امریکا اور روس کی قربتوں کا راز

فرحین شیخ  ہفتہ 11 اگست 2018

دنیا بھرکا میڈیا چیخ چیخ کر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوایک پاگل صدر قرار دیتا ہے۔ خود امریکی شہری اور سیاسی تجزیہ کار بھی دنیا کے سامنے اپنی اس بد نصیبی کا اکثر رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر چھانٹ چھانٹ کر ٹرمپ کی انتہائی مضحکہ خیز تصاویر اخبارات اور میگزین کی زینت بنائی جاتی ہیں۔

سب کی طرح میں بھی اب تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ امریکیوں کا واقعی وقت برا تھا جو ایسا احمق شخص انھوں نے اس منصبِ صدارت کے لیے چنا، یہ یقینا ایک تاریخی غلطی ہے اور فلاں فلاں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے توسط سے بننے والی میری رائے میں شکوک و شبہات کی آمیزش ہونے لگی۔

دال میں کچھ کالا دور سے ہی نظر آنے لگا اور پھر یہ یقین ہو گیا کہ ٹرمپ کی شخصیت کے پاگل پن کو دنیا کے سامنے رکھ کر امریکا کی عالمی پالیسیوں اور ترجیحات میں واضح تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو ’’بظاہر‘‘ زیرک اور سمجھدار دکھائی دینے والے کسی دوسرے سیاستدان کے ہاتھوں کروانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ ترقی پذیر ملکوں کی طرح امریکی سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ میں بھی ایک خفیہ ہاتھ ہمیشہ سے ملوث رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دنیا کو دکھایا جانے والا پاگل پن انھی خفیہ ہاتھوں کے شیطانی دماغ کی کارستانی ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ 2016ء کے بعد سے امریکا کی بدلتی ہوئی عالمی ترجیحات کا بغور جائزہ لینے والا کوئی بھی فرد اس حقیقت کا بہ خوبی ادراک کرسکتا ہے۔

اس بات پر آنکھیں بند کرکے کیسے یقین کرلیا جائے کہ ڈونلڈٹرمپ نے تن تنہا انتہائی خطرناک اور متنازعہ فیصلے کرلیے۔ وہ فیصلے جنھیں دنیا توگلوبل رسک قرار دے رہی ہے، خود امریکی قوم بھی نالاں ہے۔ پھر مزے کی بات یہ کہ امریکا کو چلانے والے تمام ظاہر اور مخفی پالیسی ساز ادارے ٹرمپ کے پاگل پن کے ہاتھوں امریکا کی ساکھ اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگتا دیکھ کر دم سادھے بیٹھے ہیں۔ اس بات کو مانا ہی نہیں جاسکتا کہ اسرائیل، شام، افغانستان، یورپی یونین، نیٹو اور بے شمار معاملات پر امریکا کی تبدیل ہوتی ہوئی پالیسیاں اور ترجیحات صرف ٹرمپ کا ون مین شو ہیں۔ سب چھوڑیے صرف امریکا اور روس کے موجودہ تعلقات کی نوعیت کا ہی بغورجائزہ لیں تو الجھن مزید سلجھ جائے گی۔

ٹرمپ اور پیوٹن کی سیاسی قربت سے کون واقف نہیں۔ جولائی کے وسط میں دونوں سربراہان کے درمیان ہیلسنکی میں ہونے والی ملاقات کا دنیا بھرکے میڈیا میں بہت شور مچا لیکن امریکی میڈیا میں تو اس پر ایک طوفان برپا ہوگیا، جسکی وجہ میٹنگ کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں پیوٹن کے مقابل ٹرمپ کا غیرسنجیدہ رویہ، ان کی شکست خوردہ باڈی لینگویج، امریکی انٹیلی جنس اداروں پرعدم اعتماد کا اظہار اور امریکیوں کو ایک بے وقوف قوم قرار دینا تھا۔

ہیلسنکی وہ تاریخی جگہ ہے جہاں امریکا اور روس کے مابین مذاکرات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ اور اس بار پھر پیوٹن اور ٹرمپ کی سربراہی ملاقات یہاں منعقد ہوئی۔ اس ملاقات سے قبل تجزیہ کار یہ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ ٹرمپ کا پیوٹن کے ساتھ رویہ کافی سخت ہوگا، جس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ امریکی انتخابات میں روس نے انھیں منصبِ صدارت تک پہنچانے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی۔ اسی بنا پر امریکا اور روس کے دوطرفہ تعلقات مزید بگڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا، لیکن ٹرمپ اگر سب کی امیدیں بَر لانے کا کام انجام دینے والے ہوتے تو بھلا وہ پاگل کیوں قرار پاتے؟ انھوں نے پیوٹن سے لہجہ توکیا سخت رکھنا تھا، الٹا ان کی طرف داری کرتے کرتے ہی نہ تھکے۔ اسی جذبۂ محبت سے مغلوب ہوکر انھوں نے امریکی پالیسیوں اور اب تک امریکا پر حکمرانی کرنے والوں ہی کو اسٹوپڈ قرار دے دیا جو ٹرمپ کے بقول روس سے دوریاں بڑھانے کا موجب بنے رہے۔

واضح رہے کہ انتخابی مہمات سے لے کر آج تک ٹرمپ امریکیوں کو نو بار اسٹوپڈ قوم قرار دے چکے ہیں۔ امریکی میڈیا نے ہیلسنکی سربراہی ملاقات کی سفارتی ناکامی پر ٹرمپ کو خوب لتاڑا۔ ٹرمپ اس حوالے سے پہلے ہی ذہن سازی کرتے ہوئے یہ کہہ کر روانہ ہوئے تھے کہ وہ چاہے کتنی بھی اچھی طرح معاملات طے کر آئیں انھیں یقین ہے کہ میڈیا انھیں لعنت ملامت ہی کرے گا۔ سو یہی ہوا۔ سی این این نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکا کی قومی خودمختاری کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ خود ٹرمپ سے ہے۔ سب سے اہم بیان تو سی آئی اے کے سربراہ نے دیا، جس میں انھوں نے ٹرمپ کے لیے’’غدار‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔

یہاں سب سے اہم سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کے وہ کون سے خفیہ اہداف ہیں جن کے حصول کے لیے ٹرمپ کے پاگل پن کا کھیل رچایا جارہا ہے۔ میں اسے کھیل اس لیے کہتی ہوں کہ اگر ٹرمپ واقعی پاگل ہوتے تو وہ ایک کامیاب بزنس مین کبھی نہ بن پاتے۔ ان کا پاگل پن ان کی ہر کامیابی کی راہ میں حائل ہوتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اگر صدر ٹرمپ واقعی غداری کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کو عہدے سے برطرف کرنے اور غداری کے امریکی قوانین کے مطابق مواخذہ کرنے کی آوازیں امریکا سے کیوں بلند نہیں ہو رہیں؟ اگر ٹرمپ کو اتنی بڑی حماقت کے بعد بھی صرف لعنت ملامت کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب امریکا کی خارجہ پالیسی کی پکنے والی پوری دال ہی کالی ہے۔

امریکا اپنے دوستوں، قریبی دوستوں اور دشمنوں کی فہرست نئے سرے سے مرتب کر رہا ہے۔ نیٹو سربراہ اجلاس میں جانے سے قبل اور اجلاس کے دوران انھوں نے متعدد بار دیرینہ اتحادیوں پر عدم اعتماد کا اظہارکیا۔ حتیٰ کہ جرمن چانسلر انجیلا مارکل سے اس اجلاس میں ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ دورہ برطانیہ میں بھی انھوں نے تھریسا مے سے بریگزٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا عمل مکمل ہوتا ہے تو امریکا یورپی یونین سے ڈیل کرے گا برطانیہ سے نہیں۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ میں ہونیوالے اپنے خیرمقدم سے کافی غیرمطمئن نظر آئے۔ روس اس صورت حال کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر امریکا اور روس کے وہ کون سے مفادات ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے سارے اختلافات اٹھاکر ایک طرف رکھنے کو سر کے بل کھڑے ہیں؟

امریکا کو تو روس سے محبت کا بخار چین کے خوف کی وجہ سے چڑھا ہوا ہے۔ چین جو پچھلی دہائی تک معاشی میدان فتح کر رہا تھا اب دفاعی میدان سَر کرنے کو تیارکھڑا ہے۔ اس نے طویل فاصلے تک مارکرنیوالے میزائل تیارکرلیے ہیں تاکہ امریکا اور چین کی کسی بھی ممکنہ جنگ میں امریکا کو چین کی سرحدوں سے زیادہ سے زیادہ دور رکھا جا سکے۔

امریکا چین کو ہر قیمت پر نیچا دکھانا چاہتا ہے جس کے لیے اسے زیادہ طاقتور ساتھی کی ضرورت ہے اور ٹرمپ اس بات کا خود اعتراف کر چکے ہیں کہ دنیا میں موجود نیوکلیئر اسلحہ کا 95 فیصد امریکا اور روس کے پاس ہے۔ اس لیے چین کو کچلنے کے لیے امریکا کو روس سے اچھا اتحادی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسری طرف روس ہر قیمت پر امریکا کو شام کے جنگی میدان سے نکال کر اپنی فتح کا جھنڈا لگانا چاہتا ہے ساتھ ہی وہ کریمیا کے روس میں انضمام کے مسئلے پر امریکا کی حمایت چاہتا ہے جس پر پوری دنیا اسے لعنت ملامت کر رہی ہے سوائے ڈونلڈ ٹرمپ کے۔ روس امریکا کی چھتری میں آکر خود کو عالمی پابندیوں سے بھی آزاد کروانے کا خواہش مند ہے۔امریکا اور روس کی یہ نئی کہانی سننے اور پڑھنے میں تو بہت سادہ لگ رہی ہے لیکن بدلتا ہوا یہ منظرنامہ دنیا کو مزید پیچیدگیوں کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ اور ایک پرانی کہاوت پھر حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہے کہ سیاست میں نہ مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ مستقل دشمن، بس مستقل مفادات ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔