جہاں گشت

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 12 اگست 2018
کُتّے نے عاجزی سے کہا،’’میں ضرور آپ کا راستہ چھوڑ دوں گا‘‘۔ فوٹو: فائل

کُتّے نے عاجزی سے کہا،’’میں ضرور آپ کا راستہ چھوڑ دوں گا‘‘۔ فوٹو: فائل

 قسط نمبر 7

کہاں چلا گیا تھا تُو اور جانا ہی تھا تو بتا کے کیوں نہیں گیا، کوئی مشکل تھی تو بھی بتانا تو تھا، اور اگر مزدوری کم دے رہا تھا تب بھی بات تو کرنا تھی مجھ سے، میری عادت خراب کردی تھی تُو نے، مجھے تو تیرے گھر کا بھی نہیں پتا تھا، کہیں اور کام کرنے لگ گیا تھا کیا، تجھے تو معلوم ہی نہیں کہ تیرے جانے کے غم سے میں بیمار پڑگیا تھا، پُورا ہفتہ دکان بند رہی، میری حالت کیا تھی جانتا ہے تُو، ایسا لگ رہا تھا کہ میرا سگا بیٹا کہیں گُم ہوگیا ہے، لیکن بابو تُو کیسے جان سکتا ہے، ابھی بچہ ہے ناں کبھی باپ بنا تب تجھے معلوم ہوگا، لیکن خوشی بھی بہت ہے تیرے آنے کی، خدا کا شُکر ہے صحیح سلامت واپس آگیا ہے تُو۔

وہ بہت مضطرب تھے اور میری سنے بغیر بولے چلے جارہے تھے، میں نے کئی مرتبہ اپنی صورت حال بیان کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بس خود ہی بولتے چلے گئے۔ دکان کھول کے میں نے صفائی کی۔ اتنے میں ایک لڑکا اور آگیا۔ اسے بھی کام پر رکھا ہے ابھی اسے ایک ہفتہ ہی ہوا ہے، وہ بولے۔ مغرب کے بعد ہم نے دکان بند کی اور انہوں نے اپنی موٹرسائیکل اسٹارٹ کی۔ مجھے آج کی دیہاڑی کل دیں گے کیا آپ؟ میں نے پوچھا۔ نہیں آج ہی دوں گا، بیٹھ میرے پیچھے۔ میں ان کے پیچھے موٹرسائیکل پر بیٹھ گیا۔ اچھا اب بتا کہاں ہے تیرا گھر؟ میں تیرے گھر والوں سے مل لوں گا، پہلے بھی تو غائب ہوگیا تھا، تو مجھے تیرا گھر معلوم نہیں تھا، بتا کہاں چلوں؟ اب میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے انہیں قبرستان چلنے کا کہا۔

قبرستان شروع ہوا تو وہ رک گئے۔ کہاں لے کر جا رہا ہے مجھے؟ اپنے گھر اور کہاں، میں نے کہا۔ یار قبرستان کے اندر گھر ہے تیرا ؟ جی میرا گھر قبرستان میں ہی ہے۔ وہ تھوڑے پریشان ہوئے لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ مغرب کے بعد قبرستان کچھ زیادہ ہی پُراسرار ہوجاتا ہے، اور سچ یہ ہے کہ سارا دن سویا ہوا قبرستان دراصل رات میں جاگ پڑتا ہے، اس پر کبھی آگے بات کریں گے۔ کچی پکی قبروں سے گزرتے ہوئے ہم اپنے ٹھکانے پر پہنچے۔ یہ ہے جی میرا گھر۔ دو پختہ قبروں کے درمیان جن کے اردگرد چھوٹی سی چاردیواری اور اس پر ایک چھت بھی تھی، نہ جانے کس کی قبریں تھیں وہ، ان پر کتبے تو لگے ہوئے تھے لیکن نہ جانے کتنے پرانے تھے کہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان پر کیا لکھا ہوا ہے۔ وہ پریشان ہوکر مجھے دیکھنے لگے۔ میں سمجھا نہیں، یہ کہاں لے آیا تُو مجھے، کیوں مذاق کررہا ہے مجھ سے۔ وہ بولے چلے جارہے تھے۔

میں آپ سے مذاق نہیں کررہا، یہیں رہتا ہوں میں، اسی جگہ، اسی قبرستان میں۔ میری سنجیدہ شکل دیکھ کر وہ بولے۔ تُو تو جیتے جی قبرستان پہنچ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ایسا ہی ہے بس۔ لیکن اُس نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا، اس کالی چادر والی نے۔ کون چادر والی، کہاں رہتی ہے وہ! انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ بس وہ ہے، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ لیکن کون ہے آخر وہ ؟ یہ میں بھی نہیں جانتا۔ وہ کچھ دیر تک خاموش رہے اور مجھے حیرانی سے دیکھتے رہے، پھر انہوں نے پوچھا تجھے ڈر نہیں لگتا یہاں؟ نہیں بالکل بھی نہیں، کس کا ڈر اور کون ہے جو مجھے ڈرائے اور آخر میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ میں اس سے ڈروں۔ میں یہاں اجنبی نہیں ہوں کہ یہ مجھ سے اور میں ان سے ڈروں۔ میں بھی ان کی طرح یہیں کا مکین ہوں، ہم ایک جیسے ہیں۔

چل صبح بات کریں گے میں چلتا ہوں اور ہاں یہ لے اپنی دیہاڑی۔ میں انہیں موٹرسائیکل تک چھوڑنے آیا، یار تو مجھے اس قبرستان سے باہر چھوڑ کر آ۔ میں نے پوچھا کیوں؟ بس ویسے ہی کہہ رہا ہوں مجھے راستہ ہی سمجھ نہیں آرہا۔ آپ کو راستہ سمجھ نہیں آرہا یا آپ ڈر گئے ہیں، میں نے ان سے ہنستے ہوئے پوچھا۔ یار سچ کہہ رہا ہے تُو ، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تُو کیسے یہاں رہتا ہے، مجھے تو اب تجھ سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ میں انہیں قبرستان سے باہر چھوڑ کر آیا اور اپنے کالے کتے موتی سے باتیں کرنے لگا۔ آج میں خود بھی کھانا کھا کر نہیں آیا تھا اور اس کے لیے بھی کچھ نہیں لایا تھا۔ خوب گزرتی ہے ایسے وقت میں، لیکن میں نے موتی کی طرف دیکھا، جو کہہ رہا تھا کہ آج بھوکا ہی سونا پڑے گا کیا۔

میں نے اسے انتظار کرنے کا کہا اور اس کے لیے کھانا لینے بازار چلا گیا۔ بازار میں ایک بوڑھا توے پر کلیجی بھونا کرتا تھا اور دور دور سے مزدور اس کے پاس کھانا کھانے آتے تھے۔ میں بھی کبھی کبھار یہاں کھانا کھا لیتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو خوش ہوئے اور کہنے لگے بچہ تم بہت عرصے بعد آیا، خیر تو تھی ناں، کیا اپنے گاؤں چلا گیا تھا؟ میں نے ہاں کہا اور اپنے موتی کے لیے اس سے روٹی اور کلیجی لے کر واپس پہنچا۔ میں نے اور موتی نے کھانا کھایا اور میں لیٹ گیا۔ یہ جو خدا کی مخلوق ہے ناں ان میں سے کوئی بھی بے کار نہیں ہے، سب کی سب مخلوق کے لیے نافع ہیں، اب چاہے کسی کی سمجھ میں آئے، نہ آئے، لیکن ان میں سے جو کتّا ہے وہ تو بہت غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتا ہے۔

صوفیاء، درویشوں اور فقیروں کے سنگ رہنے والا کتّا، خدا کے کلا م میں بھی اس کا ذکر ہے ناں اصحاب کہف کے ساتھ رہنے والا کتّا، اور صوفیاء نے تو اس کی بہت تعریف کی ہے۔ کبھی بابا بھلے شاہ کو پڑھیں تو آپ اس کی خوبیاں جان پائیں گے، ویسے بھی دنیا بھر میں اس مخلوق سے جو کام لیے جارہے ہیں آپ ان سے بہ خوبی واقف ہیں۔ کتے اور بلی گھروں میں پالے جاتے ہیں، صحابیٔ رسول کریمؐ جناب ابوہریرہؓ تو معروف ہی بلیوں کی وجہ سے ہیں۔ کتے اور بلی میں ایک فرق ہوتا ہے، آپ نے سنا ہوگا بل کہ تجربہ بھی کیا ہوگا کہ بلیّاں اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں، آپ انہیں کہیں چھوڑ بھی آئیں تو وہ پھر سے واپس آجاتی ہیں، کیوں بھلا ؟ اس لیے کہ بلیوں کو اپنی جگہ سے محبت ہوتی ہے، لیکن کتے اپنی جگہ سے نہیں اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں اس لیے آپ جہاں جائیں گے وہ آپ کے پیچھے آئیں گے۔

دیکھیے کیا یاد آگیا، ایک زاہد و عابد اپنی گلی کے کتے سے شدید نفرت کرتا تھا۔ کتا اس کی نفرت سے پریشان تھا، ایک دن وہ زاہد کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا تو زاہد و عابد شخص نے اسے کہا دور ہٹو ناپاک و نجس مخلوق۔ کتے نے عاجزی سے کہا میں ضرور آپ کا راستہ چھوڑ دوں گا لیکن پہلے آپ مجھ سے اپنی نفرت کی وجہ بتائیں۔ عابد و زاہد نے کہا دیکھو تم دیوار کے ساتھ پیشاب کرتے ہو، گلی میں کوئی منگتا آتا ہے تو اس پر جھپٹتے ہو، نصف شب کو بھونکتے ہو اور فجر کے وقت سوجاتے ہو، مجھے تمہاری ان عادات سے نفرت ہے، اب دور ہٹو مجھ سے نجس، میرا راستہ چھوڑ دو۔ کتے نے عاجزی سے کہا دیکھیے اب آپ نے جو کچھ کہا ہے۔

اس پر میری عرض بھی تو سن لیجیے، عابد و زاہد نے کہا جلدی بولو۔ کتے نے عرض کیا، جناب! بات یہ ہے کہ میں پوری زمین کو رب کی سجدہ گاہ سمجھتا ہوں اس لیے کونے میں دیوار پر اپنی حاجت پوری کرتا ہوں، دوسرے جب کوئی منگتا گلی میں آتا ہے تو میں اس پر اس لیے جھپٹتا ہوں کہ اے بندۂ ناداں مجھے دیکھ میں بس اپنے مالک کے در پر پڑا رہتا ہوں، وہ مجھے کچھ دے دیتا ہے تو کھا لیتا ہوں، نہیں دیتا تو صبر کرتا ہوں اور ایک تُو ہے اپنے مالک کے در کو چھوڑ کر در در جاتا اور اپنی حاجات کا سوال کرتا ہے، اور آدھی رات کو اس لیے بھونکتا ہوں کہ پریشان حال لوگوں کو جگا سکوں کہ اٹھو اپنے رب سے جو اس وقت آسمان دنیا پر تمہاری فریاد سننے کے لیے موجود ہے، اس سے لو لگاؤ ، بس اس سے مانگو، اور فجر میں اس لیے خاموش ہوکر سوجاتا ہوں کہ میرے بھونکنے سے نمازیوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے۔

آج وہ مجھ سے پہلے ہی دکان پر موجود تھے۔ یار میں تو رات بھر نہیں سویا اسی لیے جلدی آگیا۔ دوسرا لڑکا آجائے تو ہم دونوں چل کر تیرے کپڑے لے کر آتے ہیں۔ آج کے بعد تو قبرستان میں نہیں رہے گا۔ پھر میں کہاں رہوں گا؟ میں نے پوچھا۔ تو میرے ساتھ میرے گھر میں۔ تجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ باقی کہانی میں تجھ سے ذرا فرصت میں سنوں گا۔ لیکن میں وہاں نہیں رہنا چاہتا۔ کیوں؟ انھوں نے پوچھا۔ یہ میں بھی نہیں جانتا لیکن میرا ٹھکانا وہی ہے۔ آخر میں نے اُن کی بات اِن شرائط پر مان لی کہ وہ مجھ سے کرایہ لیں گے، کھانا پینا میرا اپنا ہوگا۔

ہم قبرستان پہنچے تو میرا سامان غائب تھا۔ کہاں گیا تیرا سامان؟ مل جائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔ مجھے آپ دو دن دیں پھر میں انشا اللہ آپ کے گھر آجاؤں گا۔ مجھے تو تیری کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ یہ کہہ کر انھوں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ہم واپس دکان پر پہنچ گئے۔ سارا دن میں خاموش رہا۔ سوچتا رہا کہ اب قبرستان کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ لیکن قبرستان کو خیرباد کون کہہ سکا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔ انسان کا اصل گھر یہی ہے۔ مجھے یاد آنے لگا جب میں بلیوں والے بابا کے پاس جایا کرتا تھا تو ایک دن میں نے ان سے پوچھا تھا آپ کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ تب انھوں نے مجھے بتایا تھا، میں قبرستان چلا جاتا ہوں۔ میں نے پوچھا تھا۔ کیوں؟ دیکھو بیٹا! انسان کا اصل گھر قبرستان ہے۔

یہ جو گھر ہم اتنی محنت سے بناتے ہیں یہ سب عارضی ہیں۔ انسان کا اصل گھر قبر اور اصل لباس کفن ہوتا ہے۔ اور جب ہمیں وہاں رہنا ہے تو پھر ہمیں وہاں کے طورطریقے سیکھنے چاہییں۔ ان کی زبان سیکھنی چاہیے۔ ان سے پہلے سے ہی راہ و رسم ہونی چاہیے اس لیے کہ جب ہم وہاں جائیں تو اجنبی نہ رہیں۔ اجنبی کے لیے بہت مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ تو میں اس لیے قبرستان جاتا ہوں کہ وہاں کی دنیا کے لیے اجنبی نہ رہوں۔ اور جب میں شہر کے لیے اس دنیا میں جاؤں گا تو مجھے کوئی دشواری نہ ہو، تو قبرستان جانا چاہیے بیٹا۔ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آیا تھا، لیکن میں کبھی کبھی گھر والوں سے چھپ کر قبرستان ضرور جایا کرتا تھا۔ اور یہ بات محلے میں مشہور بھی ہوگئی تھی۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے جاتا تھا، میدان کے بالکل ساتھ قبرستان تھا۔ قبروں کے درمیان ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا۔ کھیلنے کے بعد ہم وہاں منہ ہاتھ دھویا کرتے تھے۔

ایک دن مغرب سے ذرا پہلے ہم منہ ہاتھ دھو رہے تھے کہ مجھے ایک قبر نظر آئی وہ اوپر سے بالکل کھلی ہوئی تھی اور اندر ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا۔ چلو ہم اس قبر کو بناتے ہیں۔ سب ڈر کے بھاگ گئے تھے۔ میں نے پہلے اس ڈھانچے کی ہڈیاں درست ترتیب سے لگائیں پھر ان پر مٹی ڈال دی۔ اندھیرا چھا گیا تھا کہ مجھے میدان میں جیپ کھڑی نظر آئی۔ پھر اس میں سے ہمارا کم دار مہر اترا، اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی، میرے پاس آکر پہلے تو وہ حیران ہوا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر بولا۔ چلو یہ کیا کر رہے ہو۔ لیکن میں بہ ضد تھا کہ میں اس قبر کو بنائے بغیر نہیں جاؤں گا اور اسے مجبوراً میرا ساتھ دینا پڑا۔ میرے دوستوں نے پورے محلے میں یہ بات بھی پھیلا دی تھی، لیکن مجھے اس وقت وہ قبر بناکر جو راحت ملی تھی وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔

یہ ٹھیک ہے کہ میں گھر پہنچ کر ابا جی کے ہاتھوں خوب پٹا تھا اور ابا جی نے مجھ سے سوال کیا تھا، کیوں کیا تم نے یہ؟ ابا جی وہ بے بس انسان تھا اس لیے۔ مجھے تو یہ جنات کی نسل سے لگتا ہے۔ جی یہ میں نے سنا تھا۔ پھر میرا معمول تھا کہ میں اس قبر پر پانی چھڑک کر دو ایک پھول ضرور رکھتا تھا اور گھر چھوڑنے کے بعد بھی میرا معمول رہا تھا۔ شہر چھوڑنے سے پہلے میں نے اس قبر پر جاکر رخصت بھی لی تھی اور اب یہاں کا قبرستان بھی میرا مسکن تھا۔ جسے چھوڑ دینے کے لیے میرا محسن، جسے میں استاد کہتا تھا اصرار کر رہا تھا۔

مغرب کی نماز کے بعد میں نے کھانا کھایا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ میرے کپڑے وہیں موجود تھے اور میرے سنگی ساتھی بھی۔ آپ کہیں بھی خلوص سے رہنا شروع کردیں تو وہاں کی زمین، گُل بوٹے، جھاڑ جھنکار بھی آپ سے مانوس ہوجاتے ہیں۔ یہ سب زندہ ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ ان کے احساسات ہوتے ہیں۔ میرے اردگرد تو کتوں، بلوں، جھاڑ جھنکار کا میلہ تھا۔ میں ساری رات ان سے باتیں کرتا رہا۔ انسان کسی کے دل کی لگن کو نہ جانے تو نہ جانے۔ یہ سب تو جانتے ہیں۔ میرے رب کی بنائی ہوئی مخلوق ہے یہ۔ بے کاروعبث نہیں ہے۔ جسے ہم اہم سمجھتے ہیں وہ اہم ہوتی ہوگی، لیکن جسے ہم غیراہم سمجھتے ہیں وہ بہت اہم ہوتی ہے۔ جس طرح ہمیں دور کا منظر تو نظر آتا ہے اپنے سامنے کا نہیں۔ اس رات میں کھل کر برسا اور وہ پہلی رات تھی جب میں نے بے خود ہوکر ان جھاڑجھنکاڑ کے ساتھ رقص کیا۔ فجر میں ان سے رخصت ہو رہا تھا لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں، یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ میں روز یہاں پر ان سب سے ملنے آؤں گا۔

اپنی چھوٹی سی گھٹڑی اٹھائے میں دکان پر پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد استاد جی بھی آگئے۔ میرا سامان دیکھ کر انھوں نے مجھے گلے لگالیا۔ وہ بہت خوش تھے کہ میں نے ان کی بات مان لی۔ لیکن جیسے ہر پھول جوڑے میں سجنے، شب عروسی میں مہکنے، نازک سی کسی گل بدن کے ہاتھوں کا کنگن بننے کے لیے نہیں ہوتا لیکن ہر پھول محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔ چاہے کوئی بھی موقع ہو وہ کوئی قبر بھی ہوسکتی ہے، ایسے ہی کچھ لوگ جیتے جی شہرخموشاں کے باسی ہوتے ہیں۔ وہی ہوتی ہے ان کی دنیا۔ استاد جی تو خوش تھے لیکن میں اندر سے مرجھایا ہوا تھا۔

لیکن کب تک ،دنیا بہت رنگین ہے، اتنی رنگین کہ اس میں آپ اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی رنگ ہو اور اگر آپ اپنا رنگ کھو بیٹھیں تو کہیں کے نہیں رہتے۔ دکان بند کرکے میں ان کے ساتھ گھر پہنچا۔ زندہ دلوں کی بستی لیاری کا ایک چھوٹا سا گھر، سجا سنورا سا۔ وہ پہلی ہی نظر میں مجھے گھر لگا تھا۔ مکان کو میں خود چھوڑ آیا تھا۔ دو پھول جیسی بچیاں اور وفاشعار بیوی۔ استاد جی نے میرا تعارف کرایا۔ یہ ہے سلطان، بالکل پاگل ہے یہ۔ اب تم ہی اسے سمجھانا میری تو یہ خود سمجھ میں نہیں آتا۔ اس نے مجھے ایک گہری نظر سے دیکھا اور مسکرا دی۔ ٹھیک ہوجائے گا۔ اور یہ لے اس کی دیہاڑی۔ سلطان آج سے تو اس سے لین دین کرنا۔ میں عجیب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ چل ناں ہاتھ دھو لے، نہانا ہے تو نہا لے پھر کھانا کھاتے ہیں، لیکن استاد جی۔۔۔۔ کیا استاد جی چل جلدی کر۔ انھوں نے میری بات درمیان سے ہی کاٹ دی۔ میں نے منہ ہاتھ دھویا تو کھانا لگا دیا گیا تھا۔ بسم اللہ شروع کرو، مہمان ہو تم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔