جامعات کی 20ویں سب سے بڑی تعداد رکھنے کے باوجود۔۔۔

محمد عاطف شیخ  اتوار 12 اگست 2018
پاکستان میں داخلوں کی شرح بھارت، سری لنکا، نیپال اوربنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں داخلوں کی شرح بھارت، سری لنکا، نیپال اوربنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ فوٹو: فائل

’’نوجوانوں کے لئے محفوظ جگہیں‘‘ (Safe Spaces for Youth)  یہ ہے عنوان آج دنیا بھر میں منائے جانے والے نوجوانوں کے بین الاقوامی دن کا ۔ اقوام متحدہ ان محفوظ جگہوں کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ ہر ایسی جگہ جہاں نوجوان بحفاظت اکٹھا ہو سکیں۔ اپنی ضروریات اور مفادات سے متعلق سرگرمیوں میں شریک ہو سکیں۔ فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بن سکیں۔ آزادانہ طور پر اظہار خیال کر سکیں۔ کھیلوں اور تفریحی سرگر میوں میں شریک ہو سکیں۔ جہاں نوجوانوں کو سرحدوں کے پار ہر کسی سے ڈیجیٹل رابطوں کی سہولیات میسر ہوں۔ ایسی تمام جگہیں ضرورت ہیں آج کے نوجوان کی اور ان کا محفوظ ہونا ان سے استفادہ کی بنیادی شرط۔ اور ایسی تمام جگہیں اپنی محفوظ صورت میں جس ایک چار دیواری کے اندر موجود ہوتی ہیں اْس مجموعہ کا نام ہے ’’یونیورسٹی‘‘۔

جامعات نوجوانوں کے لئے ہر ایسی محفوظ جگہ فراہم کرتی ہیں جو اْن کی تربیت اور تعمیری عمل میں شرکت کے لئے ضروری ہوں۔ اس لئے دنیا بھر میںجامعات تک ہر نوجوان کی رسائی اب ایک بنیادی انسانی حق کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 20 کروڑ نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں (یونیورسٹیز) میں زیر تعلیم ہیں۔ جن کی تعداد 1998 میں 8 کروڑ 90 لاکھ ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود ابھی بھی دنیا بھر میں جامعات نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق یکم جولائی 2018 تک دنیا میں 17سے23 سال کی عمر کے گروپ کی آبادی 82 کروڑ 66 لاکھ 81 ہزار سے زائد ہے۔ (پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی برائے2017-2025 کے مطابق ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے طلباء کی عمر کا گروپ17 سے23 سال تک کاہے) یوں اگر اس

ایج گروپ کو بطور پیمانہ لیا جائے تو اس وقت دنیا کے 24 فیصد یعنی ایک تہائی نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حصول علم میں مشغول ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ کے لئے یونیورسٹی صرف ایک خواب ہے۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کہیں تو جامعات کی تعداد بہت کم ہے تو کہیں یہ معاشی طور پر نوجوانوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ اور کہیں نوجوانوں کو بلحاظ جنس ان تک رسائی کے مساویانہ مواقع میسر نہیں ۔ اکثر شہری علاقوں میں موجودگی کے باعث یونیورسٹیز دیہی علاقوں کے اکثر نوجوانوں کی پہنچ سے دور ہیں ۔ کہیں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں جامعات کو خاص اہمیت نہیں د ی جاتی تو کہیں نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے درکار بنیادی تعلیم کی حامل نہیں۔ غرض وجوہات معاشی ہوں یا معاشرتی یا پھر جغرافیائی ہوں یا سیاسی۔ ہر نوجوان کی یو نیورسٹی تک پہنچ کی راہ میں کوئی نا کوئی رکاوٹ کی صورت حائل ضرور ہے۔

کئی ایک ممالک نے ان رکاوٹوںکو کافی حد تک دور کر لیا ہے اور جامعات کی تعداد میں اضافہ کرکے ان کے اقتصادی اور سماجی فوائد سے فیضیاب ہو رہے ہیں کیونکہ امریکہ کے نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ نامی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک بین الاقوامی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کسی بھی ملک میں جامعات کی تعداد کو دگنا کرنے سے فی کس جی ڈی پی(GDP per  capita) میں 4 فیصد کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے دنیا میں تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ ممالک جامعات کی تعداد میں اضافہ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

اور ان کے یہاںاب جامعات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت بہترہے۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یونیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹا بیس برائے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کے مطابق اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی اداروں( یونیورسٹیز) کی تعداد امریکہ میں ہے جہاں دنیا بھر کی 11 فیصد جامعات موجود ہیں ۔ جن کی تعداد 2038 ہے۔ دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جہاں دنیا بھر کی 9 فیصد یونیورسٹیز ہیں ۔ 7 فیصد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ فلپائن تیسرے نمبر پر ہے جبکہ چین چوتھے اور انڈیا پانچویں نمبر پر ہے۔ ان پانچوں ممالک میں دنیا کی 42 فیصد جا معات موجود ہیں۔ یعنی 7 ہزار7 سو79 ۔ جبکہ دنیا بھر میںاس وقت مجموعی طور پر 18 ہزار 6 سو 50 سے زائد اعلیٰ تعلیم کے ادارے کام کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یو نیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹا بیس برائے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق جنوبی ایشیاء کے آٹھ ممالک میں مجموعی طور پر دنیا کی 6.16 فیصد جامعات موجود ہیں۔ پاکستان جنوب ایشیاء میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ خطہ کی 13.2 فیصد یونیورسٹیز پاکستان میں ہیں۔ جبکہ وطن عزیز دنیا بھر میں جامعات کی تعداد کے حوالے سے 20 ویں نمبر پر ہے جو دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کا عشاریہ اکیاسی (0.81) فیصد ہیں۔

اس حوالے سے اگر ہم ہائر ایجوکیشن کمشن پاکستان کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ اس تناظر میں تو کافی بہتر ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان2017-18 کے مطابق’’ 2001-02 تک ملک میں یونیورسٹیز کی تعداد صرف 74 تھی‘‘۔ 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمشن کے قیام کے بعد سے یکم جولائی2018 تک یہ تعداد بڑھ کر 189 ہو چکی ہے۔ یعنی آزادیء وطن سے ہائر ایجوکیشن کے قیام تک 55 سال تک ہم ملک میں صرف 74 جامعات بنا سکے جبکہ ایچ ای سی کے قیام سے اب تک تقریباً 16 سال میں ہم نے 115 نئی یونیورسٹیز اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹ قائم کئے۔ اس وقت ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا 59.3 فیصد سرکاری اور 40.7 فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہا ہے۔

پاکستان کی سب سے زیادہ جامعات صوبہ پنجاب میں ہیں جن کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے 35 سرکاری اور26 نجی شعبہ میں کام کر رہی ہیں۔ یعنی پاکستان کی 32.3 فیصد جامعات پنجاب میں ہیں۔29.1 فیصد کے ساتھ سندھ دوسرے اور 18.5 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے اور11.1 فیصد کے ساتھ اسلام آباد چوتھے نمبر پر ہے۔ اسی طرح ملک کی سب سے زیادہ سرکاری جامعات بھی صوبہ پنجاب میں ہیں جن کی تعداد 35 ہے جو ملک کی تمام سرکاری جامعات کا31.3 فیصد ہیں۔ جبکہ سب سے زیادہ نجی یونیورسٹیز سندھ میں موجود ہیں ۔

جو ملک بھر کی نجی جامعات کا 41.6 فیصد ہیں اور ان کی تعداد32 ہے۔ صوبہ میں نجی جامعات کی تعداد سرکاری جامعات کی نسبت زیادہ ہے جو صوبے کی کل جامعات کے58.2 فیصد حصہ پر مشتمل ہیں۔آزادی سے اب تک ملک میں یونیورسٹیز کی سب سے زیادہ تعداد کا چارٹر پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہوا جو تعداد میں 53 ہے۔اس کے بعد 52 کی تعداد کے ساتھ سندھ دوسرے، 36 کے ساتھ وفاق تیسرے، خیبر پختونخوا33 کی تعداد کے ساتھ چوتھے اور بلوچستان پانچویں نمبر پر ہے جہاں کی صوبائی حکومتوں نے اب تک 8 یونیورسٹیز کے قیام کے چارٹر منظور کئے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کی حکومتوں نے 7 یونیورسٹیز کو اب تک چارٹرز جاری کئے ہیں۔

ملک بھر میں جامعات کی اس تمام تر دستیابی کے باوجود ایک مسئلہ بہت شدت سے موجود ہے کہ اکثر جامعات اور ان کے کیمپسز ملک کے شہری یعنی ترقی یافتہ علاقوں میں قائم ہیں جس کی وجہ سے یہ دیہی اور پسماندہ علاقوں کے لاکھوں نوجوانوں کی پہنچ سے باہر ہیں اور پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی 2017 کی دستاویز بھی اس امر کی تائید کر رہی ہے جس کے مطابق پاکستان کے120 اضلاع میں سے65 میں کوئی یونیور سٹی یا اس کا کوئی کیمپس موجود نہیں ۔ اس کے علاوہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر موجود منظور شدہ یونیورسٹیز اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس کے حوالے سے یکم جولائی 2018 ء تک دستیاب اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق ملک کی آدھی جامعات یعنی 50.8 فیصد فقط تین شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں موجود ہیں ۔ جبکہ مجموعی طور پر ملک کے48 شہروں میںاعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔

خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ شہروں میں جامعات موجود ہیں۔ جن کی تعداد 15 ہے۔ 11 کی تعداد کے ساتھ پنجاب دوسرے، سندھ کے7، آزاد جموں وکشمیر کے بھی 7، بلوچستان کے 5 اور گلگت بلتستان کے دو شہروں میں یونیورسٹیز موجود ہیں۔کراچی ملک میں سب سے زیادہ جامعات کا حامل شہر ہے جہاں 41 یونیورسٹیز سرکاری اور نجی سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔ اس درجہ بندی میں لاہور 34 کی تعداد کے ساتھ دوسرے اور21 کے ساتھ اسلام آباد تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلام آباد میں اس وقت ملک کی سب سے زیادہ سرکاری جامعات موجود ہیں ۔ جن کی تعداد 15 ہے۔ جبکہ نجی اعلیٰ تعلیم کے حامل اداروں کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں ہے جو پورے ملک میں موجود نجی یونیورسٹیز کا 40 فیصد (31) ہیں۔

اعلیٰ تعلیم صرف انفرادیوں کو ہی نہیں بلکہ معاشرے کے لئے بھی سود مند ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد زیادہ ماحولیاتی شعور رکھتے ہیں۔ صحت مندانہ عادات کے حامل ہوتے ہیں۔ شہری معاملات میں زیادہ شرکت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ آمدن کی وجہ سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ صحت مند بچوں اور خاندان کے سائز کو چھوٹا رکھتے ہیں جس سے مضبوط قومیں تشکیل پاتی ہیں۔ مختصراً اعلیٰ تعلیمی ادارے انفرادیوں کو ناصرف ملازمت کے حوالے سے موزوں اور متعلقہ مہارت فراہم کرتے ہیں بلکہ انھیں اپنے معاشرے کا ایک سرگرم رکن بناتے ہیں۔

اس اہمیت کے باوجود سالِ رواں میں ملک کے 10 لاکھ 99 ہزار8 سو افراد کے لئے اوسطً اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ موجود ہے جبکہ ایتھوپیا جیسے پسماندہ ملک میں 7 لاکھ 38 ہزار3 سو افراد کے لئے ایک یونیورسٹی ہے۔ اگر ہم ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کی اہل عمر کے گروپ (17سے23 سال) کو لیں تو اس وقت دنیا بھر میں اس ایج گروپ کی چوتھی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اور ایک لاکھ 61 ہزار4 سو سے زائد نوجوانوں کے لئے ملک میں اوسطً ایک جامعہ موجود ہے۔

لیکن سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ملک کا ہر 21واں نوجوان یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور بیس نوجوان اس سطح تک نہیں پہنچتے۔ وفاقی وزارت برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2016-17 کے دوران ملک کی جامعات میں مختلف سطح کے تعلیمی پروگرامز میں داخل طلباء کی مجموعی تعداد14 لاکھ 63 ہزار 2سو79 تھی ۔ جبکہ یکم جولائی 2017 تک ملک میں 17 سے23 سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 3 کروڑ 3 لاکھ 25 ہزار8 سو سے زائد تھی۔ یوں گزشتہ سال پاکستان کے صرف4.8 فیصد نوجوان جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ مذکورہ سال ملک کی ایک جامعہ میں اوسطً 7 ہزار 9 سو 10 طالب علم داخل تھے۔

سرکاری یونیورسٹی میں یہ اوسط 10ہزار 8 سو41 اور نجی جامعہ میں 3 ہزار 6 سو10 طالب علم بنتی تھی۔ 2016-17 کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد اسلام آباد کی جامعات میں زیر تعلیم تھی جو ملک کے کل یو نیورسٹی طالب علموں کا 42.6 فیصد تھے۔ 29 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے اور 15.8 فیصد کے ساتھ سندھ تیسرے جبکہ8.9 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا چوتھے نمبر پر تھا۔ اسی طرح ملک میں یونیورسٹیز طلباء کی بلحاظ جنس صورتحال کچھ یوں تھی کہ طالب علموں کا 54.4 فیصد لڑکوں اور45.6 فیصد لڑکیوں پر مشتمل تھا ۔

خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز طلباء کی اکثریت لڑکوں پر مشتمل تھی جوکہ صوبائی سطح پر تمام یونیورسٹیز طلباء کے75.5 فیصد پر مشتمل تھی۔ جبکہ لڑکیوں کا تناسب24.5 فیصد تھا جو ملک بھر میں سب سے کم شرح تھی ۔ اس کے برعکس اسلام آباد کی جامعات میں زیر تعلیم نوجوانوں کی اکثریت لڑکیوں پر مشتمل تھی جو 53.1 فیصد تھی اور یہ شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ تھی۔ مذکورہ سال اسلام آباد ملک کا وہ واحد شہر تھا جہاں ملک بھر کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طالبات کی آدھی تعداد یعنی 49.49 فیصد تعلیم حاصل کر رہی تھی ۔ جبکہ مرد طلباء کی ملکی تعداد کا 36.7 فیصد وفاقی درالحکومت کی جامعات میں مصروفِ تعلیم تھا ۔

ملکی جامعات اپنے بجٹ کا تقریباً 40 فیصد طالب علموں کی فیسوں وغیرہ سے حاصل کرتی ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سب کی پہنچ میں نہیں ۔ سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کی تعداد کم آمدن کے حامل طالب علموں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نا کافی ہیں ۔ اور اکثر والدین نجی جامعات کی بھاری بھرکم فیسیں ادا نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم میں داخلوں کی شرح اتنی حوصلہ افزا نہیں ۔ پاکستان کی قومی ایجوکیشن پالیسی 2017 کے مطابق ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میںداخلوں کی شرح (in higher education  Gross Enrolment Ratio) 2015-16 کے دوران صرف 10فیصد رہی جو کہ جنوبی ایشیاء کے کئی ایک ممالک سے کم ہے۔

مثلاً بھارت میں یہ شرح 24 فیصد، سری لنکا میں 21 فیصد، نیپال میں 16 فیصد اور بنگلہ دیش میں 13 فیصد ہے۔ پاکستان کے دستور کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کو مساوی طور پر سب کی پہنچ میں لائے ۔ اس حوالے سے آرٹیکل 37 کی شق سی کہتی ہے کہ ’’ ریاست فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عمومی طور پر دستیاب کرے اور اعلیٰ تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر سب کی مساویانہ پہنچ میں لائے‘‘ ۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کا ہدف 4 جو کہ تعلیم کے بارے میں ہے اس کے 7 اہداف ہیں۔ ہدف 4.3 فنی، ووکیشنل اور اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہے جس کے مطابق’’2030 تک اس بات کو یقینی بنانا کہ معیاری فنی، ووکیشنل اور اعلیٰ تعلیم تمام خواتین اور مردوں کی مساویانہ پہنچ میں ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر اُن کی دسترس میں ہو‘‘۔

دستورِ پاکستا ن پر عملدرآمد اور بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ملکی وسائل کا اتنا حصہ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم پر ضرور خرچ کریں جتنے کی اُسے ضرورت ہے۔ لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد صورتحال یہ ہے کہ دو صوبوں نے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن تو قائم کر لئے ہیں لیکن تمام صوبے اپنے تعلیمی بجٹ کا صرف 10 سے13 فیصد اعلیٰ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں جوکہ صوبائی ترجیحات میں اعلیٰ تعلیم کو حاصل اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اس کے برعکس 2014-15 میں وفاقی حکومت نے مذکورہ سال اپنے تعلیمی بجٹ کا 77 فیصد اعلیٰ تعلیم پر خرچ کیا ۔

مذکورہ سال وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کے ذریعے ملک میں اعلیٰ تعلیم پر78 ارب روپے خرچ کئے جو ملک بھر میں جامعات پر پبلک سیکٹر میں خرچ ہونے والے کل اخراجات کا 60 فیصد تھے۔ لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص تمام صوبائی اور وفاقی بجٹ مل کر بھی اُس ضرورت کو پورا نہیں کر پا رہے جو کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کی ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ اٹھائیس (0.28) فیصد اعلیٰ تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے تخمینوں کے مطابق یونیورسٹی تعلیم کے حوالے سے پاکستان ویژن2025 کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ملک کو اپنی جی ڈی پی کا 1.40 فیصد اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کرنا ہوگا جو موجودہ بجٹ سے تقریباً 5 گنا زائد ہے۔کیونکہ اس ویژن کے مطابق 2025 تک ملک میں جامعات کی تعداد کو 300 کیا جائے گا۔ سرکاری جامعات کی تعداد کو 195 اور نجی یونیورسٹیز کو 105 تک لے کر جایا جائے گا۔ مستقبل میں قائم ہونے والی ان نئی جامعات میں سے 72 ملک کے کم ترقی یافتہ یعنی پسماندہ علاقوں میں بنائی جائیں گی۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر ضلع کی سطح پر کم ازکم ایک جنرل پبلک سیکٹر یونیورسٹی قائم کی جائے گی ۔ جبکہ ہر ڈویژن کی سطح پر انجینئرنگ یا ہنر مند بنانے کی یو نیورسٹی بنائی جائے گی ۔ اس کے علاوہ تمام طرح کی جامعات میں داخلوں کی تعداد کو 71 لاکھ 72 ہزار تک پہنچایا جائے گا۔ اور پی ایچ ڈی اساتذہ کے تناسب کو 28 سے بڑھا کر 40 فیصد کیا جائے گا۔ لیکن کیا یہ اہداف زمینی حقائق اور ہماری ماضی کی کارکردگی سے مطابقت رکھتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ہماری تاریخ ایسے بہت سے اہداف سے بھری پڑی ہے جن کا تعین زمینی حقائق کے بر خلاف کیا گیا اور نتیجہ نا کامی کی صورت میںسامنے آیا۔ کیا ایسا ہی کچھ ان اہداف کے ساتھ بھی ہوگا یا اس بار ہم سرخرو ہوں گئے؟ یقینا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بہر حال ہمیں امیدِ بہار کے حوالے سے شجر کے ساتھ پیوستہ رہنا چاہیئے۔

چھوٹے شہروں میں جامعات کی کتنی ضرورت ؟

جامعہ گجرات کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نوجوانوںکی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے علمبردار ہیں۔ اور ملک کے چھوٹے شہروں میں جامعات قائم کرنے کی حکمت عملی کے داعی بھی۔ ان کے ساتھ ہونے والی ایک نشست کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

س: پروفیسر صاحب آپ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: میں یہ بات بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ یہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں جب ہمارے طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک کے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن حکومت کی تعلیم دوست پالیسیوں کے نتیجے میں اب ہر طالب علم کو تقریباً ملک کے ہر شہر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع دستیاب ہیں۔ میرے خیال میں یونیورسٹیوں کا بڑھتا ہوا نیٹ ورک اعلیٰ تعلیمی مواقعوں کو لوگوں کی دہلیز تک پہنچانے میں بہت معاون ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں معیار کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ تعداد کو بڑھانے کے لئے عموماً معیار پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے۔ ہمیںاس طرح کے کمپرومائزز سے بچنا ہوگا۔

س:جامعہ گجرات بھی یونیورسٹیوں کے نیٹ ورک کو بڑھانے کی اپروچ کا ایک حصہ ہے۔ آپ کو تو معیار کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا پڑا؟

ج: بالکل نہیں۔ ہماری یونیورسٹی کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو معیشت، سماجی پالیسی اور تحقیق کے شعبوں میں اس قابل بنانا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ تحقیق اور تمام مضامین کی تدریس میں اعلیٰ معیار حاصل کرنا اور گوجرانوالہ، گجرات اور سیالکوٹ پر مشتمل صنعتی مثلث میں عالمی سطح کا ایک ایسا مرکز بنانا ہے جہاں صنعت اور معاشرے کی بہتری کے لئے بڑے پیمانے پر تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور وہ خطے کی بنیادی ضروریات اور ترقی کی رفتار کو تیز تر کر سکے۔ ان مقاصدکے حصول کی جانب ہمارا سفر کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

2004 ء میں اپنے آغاز سے جامعہ گجرات کے طالب علموں کی تعداد، پروگرامز کی تعداد، کیمپسز کی تعداد، عمارتوں کی تعداد، کورسز اور تحقیقی سرگرمیوںکی تعداد میں اضافہ کا عمل جاری ہے اور یہ ایک فطری اضافہ ہے جو ہماری کوالٹی آف ا یجوکیشن کے باعث ہے کیونکہ آج کے مسابقتی دور میں معیار ہی مارکیٹ میں آپ کی بقاء کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کو آپ کی جانب متوجہ کرتا ہے ۔اور یہ ہمارا معیار ہی ہے کہ آج ہم اتنے قلیل عرصہ میں پاکستان کی 14 ویں سب سے زیادہ طالب علموں کی حامل جامعہ ہیں۔

اور طالب علموں کی اتنی زیادہ تعداد کا ہم پر اعتماد ہمارے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اور یہ اُس اپروچ کی اہمیت کا بھی غماز ہے جس کے تحت یونیورسٹیوں کے نیٹ ورک کو پھیلایا جارہا ہے۔ ایک یونیورسٹی کے طور پر اعلیٰ معیار کی تحقیق اور ایجادات کو فروغ دینے کے لئے ہمیں اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے۔کیونکہ داخلے اور بھرتیوں کے لئے ہم صرف اور صرف میرٹ کی پالیسی پر کاربند ہیں ۔

س:میرٹ کی آپ نے بات کی جو کہ یقیناً اچھی ہے لیکن کیا اعلیٰ تعلیم پھر صرف بہترین طالب علموں کا ہی حق ہے؟ باقی طالب علم کیا کریں خصوصاً سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن کے حامل انھیں کہاں داخلہ ملے؟

ج: دیکھیں اس حوالے سے چند باتیں مدنظر رکھنی ضروری ہیں۔ ایک تو ہمارے ملک میں جامعات خصوصاً سرکاری جامعات کی تعداد ابھی ضرورت کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اس لئے نشستیں بھی محدود ہیں۔ جن پر داخلہ کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم سب کو داخلہ نہیں دے سکتے، اس لئے میرٹ کے نظام کے تحت داخلہ دیا جاتا ہے۔ اور جو بھی نوجوان میرٹ پر پورا اترتا ہے اُس کا پہلا حق ہے کہ اُسے داخلہ دیا جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان کا دستور بھی یہ کہتا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں داخلے میرٹ کی بنیاد پر مساویانہ طور پر فراہم کئے جائیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یونیورسٹیز نے صرف ڈگری ہولڈرز ہی فارغ نہیں کرنے ہوتے بلکہ معاشرے کو وہ طالب علم دینے ہوتے ہیں جو کل کو ملک کے ادارے چلانے کے قابل ہو سکیں۔ اس لئے داخلوں میں فوقیت بہترین طلبا کو دی جاتی ہے۔ رہی بات باقی بچ جانے والے طالب علموں کی تو اعلیٰ تعلیم بے شک اُن کا بھی حق ہے اور اُن کے حق کو اس طرح پورا کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں مزید جامعات خصوصاً فنی مہارت سکھانے والی جامعات(Skilled Universities ) کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تاکہ جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں میں ایک توازن قائم رہے، مارکیٹ کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں اور نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بھی کم ہو۔

س:ملک میں جامعات کی تعداد میں اضافہ سے طلباء کو کیا فائدہ، کیونکہ اس وقت بھی ملک کی زیادہ تر جامعات بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں؟

ج: واقعی ایک زمانہ تھا جب ملک میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع صرف چند بڑے شہروں تک ہی محدود تھے اور طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ان شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ یوں وسائل کی کمی کے شکار ذہین طالب علم اعلیٰ تعلیم کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر پاتے اور تعلیمی عمل کو خیرباد کہہ کر ملکی ترقی میں اپنے کردار کو محدود کر دیتے تھے۔ لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد ملک بھر میں سرکاری اور نجی شعبے میں زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ تاکہ شہروں میں موجود طلب کو بھی پورا کیا جا سکے۔ اور ملک کے ایسے علاقوں کو بھی فوقیت دی گئی جو وسائل ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی سہولت سے محروم تھے۔

گجرات کا شمار بھی ملک کے ایسے ہی شہروں میں ہو تا تھا جہاں یونیورسٹی کی سہولت موجود نہ تھی اور مقامی و گرد ونواح کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ جبکہ صنعتی شہر ہونے کے باعث یونیورسٹی کی ضرورت دوچند تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے2004 میں جامعہ گجرات کا قیام عمل میں آیا۔ اپنے قیام کے 14سال بعد آج یو نیورسٹی آف گجرات نے ملک کے تمام شہروں میں جامعات کے آغازکی حکمت عملی کی کامیابی کا استعارہ بن کر دکھایا ہے۔

س:یہ اچھی بات ہے کہ ملک کے چھوٹے شہروں میں بھی جامعات کھولی جا رہی ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے اس میں ابھی وقت لگے گا ۔ تب تک کیا کیا جائے؟

ج: اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ملک کے ایسے پسماندہ علاقے جہاں یونیورسٹیز موجود نہیں یا اُن کی تعداد کم ہے، ایسے علاقوں کے اہل طالب علموں کے لئے ملک کی دیگر جامعات میں کوٹہ ہونا چاہئے۔ جامعہ گجرات کو ہی لے لیں ۔ ہم نے ملک کے پسماندہ اور محروم علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لئے بھی خصوصی اقدامات کئے ہیں ۔ دیکھئے، تعلیم کے حوالے سے پسماندگی ہی بنیادی پسماندگی ہوتی ہے۔ خصوصاً بلوچستان اور فاٹا میں معدنی دولت کے باوجود لوگوں کی کثیرتعداد ایسی ہے جو اپنے بچوں کو اعلیٰ سطح پر پڑھا نہیں سکتی۔

اس لئے بلوچستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے افسران، سیکٹریز کی تعداد اور تناسب قومی سطح پر کم ہے جس کی وجہ سے بلوچستان اور فاٹا کے مسائل صحیح طور پر حل نہیں ہو پا رہے ا ور وہاں میعاری اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی کم ہیں ۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ وہاںکے لوگ آگے آئیں معیاری تعلیم حاصل کریں اور اپنے صوبے / علاقہ کی ترقی کے عمل کو تیز تر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ا س لئے ہم نے اپنی یونیورسٹی کے ہر شعبہ اور کالج میں بلوچستان اور فاٹا کے طلبا و طالبات کے لئے نہ صرف ایک ایک سیٹ رکھی بلکہ یہ پالیسی بھی اپنائی کہ ان علاقوںسے تعلق رکھنے والے طلبا وطالبات کی مالی مشکلات کو بھی حل یا کم سے کم کیا جائے۔ حکو متی پا لیسی کے تحت ٹیوشن فیس کے ساتھ گجرات یونیورسٹی نے ان بلوچستانی اور فاٹا کے طالبعلموں کے ہوسٹل کا کرایہ بھی معاف کیا ہوا ہے۔ انھیں صرف میس چارجز ادا کرنے ہوتے ہیں۔ گجرات یونیورسٹی کے 37 شعبے ہیں اور پانچ کالج ہیں ۔ ہم نے سال 2017-18 کے دوران بلوچستان اور فاٹا کے طلباء و طالبات کے علاوہ گلگت بلتستان کیلئے بھی ایک ایک سیٹ رکھی ہے ۔

س:سرکاری جامعات میں سیکنڈ شفٹ شروع کرنے سے بہت سے مزید طلباء کو داخلہ مل سکتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

ج: میرے خیال میںاس سے صرف منافع ہی کمایا جا سکتا ہے جبکہ اس کا تعلیمی اعتبار سے اتنا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دیکھیں معیار اور مقدار دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر مقدار زیادہ ہوگی تو معیار متاثر ہوگا اور اگر معیار اچھا کرنا ہے تو مقدار کو بھی ایک حد میں رکھنا ہوگا۔ اور ہر جامعہ کا بنیادی مقصد معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ جب آپ یونیورسٹی اساتذہ کو Over burden  کر دیں گے تو پھر معیار کیسے قائم رہ سکے گا؟ اس بات کو ایک اور طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کا بنیادی کام تحقیق ہے اور یہ کام زیادہ وقت کا، سرپرستی اور راہنمائی کا متقاضی ہے۔ اس لئے دو شفٹوں میں کس طرح یہ کام اپنی پوری تندہی سے ہو سکے گا؟ اس لئے میں جامعات میں سیکنڈ شفٹ کا سپورٹر نہیں ہوں ۔ لیکن ما ر کیٹ کی ضرور یا ت کو پورا کرنے کیلئے اگر کچھ مضا مین سیکنڈ شفٹ میں ہوں تو کو ئی حر ج نہیں بشر طیکہ معیار اور مقدار دونوں متاثر نہ ہو ں۔

س:آپ کی بات معقول ہے لیکن سرکاری جامعات میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ سیکنڈ شفٹ میں سیلف فنانسنگ کی بنیاد پر داخلے دئیے جا رہے ہیں۔کیا سرکاری جامعات بھی پھر پیسہ کمانے میں مصروف ہو جائیں؟

ج: یہ ایک غلط روایت ہے اسے فی الفور ختم ہونا چاہئے۔

س:جب آپ نے ہم نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی تھی اُس وقت سرکاری جامعات کی برائے نام فیسیں ہوا کرتی تھیں۔ اب مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ سرکاری جامعات کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایسے میں پرائیویٹ اور سرکاری کا فرق کیسے برقرار رہے گا؟

ج: فیسوں میں اضافہ ایک فطری عمل ہے۔ جب آپ تحقیق پر مبنی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو تحقیق کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا بھر میں جامعات اپنے ذرائع سے پورا کرتی ہیں۔ لہٰذا فیسوں میں اضافہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ اور آپ یہ دیکھیں گے کہ پوری دنیا میں یونیورسٹی لیول کی تعلیم قدرے مہنگی ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ کو میں آپ سے ابھی ذکر کر چکا ہوں۔ اور رہا سوال آپ کا کہ پھر سرکاری اور نجی جامعہ میں کیا فرق رہے گا؟۔ ایک بات تو طے ہے کہ آج بھی سرکاری جامعات کی فیسیں نجی جامعات کے مقابلے بہت کم ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ حکومتوں نے بھی اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے جامعات کی فنڈنگ کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے جامعات کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے فیسوں میں کبھی کبھار اضافہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن بے تحاشہ اضافہ یقیناً ایک زیادتی ہے۔

س:یعنی اس کا مطلب ہے کہ اسکول ایجوکیشن کی طرح یونیورسٹی تعلیم مفت فراہم نہیں کی جا سکتی؟

ج: ایسا ممکن نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ حکومتی سطح پر ہر طالب علم کی حوصلہ افزائی کے لئے گرانٹ اور بلاسودی قرضوں کی سہولت دی جائے۔ اس کے علاوہ نجی شعبہ کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ جامعات کے طالب علموں کے لئے زیادہ سے زیادہ سکالر شپس فراہم کریں ۔ ڈونرز / فلاحی ادارے بھی اس کارِخیر میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔

جامعات بھی ہر سال اپنے وسائل میں سے اسکالر شپ کی مد میں کافی فنڈز خرچ کرتی ہیں۔ ہماری جامعہ ہر سال 6 کروڑ سے زائد مالیت کی سکالرشپس اپنے وسا ئل سے طلباء کو فراہم کر رہی ہے۔اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی کیا ہے کہ پہلے صرف بی، ایس اور ایم اے کی سطح پر اسکالر شپس دی جاتی تھیں جس کا دائرہ کار بڑھا کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح تک کر دیا گیا ہے۔ آج یونیورسٹی میں داخل ہونے والا کوئی غریب اسٹوڈنٹ اس لئے جامعہ نہیں چھوڑ سکتا کہ وہ جامعہ کی فیس ادا نہیں کر سکتا۔ ہم نے ایسا نظام وضع کیا ہے کہ غریب طلباء کی آدھی سے لیکر پوری فیس تک معاف کردینے کی سہولت موجود ہے۔ جبکہ ذہین طلباء جنہو ں نے اپنے شعبہ میں پہلی تین پوزیشنز حاصل کی ہوں اُن کے لئے بھی اسکالر شپ کا بندوبست ہے۔

س:ملک میں یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی بنیادی تعلیم کے حامل نوجوانوں کے جامعات میںداخلہ لینے کے حق کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے جو معاشی طور پر اُن کے سرپرستوں پر بوجھ کا باعث نہ بنے؟

ج: اس سلسلے میں سب سے ضروری ہے کہ ملک میں مزید جامعا ت سرکاری اور نجی شعبہ میں قائم کی جائیں کیونکہ اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ملک کے چھوٹے اور درمیانے سائز کے شہروں میں جامعات بنانے پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ مثلاً جب آپ کسی چھوٹے شہر میں یونیور سٹی بناتے ہیں تو اس سے ملحقہ بڑے شہر کی جامعات پر بوجھ کم ہو جاتا ہے جس سے بڑے شہر کے رہائشی زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو جامعات میں داخلے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔طالب علموں کی زیادہ تعداد کی ڈیمانڈ کی وجہ سے فیسوں میں ہونے والا مصنوعی اضافہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے شہر سے آئے ہوئے طلباء کے ٹرانسپورٹ اور رہائش و خوراک کی مد میں آنے والے اخراجات بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کو اپنے شہر میں یونیورسٹی کی سہولت مل جاتی ہے۔ کئی ایسی بچیاں بھی یونیورسٹی کی تعلیم کے دھارے میں آجاتی ہیں جن کے والدین اُنھیں دوسرے شہر کی جامعات میں بھیجنے کو تیار نہیں ہوتے اور چھوٹے شہروں کی جامعات کی فیسیں بھی بڑے شہروں کی جامعات کی نسبت قدرے کم ہوتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔