قلعہ الموت

 ہفتہ 11 اگست 2018
یہ قلعہ کوہ البرز کے نام سے مشہور برفانی چوٹیوں بنایا گیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یہ قلعہ کوہ البرز کے نام سے مشہور برفانی چوٹیوں بنایا گیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یہ نام پڑھ کر آپ کے ذہن میں کسی جابر اور ظالم حکم راں کے دور، کسی عقوبت خانے یا ایسے مقام کا تصور ابھر سکتا ہے۔ ایسی جگہ کا جہاں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہو، ریاست کے باغی اور شاہ کے نافرمانوں کی گردنیں اڑائی جاتی رہی ہوں، لیکن ایران میں واقع اس قلعے کا نام اس لیے قلعہ الموت نہیں پڑا بلکہ اس کی وجہِ تسمیہ کچھ اور ہے۔

ہم جس قلعے کا تذکرہ کررہے ہیں وہ صدیوں قبل ایرانی صوبے رودبار کے علاقے دیلمانی میں واقع ہے۔ یہ قلعہ کوہ البرز کے نام سے مشہور برفانی چوٹیوں بنایا گیا ہے۔ قلعے کا نام مقامی زبان کے الفاظ ’’الا‘‘ اور ’’آموت‘‘ کا مرکب ہے۔ دیلمانی زبان میں ’’الا‘‘ کا لفظ عقاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ آموت کا مطلب سیکھنا ہے۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ اس علاقے کا حکم راں پہاڑ کے قریب شکار کھیل رہا تھا کہ اس کی نظر پہاڑ کی چوٹی پر اترتے ہوئے ایک عقاب پر پڑی اور اسی منظر نے اسے یہاں قلعہ بنانے پر اکسایا۔ اس کا خیال تھاکہ یہ برفانی چوٹیاں اس کے لیے محفوظ ٹھکانہ اور ناقابلِ شکست ثابت ہو سکتی ہیں۔

بادشاہ نے صلاح مشورہ کیا اور ماہرین سے رائے طلب کرنے کے بعد یہاں قلعے کی تعمیر کا حکم جاری کر دیا۔ اسی دن سے اس مقام کو ’’الموت‘‘ کہا جانے لگا جس کا مطلب تھا ’’عقاب سے سیکھا ہوا۔‘‘ اس کے لفظی معنی شاہینوں کا ٹھکانہ بھی لیے جاتے ہیں۔ اس قلعے کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں اور تاریخ میں یہاں کے حکم رانوں، محافظوں سے منسوب کئی داستانوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مشہور ایک ایرانی کردار حسن بن صباح اور اس کی تخلیق کردہ جنّت ہے۔

دینیات، فلکیات، علمِ ہندسہ کے علاوہ منطق کے اس ماہر نے نوجوانی میں ایک مذہبی شخصیت سے متأثر ہو کر اسماعیلی فرقہ اپنا لیا اور جلد ہی خود بھی ایک مذہبی اور روحانی شخصیت کے طور پر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے میں کام یاب ہو گیا۔ اب اس نے قاہرہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح مصر کے فاطمی خاندان اور دربار تک رسائی حاصل کرلی، لیکن تین سال بعد مخالفت پر اسے وہاں سے ایران لوٹنا پڑا۔ یہاں پہنچ کر اس نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کو اپنا معتقد اور ہم خیال بنالیا۔ ایک طاقت ور مذہبی شخصیت بننے کے بعد اس نے مقامی علاقوں پر اپنی عمل داری قائم کر لی اور یہی وہ دور ہے جب حسن نے قلعہ الموت میں مصنوعی جنت بنائی جس کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔

ہلاکو خان کے دور کے ایک مؤرخ عطا ملک جوینی نے بھی اس قلعے کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ ’’الموت ایک ایسے پہاڑ پر واقع ہے جس کی شکل گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اونٹ جیسی ہے۔ قلعہ جس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے اس کے چاروں طرف ڈھلوانیں ہیں، صرف ایک تنگ راستہ ہے جس کا بڑی آسانی سے دفاع کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ہزاروں فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ واقعی ناقابلِ تسخیر تھا، مگر منگولوں نے چڑھائی کر کے اسے فتح کر لیا اور وہاں بڑا قتلِ عام کیا۔ تاریخ کے صفحات میں اسے1256  کا واقعہ بتایا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔