہے۔ (اخرجہ ابن ابی الدنیا)

حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے تم لوگ بات کرنا سیکھتے ہو ایسے ہی خاموش رہنا بھی سیکھو! کیوں کہ خاموش رہنا بہت بڑی بردباری ہے! اور تمہیں بولنے سے زیادہ سننے کا شوق ہونا چاہیے! اور کبھی لایعنی کا بول نہ بولو! ہنسی کی بات کے بغیر خواہ مخواہ مت ہنسو! اور بلا ضرورت کسی جگہ مت جاؤ۔

(تاریخ ابن عساکر، کنز العمال)

آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ مؤمن کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ محبوب نہیں، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور کافر کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ مبغوض نہیں، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ (حلیۃ الاولیاء)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بندے کو سب سے زیادہ جس عضو کو پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ اس کی زبان ہے۔ (حلیۃ الاولیاء)

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ (تمام) مسلمانوں میں (سب سے) اچھا مسلمان کون ہے؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (صحیح بخاری)

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

(بخاری و مسلم)

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرم گاہ) کی (حفاظت کی) ضمانت دے ( کہ وہ انہیں بے جا اور غلط استعمال نہیں کرے گا) تو میں اسے جنت (میں داخل ہونے) کی ضمانت دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔