ہم سب کے لیڈر !

رئیس فاطمہ  ہفتہ 18 مئ 2013

مسلم لیگ (ن) کو ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘کا ثمربالآخر مل گیا اوراب وہ بھی یہ چاہتی ہوگی کہ اسے بھی جواب میں ویسی ہی اپوزیشن نصیب ہو۔لیکن اگر عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طورپر سامنے آتے ہیں تو میاں صاحب کو ایک طاقت ور، سچی اور مضبوط اپوزیشن تو میسر ہوگی لیکن فرینڈلی اپوزیشن کا خواب پورا نہیں ہوگا… البتہ پی پی چاہے تو وہ قرض اتارسکتی ہے۔ ایسی صورت میں راوی دونوں کے لیے چین ہی چین لکھتاہے… اس دفعہ الیکشن کے نتائج کچھ غیر معمولی نہ تھے۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ:

’’خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر‘‘

بس وہی کیفیت تھی… جب کہ سول سوسائٹی کے لوگ متفقہ طورپر عمران خان کو منتخب وزیراعظم کے طورپر دیکھنا چاہ رہے تھے کیونکہ تمام جماعتوں میں واحد عمران ہیں جنھوںنے صوبائی سوچ کو مسترد کیا ہے اور خود کو ایک قومی ہیرو کے طورپر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے حالانکہ کرکٹ کے زمانے میں ان پر جانبداری اور دوست نوازی کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی عمر نے ان کی سوچ میں ایک پختگی پیدا کردی ہے اور وہ یہ جان گئے ہیں کہ صوبائی سوچ رکھنے والے لیڈروں کا قد کاٹھ بہت جلد چھوٹا ہوجاتاہے… چند تجزیہ نگار موجود الیکشن کے رزلٹ کو1970کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جب مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی، ایمانداری اور دیانت داری کا تقاضہ تھا کہ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کردیاجاتا اس طرح پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا… لیکن مقتدر حلقوں کی خواہش کچھ اور تھی، وہ مغربی پاکستان کو طاقت کا سرچشمہ بنانا چاہتے تھے۔

اب پاکستان میں پنجاب بڑا صوبہ ہے اس لیے وہاں سیٹیں بھی زیادہ ہیں، جو وہاں سے کامیاب ہوگیا وہی مرکز میں حکومت بنانے کا اہل ٹھہرا… پیپلزپارٹی نے اپنا سب کچھ اس الیکشن میں دائو پر لگادیا۔ پورے پانچ سال کی کارکردگی ہر شعبے میں بد ترین رہی… لیکن کارکردگی تو کسی کی بھی اچھی نہیں رہی۔ کرپشن، صوبائی نفرتیں، فسادات، مہنگائی، بینکوں کے قرضے معاف کروانے کی روایت سب کی یکساں ہے۔ اقتدار میں رہنے والوں کے پچھلے نامہ اعمال اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ قومی سطح پر بہتر کارکردگی کہیں نظر نہیں آئے گی لیکن عوام نے میاں صاحب کو حکومت عطا کر دی۔ خدا کرے میاں صاحب صرف اپنی کارکردگی پنجاب تک محدود نہ رکھیں۔

کیونکہ اگر ایسا ہوا اور ماضی کے وہ نعرے دہرائے گئے جنھوں نے ن لیگ کو صرف پنجاب کی جماعت سمجھنے پر مجبور کیا تو آیندہ اس کا حشر بھی پی پی کی طرح ہوسکتاہے یعنی آج پیپلزپارٹی پر صرف سندھی پارٹی کا ٹھپہ لگ چکا ہے، اس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اس احساس کو مزید تقویت دی۔ میاں صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ ن لیگ پر صرف ’’پنجاب کی پارٹی‘‘ کا لیبل نہ لگنے دیں، انھوںنے یقینا ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے کثیر رقم میڈیا کے ذریعے چلائی جانیوالی انتخابی مہم پر خرچ کی، بار بار بے نظیر کی تصاویر میڈیا میں لہراکر جذباتی کرنا چاہا… لیکن یہ 2007 نہیں تھا جب بی بی کے قتل نے پیپلزپارٹی کو راتوں رات مظلوم بناکر ناقابل یقین حد تک کامیاب کرادیا۔

ان انتخابات کے دوران کچھ عجیب سی صورتحال سامنے آئی ہے۔ صوبائی سوچ واضح طورپر نظر آرہی ہے تو پھر پاکستان کہاں گیا؟… اگرپنجاب میں سرائیکی صوبہ وجود میں آجاتا تو صورتحال یقینا مختلف بھی ہوسکتی تھی… بہر حال میاں نواز شریف کو اب صرف پنجابی کے لیڈر کا تاثر دور کرنا ہو گا… مجھے یہ کہنے دیجیے کہ میاں شہباز شریف میں بھی بہت زیادہ سیاسی بصیرت ہے۔ وہ بھی اگلے حکومتی سیٹ اپ میں اہم کردار ادا کرینگے تاہم یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے ابتدائی بیان میں واقعی سیاسی تدبر کا ثبوت دیا… لیکن افسوس کہ ان کے اس دوستانہ اور امن کے خواہاں بیان کو بعض قوتوں نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ فوراً ہی پروگرام پیش کیے جانے لگے اور انتہا پسند جماعتوں کے نمایندوں اور کچھ ریٹائرڈ فوجیوں سے آسانی سے کہلوادیاگیا کہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس وقت تک ٹھیک نہیں جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو… میاں صاحب کی امن کی خواہش کو ان کا جرم بنادیاگیا جو کہ غلط تھا لیکن کیا کیجیے کہ کچھ نادیدہ قوتیں کوئی نہ کوئی کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔

ہوسکتاہے میری اس بات کو سن کر بعض انتہا پسندوں اور جماعتوں کا بلڈ پریشر اچانک ہائی ہوجائے اس وقت کشمیر کے مسئلے کو بلا وجہ کا ایشو بنایاگیاہے۔ در اصل دونوں طرف انتہاپسند مذہبی جنونی آگ اور خون کی ہولی کھیلنا چاہتے ہیں۔ انھیں بارود کی بو پسند ہے۔ ایک طبقہ یہ بھی کہتاہے کہ کشمیر میں جو کچھ گھنائونا کھیل کھیلاجارہاہے اس میں کچھ غلطیاں اور کچھ کنکر پتھر ہمارے بھی ہیں۔ کیسے کیسے تجزیہ نگار اور اہل قلم بیٹھے ہیں جو کشمیریوں کی محبت میں پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ جب کہ خود کشمیری کیا چاہتے ہیں یہ تو کسی نے پوچھنے یا جاننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ کیونکہ کچھ قوتیں ہمیشہ آدھا سچ ہی دکھانا چاہتی ہیں۔ پورا سچ ان سے ہضم نہیں ہوسکتا…

قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے الیکشن کے بارے میں کسی خوش فہمی کا اظہار نہیں کیاتھا۔ کیونکہ اتنا تو ایک عام ذہنی سطح کا آدمی بھی سمجھ سکتاہے کہ ہزار جمہوریت کا ڈھنڈورہ پیٹنے پر مامور افراد بھی اپنی ’’ڈیوٹی‘‘ پوری کرنے کے بعد گھر جاکر اپنے ضمیر کے آگے جواب دہ بھی ہوتے ہوںگے… لیکن کیا جائے کہ روٹی روزی ہر حال میں ضروری ہے… تبدیلی کے متمنی لوگوں کو مایوسی ہوئی کہ عمران خان کو قیادت نہیں ملی۔ کاش! انھیں ایک موقع ملتا مگر کیسے ملتا…

چلتے چلتے اتنا ضرور کہوںگی کہ اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملتا رہا ہے لیکن اس دفعہ معاملہ ذرا مختلف ہے کہ آزاد میڈیا جو پرویز مشرف کی دین ہے کی بدولت ہزار پردوں، ہزار پتلی تماشوں اور ڈھونگی ڈراموں کے عوام حقیقت پالیتے ہیں۔ میڈیا نے جو شعور عوام میں پیدا کیا ہے اسے سیاست کا ایک اہم ستون سمجھنا چاہیے۔ میڈیا کو اب میاں صاحب کو بار بار یہ یاد دلانا چاہیے کہ وہ قومی سطح کے لیڈر بن کر ابھریں اور احساس دلا ئیں کہ وہ ہم سب کے لیڈر ہیں، خدا انھیں کامیاب کرے۔آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔